حال ہی میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں کثرتِ رائے کے ساتھ پاکستان کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد کے حق میں 662 ووٹ اور مخالفت میں صرف تین ووٹ ڈالے گئے۔ یہ معاملہ ہماری سفارتکاری پر سنگین سوالیہ نشان ہے کہ دنیا بھر میں ہمارے سفارت کار موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم سفارتی تنہائی کا شکار کیوں ہیں۔ اگر بہت سے سفارت کار عوام کی مدد نہیں کر رہے‘ ملک کا پیغام نہیں عام کر رہے‘ تو یقینا یہ سفارتی مشنز حکومتی خزانے پر بوجھ ہیں۔ عوامی مطالبہ یہی ہے کہ جو سفارتکار اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہے‘ ان کو واپس بلائیں اور سفارت خانوں کا عملہ اور اخراجات بھی کم کریں۔ بات ہو رہی تھی یورپی یونین کی پارلیمان کی قرارداد کی‘ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے 295 سی اور بی دفعات کا خاتمہ کرے اور ساتھ ہی پاکستان پر معاشی ضرب لگانے کیلئے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر نظر ثانی کی جائے۔
پہلے بات کرتے ہیں ناموس رسالت قانون کی۔ اس قانون کے تحت توہین مذہب، توہین رسالت اور توہین قرآن کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیتے ہوئے سخت سزا تجویزکی گئی ہے۔ اس خطے میں ایسا قانون انگریز دور میں بھی موجود تھا۔ گستاخ پبلشر راج پال کو اسی قانون کے تحت سزا سنائی گئی تھی لیکن جب سیشن کورٹ میں راج پال کو صرف چھ ماہ سزا ملی اور ہائیکورٹ میں اس سزا کو بھی ختم کر دیا گیا تو غازی علم دین شہید نے اس کو قتل کر دیا۔ پاکستان میں صدر ضیاء الحق کے دورِ صدارت میں قرآن و سنت کی روشنی میں توہین مذہب پر قانون سازی ہوئی تھی۔ تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295 کی شق سی کے مطابق‘ جو کوئی تحریری‘ تقریری‘ اعلانیہ‘ بلاواسطہ یا اشارتاً شعائر اسلام یا مقدس ہستیوں کا استہزا کرے گا‘ وہ سزائے موت یا عمر قید کا مستوجب ہوگا۔
یورپی یونین کی قرارداد میں دفعہ 295 کی شق بی اور سی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان شقوں کی مطابق قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والا عمر قید کی سزا کاٹے گا اور نبی پاکﷺ کی توہین کا مرتکب ہونے والا بغیر وارنٹ کے گرفتار ہو گا اور اس کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنائی جا سکے گی۔ صرف پاکستان ہی نہیں‘ سعودی عرب اور ایران میں بھی اس جرم کی سزا موت ہے۔ دیگر کئی ممالک میں بھی توہین مذہب کا قانون موجود ہے۔ توہین مذہب کے قانون کے مطابق‘ رسول اللہﷺ کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور الہامی کتابوں کا احترام بھی ضروری ہے۔
ناموس رسالت کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات جڑے ہیں؛ تاہم مغرب میں بیٹھے کچھ شرپسند جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتے رہتے ہیں اور اس کو آزادیٔ اظہارِ رائے کا نام دیتے ہیں۔ توہین مذہب اور توہین مذہبی شخصیات کا تعلق قطعاً آزادیٔ رائے سے نہیں ہے بلکہ یہ فتنہ و شر انگیزی اور سنگین جرم ہے جس سے لوگوں کے جذبات مجروح کیے جاتے ہیں اور ان کو تشدد پر اکسایا جاتا ہے۔ اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ایسی جسارت کرتا ہے تو اس ضمن میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ دورِ نبوی میں کفار نے جو بھی گستاخانہ فعل انجام دیے یا ایسے اشعار لکھے تو وہ کلمات آج تک کسی کو معلوم نہیں ہیں کیونکہ نہ تو ان کو لکھا گیا نہ ہی یاد رکھا گیا۔ اس لئے کوشش کریں کہ جب بھی ایسا کوئی مواد دیکھیں تو فیس بک، یوٹیوب اور ٹویٹر وغیرہ کو رپورٹ ضرور کریں۔ اس کے ساتھ پی ٹی اے کو بھی مطلع کریں لیکن اس کو شیئر ہرگز مت کریں۔ مذمت اس مواد کو پھیلائے بنا بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسا مواد اَپ لوڈ کرنے والوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کی تشہیر کر کے عام لوگوں کے جذبات کو مشتعل کیا جائے۔ جتنا ہو سکے اسے نظر انداز کریں اور رپورٹ کر کے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ سیرت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول کریمﷺ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کا انتقال ہوا تو کفارِ مکہ نے کہا کہ اب محمد (ﷺ) کا نام لیوا کون ہوگا۔ اس پر اللہ رب العزت نے آپﷺ کی تسکین کیلئے سورۃ الکوثر نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری دی گئی کہ بلاشبہ آپﷺ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا۔ آج حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بے و نام نشان ہیں اور ساڑھے چودہ سو سال گزرنے کے باوجود رسول اللہﷺ کا نام مبارک اور پیغام روشنی کی مانند چہار سو پھیلا ہوا ہے اور تاقیامت یہ نام نامی بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔
ناموس رسالت کے قانون پر عوام کسی صورت سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ البتہ اس چیز کا دھیان رکھا جائے کہ جس طرح مجرم کی سزا یقینی بنائی جاتی ہے‘ اسی طرح کسی معصوم پر الزام لگا کر اس کو پابند سلاسل کرانے والوں کو بھی سخت سزا دینی چاہیے۔ کچھ سال قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ سفارش پیش کی تھی مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکے‘ ضرورت ہے کہ اس پر مزید کام کیا جائے۔ اگر بات کریں جی ایس پی پلس کی رعایتوں کے خاتمے کے حوالے سے تو‘ 2014ء میں اس رعایت کے تحت پاکستان کو یورپی یونین کے ممالک میں مصنوعات کی درآمد ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اب پاکستان کو ڈرانے کیلئے یہ قرارداد پیش کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں باقی دنیا سے بے نیاز ہو جانا چاہیے کیونکہ قرآن پاک کی سورہ ہود میں اللہ تعالیٰ صاف صاف فرماتے ہیں ''اور زمین پر کوئی چلنے والا جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ جانتا نہ ہو کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے‘ یہ سب کچھ کتاب روشن میں درج ہے‘‘۔
توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے ایک یہ افواہ اڑائی گئی ہے کہ اس قانون سے اقلیتیں نشانہ بن رہی ہیں‘ حالانکہ اگر حقائق کو مدنظر رکھیں تو علم ہوتا ہے کہ اس قانون کے تحت سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں پر ہی درج ہوئے ہیں‘ اقلیتوں کا نمبر بعد میں آتا ہے؛ تاہم یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کی جان و مال کا ہر ممکن تحفظ یقینی بنائے۔ آئین پاکستان کے تحت تمام مذہبی اقلیتیں اپنی مذہبی رسومات اور عبادات میں آزاد ہیں اور کسی پر کوئی جبر نہیں؛ تاہم جو شرپسند دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں‘ ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے؛ البتہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے پر لپکے۔ قانون کے تحت مجرم کو سزا صرف عدالت سنائے گی، کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔
حبِ رسولﷺ کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو حضور کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کی طرف لے کر جائیں۔ آپﷺ کی تعلیمات کو دنیا بھر میں عام کریں، ہر سفارت خانے کو تفسیر اور سیرت النبیﷺ کی کتابیں انہی کی زبان میں ترجمے کے ساتھ ہدیہ کریں۔ سوشل میڈیا پر امن اور اسلام کے پیغام کو عام کریں۔ ریاستی سطح پر اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہیے اور یہ بات باور کرائی جائے کہ توہین مذہب آزادیٔ رائے نہیں ہے‘ اس حوالے سے نرمی برتنا انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے کے علاوہ اربوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ہمیں دنیا سے جنگ نہیں کرنی لیکن سب کو سفارتی آداب کے تحت یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ ناموس رسالت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔