پاکستان اور چین کی دوستی لازوال ہے، پاکستان اور چین نے ہمیشہ مشترکہ مفادات کا احترام کیا اور مشکل کی گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ جس وقت چین میں کورونا کی وبا پھیلی‘ پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر پاکستان کی طرف سے امدادی سامان سی ون تھرٹی کے ذریعے چین کے صوبے ووہان میں پہنچایا، پھر چین سے پاکستان کو ملنے والا سامان‘ جس میں وینٹی لیٹرز، این 95 ماسک اور حفاظتی لباس شامل تھے‘ وہ بھی پاکستان لائے۔ اس وبا کے دور میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے، ایک دوسرے کی مدد کی اور مشترکہ دفاعی مشقوں میں حصہ لیا۔ اگر ہم بات کریں پاک چین اقتصادی راہداری کی تو اصل میں یہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے ''بی آر آئی‘‘ کا ایک حصہ ہے جو سلک روٹ کا تسلسل ہے۔ پاک چین تعلقات کی ایک مضبوط کڑی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے جو دونوں ممالک کا مشترکہ پلان ہے جس کا مقصد چین سے براستہ پاکستان تجارتی راہداری کو دنیا بالخصوص وسط ایشیا کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبہ صرف سڑکوں پر مشتمل نہیں ہے‘ اس کے بہت سے دیگر منصوبے بھی ہیں جن میں انرجی، انفراسٹرکچر ،ریلویز، اکنامک زون، بندرگاہ، سوشل سیکٹر اور ویسٹرن روٹ وغیرہ شامل ہیں۔ چین سے گوادر تک سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے تاکہ گودار کے گرم پانیوں کے ساحل کے ذریعے دنیا بھر سے تجارت ہو سکے۔ تجارتی مال آسانی سے بذریعہ سڑک بندرگاہ تک آ سکے اور اس پر خرچ بھی کام آئے۔ اس کے برعکس بحر ہند سے بحری یا فضائی سفر سے تجارتی مال کا آنا بہت مہنگا پڑتا ہے، اسی لئے یہ منصوبہ بہت سودمند ثابت ہو رہا ہے۔ اس منصوبے سے پورا خطہ بالخصوص وسط ایشیائی ریاستیں، روس، افغانستان اور ایران بھی بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آئندہ چند سالوں میں بحری تجارت میں گوادر کا ایک خاص مقام ہو گا، بالخصوص وسط ایشیا اور خلیج سے مشرقی ایشیا تک کے لیے یہ سب سے سستا روٹ ہو گا اور اسی لیے تیل اور گیس کی بیشتر تجارت اس روٹ سے ہوا کرے گی۔خیال کیا جا رہاہے کہ 2022ء تک 13ملین ٹن کارگو کے لیے گوادر پورٹ استعمال کی جائے گی اور یہ بندرگاہ خطے کی کمرشل حب کا درجہ اختیار کر جائے گی۔اس منصوبے میں کچھ طویل مدتی منصوبے بھی شامل ہیں جو 2017ء میں شروع ہوئے اور 2030ء میں مکمل ہوں گے۔ اس راہداری میں جو اہم شہر آتے ہیں ان میں چین کے شہر کاشغر، اتوشی، تمشُق، شیولے، شہیفو، ایکتو، تاشکورگن تایک اور پاکستان کے شہر گلگت، پشاور ، ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد، لاہور، ملتان، کوئٹہ، سکھر، حیدرآباد، کراچی اور گوادر شامل ہیں۔
قریب سات سال قبل جب اس پروجیکٹ کا آغاز ہوا تو اس وقت اس کی لاگت 47 بلین ڈالر تھی جو اب 62 بلین ڈالر ہو چکی ہے۔ 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ نے اس کا باقاعدہ آغاز کیا اور پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان 46 بلین ڈالر کے معاہدے سائن ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی گوادر پورٹ اور شہر میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ 2020ء میں کورونا کی عالمی وبا کے باوجود سی پیک منصوبے پر کام نہیں رکا اور ایس او پیز کے ساتھ کام جاری رکھا گیا۔ اگر گوادر پورٹ کی بات کی جائے تو یہاں پر پورٹ کا کام مکمل کیا گیا اور ساحل پر ڈارک یارڈ تعمیر ہوا۔ گودار سٹی میں رہائشی سکیموں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ گوادر سٹی میں فائبر آپٹکس بچھائی جا رہی ہے اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں 50 بیڈز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاک چین دوستی ہسپتال جو 150 بستروں پر مشتمل اور جدید سہولتوں سے مزین ہے‘ کی تعمیر بھی کی گئی ہے۔ گوادر میں تعلیمی منصوبوں اور صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ فنی تعلیم کیلئے گوادر ووکیشنل انسٹیٹیوٹ جبکہ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بھی سول ورک کا آغاز ہو چکا ہے۔
اگر ہم توانائی کے شعبے کا ذکر کریں تو اس حوالے سے بھی بہت کام ہوا ہے۔ 2020ء میں 320 میگاواٹ تھر اور 330 میگاواٹ تھل منصوبے مکمل ہوئے، اس کے علاوہ دیگر معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے جن میں 300 میگاواٹ گوادر پاور، 701 میگاواٹ آزاد پتن ہائیڈرل پروجیکٹ اور 1124 میگاواٹ کوہالہ ہائیڈرل پروجیکٹ شامل ہیں۔ گزشتہ برس اپریل میں گوادر بندرگاہ سے افغان ٹرانزٹ تجارت کا آغاز ہوا اور اس پورٹ کو فری زون کو طور پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔ گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کیلئے 42 کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے ہیں۔ راہداری منصوبے کے تحت زراعت‘ سائنس اور سیاحت کے منصوبوں پر بھی کام ہوگا۔ گزشتہ برس مشترکہ ورکنگ گروپس بھی قائم کئے گئے جن کے تحت ایکشن پلانز تیار کیے گئے ہیں۔
اس وقت پاکستان اور سی پیک کے خلاف Kinetic اور non kineticاِر ریگولر وارفیئر جاری ہے۔ اس وارفیئر میں کسی بھی ملک‘ اس کے سکیورٹی اداروں اور اقتصادی منصوبوں کے خلاف مذموم منصوبے بنائے جاتے ہے۔ کائنیٹک وارفیئر میں اہم تنصیبات پر حملے کئے جاتے ہیں، عملے کو اغوا کیا جاتا ہے، بم دھماکے اور دہشت گردی کروائی جاتی ہے۔ سی پیک منصوبے کے آغاز میں یہی کچھ ہوا تھا۔ اہم ملکی و قومی تنصیبات پر حملے ہوئے، چینی انجینئرز اور پاکستانی عملے کو اغوا کیا گیا، ان پر حملے ہوئے جن میں بھارتی ''را‘‘ بی ایل اے جیسے گروپوں کی صورت میں ملوث تھی۔ پاک فوج کے بروقت اقدام کی وجہ سے یہاں دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، بہت سے منصوبے کامیابی سے مکمل ہوئے اور بہت سے اب بھی زیر تعمیر ہیں۔ اب اس منصوبے کے خلاف نان کائنیٹک جنگ کا آغاز ہوگیا ہے جس کے تحت اس پروجیکٹ کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ ٹرینڈز بنائے جا رہے ہیں۔ بہت سے نام نہاد دانشور اور لبرل حضرات اس کے پیچھے ہیں۔ جنہوں نے بیرونی ممالک میں سیاسی پناہ لینا ہوتی ہے‘ ان کا طریقہ واردات بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلے ریاستی اداروں کے خلاف بولنا شروع کرتے ہیں‘ پھر سی پیک کے خلاف منظم مہم چلاتے ہیں اور اس کے بعد ریاست کی وحدت کے خلاف باتیں کر کے جان کو خطرہ ہونے کا ووایلا مچا کر مختلف ممالک میں چلے جاتے اور ان ممالک کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ لوگ مسلسل بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ریاست کے خلاف مہم چلاتے رہتے ہیں۔ کچھ لوکل میڈیا سیل بھی اس کام میں ان کے معاون بن جاتے ہیں، کچھ سادہ لوح لوگ جو اس گریٹ گیم کو نہیں جانتے‘ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں یا جذبات کی رو میں بہہ کر ملک کے خلاف ہونے والی اس سازش کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اکثر بیرونی ممالک میں ملکی سفارتخانوں، اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کے باہر کرائے کے لوگوں کے ذریعے مظاہرے بھی اسی مقصد کے تحت کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی باقاعدہ منصوبہ بندی کا یہ پردہ ''انڈین کرونیکلز‘‘ میں بھی فاش کیا گیا ہے۔ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ سی پیک کے خلاف ہونی والی مہم کا موثر جواب دیں، جیسے جیسے یہ منصوبہ تکمیل کی جانب بڑھے گا، اس کے خلاف مہم میں بھی تیزی آتی جائے گی جو ابھی بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ آرٹیکلز لکھوائے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا ٹرینڈ بنائے جا رہے ہیں اور جعلی وڈیوز پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس سب کا مقصد گوادر کو معاشی حب بننے سے روکنا ہے لہٰذا ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ ضروری ہے کہ سی پیک اور بلوچستان کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھوں کو نوچ دیا جائے اور ملکی سالمیت کے خلاف بولنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس وقت بہت سے ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت سی پیک کو نقصان پہچانا چاہتے ہیں، ان کی نظر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر بھی ہے اور یہ چین میں بھی بدامنی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیں اپنے دفاع سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور ایسی منفی مہمات کا بھرپور جواب دینا چاہیے۔