عائشہ کی نہیں ‘غلطی معاشرے کی ہے

برصغیر پاک و ہند میں عام رواج ہے کہ بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے نصیحت کی جاتی ہے کہ اب سسرال سے تمہاری لاش ہی واپس آنی چاہئے، اس کے علاوہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیٹی کی لاش ہی واپس آتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ اس خطے میں بہت سے والدین بیٹوں کو تو اس قدر آزاد کر دیتے ہیں کہ وہ بگڑ جاتے ہیں‘ لیکن بیٹیوں سے ہر طرح کی آزادی چھین لیتے ہیں۔ جب بیٹے بری عادات کا شکار ہو جاتے ہیں‘ تب ماں باپ کہتے ہیں کہ اس شادی کر دو‘ یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک معصوم لڑکی‘ جس نے گھر اور مکتب کے علاوہ دنیا کی شکل نہیں دیکھی‘ وہ کیسے ایک بگڑے ہوئے شخص کو سدھار سکتی ہے؟ یہ نہایت غلط رجحان ہے، ایک بگڑے ہوئے شخص کی شادی کر کے دو خاندانوں کو مسلسل اذیت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ بگڑے ہوئے بچوں کو ٹھیک کرنا ہے تو انہیںاصلاحی مراکز میں بھیجیں یا ان پر سختی کریں۔ کسی معصوم بچی پر اپنے بگڑے بچوں کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری عائد نہ کریں۔ یہ عمر تو خود لڑکی کے پڑھنے لکھنے کی عمر ہوتی ہے، خواب دیکھنے کی عمر ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کچھ کر کے دکھائے، اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔ اس کو ایسا جیون ساتھی ملے جو اس کی زندگی پیار سے بھر دے۔
میں ذاتی طور پر مشترکہ خاندانی نظام کے حق میں ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ گھرانوں میں نو بیاہتا جوڑے کا جینا مشکل کر دیا جاتا ہے، ان کو خوشی سے بسنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اگرچہ سب کیسز میں مردوں کی غلطی نہیں ہوتی‘ کچھ معاملات عورتیں بھی خراب کر تی ہیں‘ جبکہ کچھ کیسز میں سسرال میں جب لڑکی بیاہ کر آتی ہے تو ساس‘ نندیں‘ بھاوج‘ یا دیگر رشتہ دار لڑکی کو تنگ کرتے ہیں اور بسنے نہیں دیتے۔ اس طرح میاں بیوی کے مابین ناچاقی پیدا ہو جاتی ہے اور نوبت جھگڑوں سے مارپیٹ اور طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ شادی کے بعد نئے جوڑے کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ اپنی گرھستی کو آگے لے کر چل سکے اور اپنی زندگی کو پُرسکون بنا سکے۔ اکثر ابتدا میں ہی لڑکا‘ لڑکی سسرال اور میکے کی رنجشوں اور چپقلشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تمہارے گھر والوں نے ہماری ٹھیک طرح عزت نہیں کی، تحائف کم تھے، کھانا اچھا نہیں تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اکثر ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ابتدا میں ہی رشتوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشروں میں شادی کے نام پر بیوپار پر بھی دھڑلے سے جاری ہے۔ لڑکی والوں سے جہیز کے نام پر کیا کچھ نہیں لیا جاتا۔ اگر امیر طبقے کی شادی ہے تو لڑکی جہیز میں گھر، گاڑی، پلاٹ کے علاوہ سونے کے سیٹ اور قیمتی تحائف لے کر آئے۔ لڑکے کو لاکھوں کی سلامی، طلائی گھڑی، گاڑی اور کاروبار تحفے میں دیا جائے۔ اگر متوسط طبقے کی شادی ہے تو والدین اپنے گردے بیچیں یا اپنی پگڑی ساہوکار کے پیروں میں رکھیں‘ پیسوں کا بندوبست کرنا ہو گا، لڑکی کو جہیز، دُلہے کو موٹی سلامی اور چھوٹی گاڑی، ساس کو سونے کا سیٹ اور نندوں کو سونے کی انگوٹھیاں تو دینا ہی ہوں گی، ورنہ لڑکی کو وہ طعنے سننے کو ملیں گے کہ وہ ساری زندگی روتی رہے گی، اس سب کے علاوہ سسرال کے مردوں کو کپڑے اور گھڑیاں وغیرہ بھی دینا لازم قرار پاتا ہے۔ غریب طبقے کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی بیٹی کے باپ کو جہیز معاف نہیں۔ سائیکل دے یا موٹر سائیکل، سلائی مشین دے یا ٹی وی‘ بیٹی کو خالی ہاتھ لینے کو کوئی تیار نہیں۔ رشتہ کرتے وقت کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی رحمت‘ اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک‘ اپنے جگر کا گوشہ‘ اپنی سب سے پیاری چیز ہمیں دے رہے ہیں‘ بس ہمیں مزید کچھ نہیں چاہئے بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو کچھ نہیں چاہیے‘ جو بھی آپ دیں گے وہ آپ کی ہی بیٹی کے استعمال میں آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے گھر میں ضرورت کی اشیا موجود نہیں ہیں کہ نئی آنے والی تمام اشیا اپنے ساتھ لے کر آئے؟ کیا آپ بیٹے کی شادی کے بجائے اس کا سودا کر رہے ہیں؟
رسومات، تقریبات اور جہیز کے نام پر شادی کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ نوجوان نسل نکاح کو مشکل اور گناہ کو آسان سمجھنے لگی ہے۔ اس سے مسائل اور سانحات جنم لے رہے ہیں۔ لالچ نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ بھلے جہیز کے لالچ میں لڑکے کی شادی کی عمر گزر جائے، بچے برباد ہو جائیں، تشدد سے بیٹیاں مر جائیں لیکن ماں باپ کے گھر واپس نہ آئیں، اس سے برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ جو لڑکیاں زبردستی واپس میکے کو بھیج دی جاتی ہیں‘ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کا گھر بسا رہے لیکن ضد، انا، ہٹ دھرمی اور لاتعداد خواہشات کے سبب معاملہ بگڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ بھارت کی معصوم اور کم عمر عائشہ کے ساتھ ہوا۔ اس کو سسرال میں مختلف حیلے بہانوں سے اتنی اذیت دی گئی کہ وہ اپنی جان لینے پر مجبور ہوگئی۔ کئی بار اسے مارپیٹ کے بعد میکے واپس بھیجا گیا، وہ وہاں سے پیسے بھی لائی مگر معاملہ مزید بگڑتا گیا۔ عائشہ نے خودکشی سے پہلے کشتی میں بیٹھ کر ایک وڈیو بنائی جس میں اس کے چہرے پر سکون نمایاں تھا۔ وہ مسکرا بھی رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ یہ مشکل فیصلہ کر چکی ہے کہ اب اسے دنیا کی تکالیف مزید نہیں جھیلنی اور جلد از جلد اپنے خالق کے پاس لوٹ جانا ہے۔ عائشہ‘ احمد آباد (بھارت) کی رہائشی تھی۔ وہ اپنے شوہر سے بہت پیار کرتی تھی‘ اسے اپنے والدین سے بھی بہت محبت تھی۔ اس نے اپنی آخری وڈیو میں کہا کہ میں خدا سے مل کر پوچھوں گی کہ میری غلطی کہاں تھی۔ میں سکون سے جا رہی ہوں اور دعا کر رہی ہوں کہ خدا مجھے دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔ اس نے اپنے والدین سے دعاکی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے دعا کرتے رہیے گا، معلوم نہیں مجھے جنت ملے نہ ملے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا فون اور بیگ وہیں کشتی میں رکھا اور خود دریائے سابرمتی میں کود کر جان دے دی۔ عائشہ نے یہ انتہائی اقدام کرنے سے پہلے اپنے شوہر کو بھی فون کیا اور والدین کو بھی۔ انسان بھی کیا شے ہے کہ اپنے قریبی رشتوں کو اتنی اذیت پہنچاتا ہے کہ وہ اپنی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اگر شوہر بیوی کے ساتھ بدسلوکی شروع کردے، اس کا دل توڑنا، اس کو اذیت دینا، اس کو نیچا دکھانا اور اس کی بے عزتی کرنا شروع کر دے تو ایک پھول جیسی لڑکی مرجھا کر رہ جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہونے کے بعد لڑکی بیمار رہنے لگتی ہے، اس پر بھی اسے ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے فارغ کرو، کوئی دوسری لے آئو، اس کا تو ذہنی توازن ہی ٹھیک نہیں۔ عائشہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ 2018ء میں اس کی شادی ہوئی تھی مگر اس کا شوہر کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا، عائشہ کو جب یہ پتا چلا تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اس کا سب کچھ تو اس کا شوہر ہی تھا۔ جب یہ معاملہ عائشہ نے اپنے سسرال والوں کے سامنے رکھا تو وہ اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کے دشمن بن گئے اور آئے دن اس سے جہیز کا مطالبہ کرنے لگے۔ یوں عائشہ کے سارے خواب بکھر گئے، نہ پیار ملا نہ خوشیاں، الٹا زندگی عذاب بن گئی۔ عائشہ تعلیم یافتہ تھی اور جاب بھی کر رہی تھی لیکن شوہر کی برے رویے نے اسے اندر سے توڑ دیا، اوپر سے سسرال کے مظالم اور نت نئی فرمائشیں، تھک ہار کر اس نے اپنی جان دے دی۔ کاش کہ کوئی ایسا بھی قانون ہو جس میں دل توڑنے پر بھی سزا دی جائے، جس میں بے وفائی پر بھی تعزیر ہو۔ خودکشی تک پہنچا دینے والوں کو بھی سزا دی جائے۔ شاید عائشہ کے سسرال اور اس کے شوہر کو کڑی سزا ملے تو ہی برصغیر کے معاشروں میں جہیز کی لعنت ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ آئیں! عورتوں پر تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں، انہیں ایسے رشتوں پر بندھے رہنے پر مجبور مت کریں جو انہیں تکلیف دے رہے ہوں۔ لڑکیوں کو بھی یہ بات سوچنی چاہیے کہ جس نے آپ کی زندگی میں آپ کی قدر نہیں کی، وہ آپ کے مرنے پر بھی افسردہ نہیں ہوگا۔ اپنے لیے جئیں، خوش رہیں اور کم ظرف لوگوں سے دور رہیں جو آپ کی خوشیوں کے دشمن ہیں۔ اللہ نے جو زندگی دی ہے، اس کی قدر کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں