رمضان المبارک کا مہینہ اپنے ساتھ بہت سی رحمتیں لاتا ہے ‘اس لئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ماہ ِصیام میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکیں۔ فرض عبادات کریں اور نفلی عبادات بھی کریں تاکہ ہمیں زیادہ ثواب ملے اور ہم جہنم کی آگ سے محفوظ سے رہ سکیں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا : روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے‘ ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا‘ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا(بخاری‘ الصحیح‘ کتاب الصوم‘ باب الریان للصائمین‘ 2 : 671‘ رقم : 1797)۔
قرآن ِپاک کا نزول اسی ماہِ مبارک میں ہوا اور اس ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت ‘دوسرا مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا باعث بنے گا۔اس کی طاق راتوں میں لیلتہ القدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اس لئے اس کی ہر ساعت قیمتی ہے۔ رمضان میں شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔اس ماہِ مبارک میں ہم اپنے نفس کو قابو کرکے خود کو تقویٰ کے حصول کی طرف گامزن کرسکتے ہیں۔سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔طلوعِ آفتاب سے غروب ِآفتاب تک مسلمان کچھ نہیں کھاتے پیتے اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں اس کے بعد افطار کرتے ہیں ‘اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں اور پھر سیر ہونے کے بعد مزید عبادت کرتے ہیں۔اس ماہ میں ختم القرآن اور تراویح کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ہمیں اس ماہ مبارک میں عبادت زیادہ کرنی ہے‘ اپنے نفس پر قابو پانا ہے‘صبر اور شکر کرنا ہے ‘قرآن پاک کی تلاوت کرنی ہے ‘ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے بہت سے لوگ گھروں میں ہیں تو قرآن پاک کے معلم آن لائن کلاسز لے رہے ہیں ان کلاسز میں حصہ لیں اور اپنے علم اور نیکیوں میں اضافہ کریں۔اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کریں جو اس دنیا سے گزر گئے ہیں ان مرحومین کے لیے بھی کثرت سے دعا کریں۔زکوٰۃاور صدقات کا اہتمام کریں۔ روزہ داروں کی سحری اور افطاری کروائیں۔اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور کثرت سے توبہ استغفار کریں۔
روزہ میں بھوک پیاس برداشت کرتے وقت اپنے غصے پر قابو رکھیں‘ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی بدکلامی یا جھگڑے کی کوشش کرے تو روزہ دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ایک اور حدیث کے مطابق جب کسی نے روزہ رکھا ہو تو اسے چاہیے کہ فحش گوئی اوربدکلامی نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا زشخص اس سے گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا کرنا بھی چاہے تو وہ اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ ماہ رمضاں میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں کیونکہ جنت کے دروازے اس وقت کھلے ہیں۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں ہر چیز کی ایک زکوٰۃ ہے بدن کی زکوٰۃروزہ ہے۔ (ابن ماجہ‘ کتاب الصیام‘ باب فی الصوم زکوٰۃ الجسد‘ 2 : 361‘ رقم :1745) روزہ جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہے‘ یعنی روزہ رکھنے سے انسان جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔روزہ کی حالت میں انسان خود کو گناہ سے بچاتا ہے‘ اس کی آنکھ ‘کان‘ زبان‘ہاتھ اور دوسرے اعضا گناہوں سے بچے رہتے ہیں‘ وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ کوئی حرام کام اس سے سرزد نہ ہو۔
اگر کچھ بات کی جائے حقوق العباد کی تو ان کی بھی بہت فضیلت ہے‘ نبی پاکﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو ایک کھجور پر دودھ کے چند گھونٹ پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روز دار کا روزہ افطار کرادے اور جو کوئی کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔اس لئے ہمیں عبادت کے ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے‘ لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔جب اپنے لئے خریداری کریں‘ راشن خریدیں تو اپنے ماتحت افراد جیسا کہ ملازمین کے لیے بھی راشن خریدیں ‘اگر آپ کے محلے یا رشتہ داروں میں کوئی غریب ہے تو اس کو بھی افطار اور سحر کے لیے راشن خرید کر دیں۔متوسط طبقہ اور مستحق لوگ کبھی بھی ہاتھ نہیں پھیلاتے ان کو خود پہچان کر ان کی مدد کریں۔اس کے ساتھ ساتھ جب گھر میں سحری ‘ افطاری تیار ہو تو ہمسایوں میں بھی ضرور بھجوائیں‘ اس سے پیار بڑھتا ہے۔اس کے ساتھ گلی میں ڈیوٹی دیتے گارڈز اور دیگر عملے کو بھی گھر کی بنی ہوئی افطاری دیں۔اگر وقت اور پیسے ہیں تو افطاری کے سامان کو ڈبوں میں پیک کریں اور سڑکوں‘ ہسپتالوں اور بازاروں کے پاس عوام میں بانٹ دیں‘ آپ کی اس نیکی سے بہت سے لوگ شکم سیر ہوکر کھائیں گے اور آپ کو بہت ثواب ملے گا۔
تاجروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ان چیزوں کے دام نہ بڑھائیں جو سحر اور افطار میں استعمال ہوتی ہیں۔ اتنے بڑے بڑے مالز ہیں ‘دکانیں ہیں برانڈز ہیں‘ کیا ایک کارنر پر کچھ اشیا رکھ کر یہ نہیں لکھ سکتے کہ جن کے پاس یہ اشیا خریدنے کے پیسے نہیں وہ یہ ہماری طرف سے مفت‘ بطور تحفہ قبول فرمائیں؟ایسے سٹال یا فریج کم ہی نظر آتے ہیں۔پہلے کچھ نوجوانوں نے دیوارِ مہربانی بنائی تھی جہاں سے لوگ اپنے لئے کپڑے مفت میں لیجاتے تھے ‘اس طرز پر بڑے برانڈز کو کھانے پینے کی اشیا کو بھی اس طبقے کے لیے مہیا کرنا چاہیے جو یہ اشیا خرید نہیں سکتے۔اربوں کے ٹرن اوور میں کچھ حصہ زکوٰۃ اور صدقات میں چلا جائے تو دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی‘ اس لئے یہ ضرور کوشش کریں کہ روزہ داروں کو پیٹ بھر کھانا مل سکے۔
رمضان المبارک میں موسم گرم ہے ‘اس لئے پیاس محسوس ہوگی ‘یہی ہمارا اصل امتحان ہے کہ ہم نے صبر کرنا ہے اور غصہ نہیں کرنا۔کچھ لوگ روزہ رکھ کر سارا دن سوئے رہتے ہیں‘ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے‘ روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے‘اس ماہ مبارک کی ہر گھڑی قیمتی ہے‘اس میں جتنی نیکیاں کی جائیں کم ہیں اور جتنی عبادت کی جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ اس کا ثواب دگنا ہے۔روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے جو ہجرت کے دوسرے سال میں مسلمانوں پر فرض کیا گیا تھا۔ماہِ صیام کے دنیوی فائدے بھی ہیں اور اخروی فائدے بھی ہیں ‘یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس ماہِ مبارک میں کتنا ثواب کمانا چاہتے ہیں۔
اس مہینے میں آپس کی تلخیاں ختم کرلیں اور ایک دوسرے کو معاف کردیں۔غریب رشتہ داروں کی مالی معاونت کریں اور ان کے گھروں میں خاموشی سے پیسے یا راشن پہنچا دیں تاکہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔اس کے ساتھ اپنے ملازمین کو بھی رمضان میں راشن کے ساتھ زیادہ تنخواہ دیں اور کام کے اوقات کار کو کم کردیں ‘ان کو بھی آرام اور عبادت کا موقع دیں۔کھانے پینے کی اشیا کے دام مت بڑھائیں‘ ان میں ملاوٹ مت کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں۔
اس وقت بہت سے لوگ کورونا کی وبا کی لپیٹ میں ہیں‘ ہر نماز میں خصوصی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس وبا کو ختم کردے اور بیمار لوگوں کو صحت یاب فرمائے۔کورونا میں مبتلا افراد کی بھی مالی مدد کریں اور فون پر ان کی دلجوئی کریں تاکہ وہ خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ان کے ساتھ آئے ہوئے لواحقین کے لیے آپ ہسپتالوں میں افطاری اور سحری پہنچائیں ‘لیکن یہ تمام کام منہ پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہن کر کئے جائیں۔مرد جب گھر پر موجود ہوں تو سحر اور افطار میں خواتین کا ہاتھ بٹائیں اس سے ان کادل بہت خوش ہو گا اور گھر کے ماحول پر خوشگوار اثرات پڑیں گے۔چھوٹے سٹال اور ٹھیلے والوں سے قیمت پر بحث نہ کریں کیونکہ بڑے مال میں جہاں قیمتیں فکسڈ ہوتی ہیں وہاں تو گاہک چپ رہتے ہیں اور غریب دکانداروں پر رعب جھاڑتے ہیں۔تمام لوگوں کا احترام کریں ‘ حسنِ سلوک سے رہیں۔ مساجد اور مدارس میں بھی چندہ دیں اس کے ساتھ فلاحی اداروں‘ یتیم خانوں ‘ اولڈ ہومز اور خیراتی ہسپتالوں میں بھی زکوٰۃ اور صدقات دیں۔اللہ تعالیٰ ہماری عبادات اور نیکیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں کورونا کی وبا سے نجات دے ۔آمین!