پاک سعودیہ تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے مثالی رہے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت فرمائی۔ اگر اسلام آباد پر نظر دوڑائیں تو اس دوستی کی عظیم نشانی مارگلہ کے دامن میں شاہ فیصل مسجد کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی دونوں ممالک کی دوستی کا شاہکار ہے جہاں سے اب تک لاکھوں طالبعلم فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ 2005ء کا زلزلہ ہو یا 2010ء کا سیلاب‘ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اور پاکستان کی ہر ممکن مدد کی۔ مجھے یاد ہے جب 2010ء میں سعودی سفیر ہم چند رپورٹرز کو اپنے ساتھ نوشہرہ‘ چارسدہ اور پبی لے کر گئے تھے جہاں انہوں نے سیلاب متاثرین میں امداد اور کیش تقسیم کیا تھا۔ وہاں اتنا پانی‘ کیچڑ اور تعفن تھا کہ مجھے آشوبِ چشم ہوگیا۔ شدید تکلیف میں بھی میں رپورٹنگ کرتی رہی اور معزز سفیر تمام تر نامساعد حالات‘ کیچڑ‘ سیلابی پانی‘ مکھیوں‘ مچھروں اور تعفن کے باوجود سیلاب متاثرین میں امداد تقسیم کرتے رہے جس سے بہت سے غریب خاندانوں کا بھلا ہوا۔
وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ فروری 2019ء کے اس دورے میں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ ریاض اور اسلام آباد کے مابین 20 ارب ڈالر کے 7 اہم معاہدے ہوئے۔ ان میں تیل، خام پیٹرول، ریفائنری، توانائی، کان کنی، زراعت، کھیل اور ثقافت کے منصوبے شامل تھے۔ سعودی شہزادے نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا اور خود کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر کہا۔ عوام میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان نے شہزادہ محمد بن سلمان کیلئے خود گاڑی ڈرائیو کی۔ اس کے بعد‘ جب وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیلئے جانا تھا تو اس وقت ولی عہد نے اپنا ذاتی جہاز بھیج دیا؛ تاہم اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین کچھ عرصہ سرد مہری رہی، شاید اس کی وجہ پاکستان کا یمن کی جنگ سے دور رہنا تھا۔ کچھ انگلیاں وزیراعظم کے مشیران کی طرف بھی اٹھیں اور کچھ پاکستان کا ترکی کی جانب جھکائو تھا۔ البتہ سعودی عرب نے ہمیں بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد کشمیر ایشو پر اس طرح سپورٹ نہیں کیا‘ جس طرح اس سے پہلے کیا کرتا تھا؛ تاہم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سفارتی حکمت عملی نے دونوں ممالک کے مابین در آئی خلیج کو دور کیا اور حال ہی میں پاک فضائیہ اور سعودی ایئر فورس نے مشترکہ جنگی مشقوں کا انعقاد کیا۔ آیسز میٹ 2021ء کی دو ہفتے کی مشقوں میں سعودی پائلٹس نے جنگی جہاز ٹارنیڈو ملٹی رول جیٹ اور پاکستانی پائلٹس نے ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر جیٹس کے ساتھ حصہ لیا۔میجر جنرل عید بن باراک العطیبی، کمانڈر شاہ عبدالعریز، وائس مارشل عبداللہ الزہرانی اور پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف المالکی نے خصوصی طور پر ان مشقوں میں شرکت کی۔ پاک فضائیہ کی اس عسکری سفارت کاری سے دونوں ممالک کے مابین برف پگھلی۔ اس کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں اہم پیش رفت ہوئی اور جنرل باجوہ رمضان کے آخری عشرے میں سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ ان کا یہ دورہ اسی باجوہ ڈاکٹرائن کا حصہ تھا جس کے تحت انہوں نے پہلے بھی دیگر ممالک کے دورے کیے اور پاکستان کی سفارتی تنہائی کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سپہ سالار عساکر پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے خصوصی ملاقات کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈپٹی پرائم منسٹر اور نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل باجوہ کو عسکری امور کے ساتھ ساتھ سفارت کاری پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔
اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کا دورۂ سعودی عرب شروع ہوا اور ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جامنی رنگ کا کارپٹ ان کیلئے خصوصی طور پر بچھایا گیا۔ سعودی عرب نے لال قالین کو اب جامنی کلر کے ساتھ تبدیل کر دیا ہے۔ یہ رنگ سعودی عرب میں پائے جانے والی مخصوص پھول لیوینڈر (Lavender) سے لیا گیا ہے۔ ایئر پورٹ پر خود سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم کا استقبال کیا، ظہرانے اور عشائیے ہوئے اور دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات زیر بحث آئے۔ اس دورے میں جن مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ان میں انسدادِ جرائم و منشیات، جیلوں میں قید افراد تک رسائی، توانائی، ذرائع آمد ورفت‘ مواصلات اور صاف پانی کے منصوبے شامل ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030ء کے تحت سعودی عرب میں بہت سی نئی نوکریاں پیدا ہوں گی جس میں پاکستانی لیبر کیلئے نئے مواقع کھلیں گے۔ ایک اعلیٰ سطحی کوآرڈی نیشن کونسل کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ دونوں ممالک اقتصادیات‘ سرمایہ کاری اور دیگر شعبوں میں مل کر کام کریں۔ اس دورے کے بعد سٹریٹیجک پارٹنرشپ بھی ہوگی تاکہ دونوں ممالک اپنے مشترکہ مفادات پر عمل درآمد کرکے مشترکہ اہداف حاصل کر سکیں۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک نے کشمیر اور فلسطین کے نہتے مسلمانوں کی حمایت کا اعلان اور مقبوضہ کشمیر کے تنازع کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان کی طرف حوثی باغیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی کے حکام اور امام کعبہ سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعظم نے او آئی سی حکام کو یہ باور کرایا کہ وہ اسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے موثر اور بھرپور کردار ادا کریں۔
پاکستان یمن جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا اور ریاست کشمیر کی جداگانہ حیثیت تبدیل کرنے کے ایشو پر بھی برادر ملک کی جانب سے پاکستان کو ویسے سپورٹ نہیں کیا گیا‘ جس کی توقع تھی بلکہ اچانک قرضے کی رقم سے ایک ارب ڈالر کی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا‘ جس کی ادائیگی پاکستان نے جیسے تیسے کر دی تھی۔ اس لئے دونوں ممالک کے مابین ایک خلیج حائل ہو گئی تھی۔ اب یہ برف پگھل گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر سعودی عرب مدد نہ کرتا تو پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو سکتا تھا۔اس وقت 20 لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب کی افرادی قوت کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اوور سیز پاکستانیوں کو لے کر بہت حساس ہیں۔ اس بدلتی سفارتی صورتحال میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر کی بطورِ سفیرِ سعودی عرب تعیناتی بہت اہم ہے۔ اب دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت بھی دی ہے۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا عندیہ دیا ہے جو خطے کے ماحول پر خوشگوار اثرات مراتب کرے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق‘ امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد ریاض اور واشنگٹن میں تھوڑے فاصلے آ گئے ہیں‘ اس لئے سعودی عرب ہمسایوں کے ساتھ دوبارہ بہتر تعلقات استور کر رہا ہے تاکہ وہ سفارتی طور پر مضبوط رہے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد اسلام آباد اور ریاض کا کردار خطے میں مزید اہم ہو جائے گا۔
وزیراعظم کے دورۂ سعودیہ سے پہلے کنگ سلمان ریلیف سنٹرکے زکوٰۃ الفطر سے چاول غریب عوام میں تقسیم کیے گئے۔ یہ چاول بھی پاکستان سے خریدا گیا تھا۔ اس ریلیف ایکٹیوٹی کا تعلق وزیراعظم کے دورے سے نہیں تھا۔ کنگ سلمان ریلف سنٹر ایک دہائی سے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہا اور اسلامی ممالک کے غریب افراد کو زکوٰۃ اور فطرانہ دے رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی دیگر صورتوں میں امداد مستحقین کودی گئی۔ اس دورے کا اس بار یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اس میں طویل مدتی سرمایہ کاری کے منصوبے شامل ہیں‘ اس سے ریاستِ پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ دوسرا سعودی ولی عہد کے وژن 2030ء کے تحت پاکستانی لیبر کے لئے نئے مواقع سامنے آئیں گے۔ دونوں ممالک نے انتہاپسندی، فرقہ واریت اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے اور کشمیر، افغانستان، فلسطین، شام، لیبیا اور یمن میں قیام امن پر ضرور دیا۔ وزیراعظم کے بلین ٹری سونامی منصوبے اور ولی عہد کے ماحولیاتی منصوبے پر بھی مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ امید ہے دونوں ممالک اب مل کر عوام کی خوشحالی کیلئے کام کریں گے جس کے خطے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں