گھریلو تشدد ایک سنگین مسئلہ

شادی کے بعد نندوں کی طرف سے اسے یہ طعنہ دیا گیا کہ اس کا رنگ بہت کالا ہے۔ ایک پڑھی لکھی نوکری پیشہ خاتون روز مار کھا کر آفس آتی تھی‘ جب کوئی چوٹ کے بارے میں سوال پوچھتا تو وہ جھینپ کرکہتی کہ سیڑھیوں سے پیر پھسل گیا تھا۔ ایک لڑکی کے کان سے خون بہہ رہا تھا‘ ڈاکٹر نے پوچھا: چوٹ کیسے لگی تو اس نے دھیمی آواز میں کہا: الماری کا ہینڈل لگ گیا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا: ہینڈل تو ہاتھ کے پاس ہوتا ہے‘ کان تک کیسے پہنچ گیا؟ تو جواب میں لمبی خاموشی چھا گئی۔ اس کی آنکھیں غضب کی حسین تھیں‘ پھر اداس اور ویران رہنے لگیں۔ پھر ان پر سیاہ اور جامنی نشان پڑنے لگے‘ کالا چشمہ لگا کرکہتی کہ الرجی ہو گئی ہے‘ علاج جاری ہے۔ وہ اپنے گھر کی جان تھی‘ اس کی موجودگی سے ہی گھر میں زندگی رواں رہتی تھی‘ شادی کے ایک سال بعد اس کو پاگل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا‘ اب وہ صرف روتی رہتی ہے یا سکون آور ادویات لے کرسوئی رہتی ہے۔ گھریلو تشدد کی ایسی اور بہت سی مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں۔
ایک وہ عورت ہے جو ظلم سہنے سے انکار کرتی ہے اور شور مچا دیتی ہے مگر ایسی عورتوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن وہ جو خاموشی سے مار کھاتی اور ظلم سہتی رہتی ہیں‘ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پہلے ایک پڑھی لکھی بچی کا رشتہ مانگا جاتا ہے‘ پھر آہستہ آہستہ اس کو تبدیل کرنے پر کام شروع ہوتا ہے، پڑھائی مت کرو، جاب مت کرو، میکے مت جائو، ہنس کیوں رہی ہو؟ ٹیرس پر کیوں کھڑی تھی؟ موبائل مت رکھو‘ جو بات کرنی ہے لینڈ لائن سے کرو۔ ایسا کرنے پر بھی کب معافی مل جاتی ہے‘ دوسرے سیٹ سے ساس اور نندیں وغیرہ چھپ کر گفتگو سن رہی ہوتی ہیں‘ پھر یہ باتیں بڑھا چڑھا کر اس کے شوہر کو بتائی جاتی ہیں، اس کو مار پڑوا کر سسرالی رشتے دار تسکین حاصل کرتے ہیں۔ یوں میاں بیوی کے رشتے میں نفرت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جو عورت کے سجنے سنورنے کے دن ہوتے ہیں‘ وہ کچن کی نذر ہو جاتے ہیں اور جب شوہر آتا تو بیوی پیاز‘ لہسن کی بو میں لتھڑی ہوتی ہے، نتیجتاً شوہر اس سے مزید متنفر ہو جاتا اور یہ بھول جاتا ہے کہ وہ سارا دن اس کے اور اس کے گھر والوں کے لیے ہی برتن کپڑے دھوتی اور کھانا وغیرہ پکاتی رہتی ہے۔
ایک اٹھارہ سے بیس سال کی لڑکی پر پورے گھر کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے‘ وہ ملازمہ بن کر رہ جاتی ہے، اس کو نہ ٹھیک سے آرام مل پاتا ہے نہ وہ متوازن خوارک لے پاتی ہے، یوں شادی کے ابتدائی سالوں میں کتنی ہی بچیوں کے حمل ضائع ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ کو گھریلو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور بات خود کشی اور طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ کچھ لڑکیوں کو اس بات پر مارا پیٹا‘ حتیٰ کہ زندہ جلا دیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ جہیز کیوں نہیں لائیں یا ہر بار بیٹی ہی کیوں پیدا ہوتی ہے۔ کچھ شوہر اتنے شقی القلب ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں پر شک کرتے اور بات بے بات ان کومارتے پیٹتے ہیں۔کچھ کیسز میں لڑکیاں ہمت دکھا کر معاملہ کورٹ کچہری تک لے جاتی ہیں‘ باقی یا تو چپ کر کے الگ ہو جاتی ہیں‘ یا سب کچھ تقدیر کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتی رہتی ہیں۔ کچھ کو تو طلاق کے بعد بھی نہیں جینے نہیں دیا جاتا۔ ایک طلاق کے کیس کے بعد‘ شوہر نے بیوی کی پرائیوٹ تصاویر اس کے موبائل نمبر کے ساتھ لیک کر دیں۔ وہ خاتون شدید مشکل میں آ گئی اور ایف آئی اے کے سائبر کرائم کے ایک آفیسر نے اس مظلوم خاتون کو انصاف دلایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار اور سائبر کرائمز سے متاثرہ عورت کن کن تکالیف سے گزرتی ہے ۔ عمومی طور پر اس طرح کی صورتحال میں عورت اپنے لئے آواز بلند کرنے کے بجائے چپ کرکے ظلم سہتی رہتی ہے اور اپنا دکھ کسی کو بیان نہیں کر پاتی، البتہ جو دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں‘ وہ صورتحال بھانپ لیتے ہیں۔
اگر کوئی گھریلو تشدد کا شکار ہے اور یہ تشدد گھر والوں کی طرف سے ہے تو خاندان کے بڑوں سے بات کرنی چاہیے، اگر تشدد سسرال کی طرف سے ہے تو شوہر کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اگر شوہر کی طرف سے تشدد کیا جاتا ہے تو میکے اور سسرال‘ دونوں جگہ پر بات کرکے افہام و تفہیم سے معاملہ حل کرائیں۔ بات چاہے کچھ بھی ہو‘ کسی انسان کو کسی دوسرے پر تشدد کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس چیز کا اختیار نہ تو قانون دیتا ہے نہ ہی اس کی اجازت ہمارے دین میں ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو نبی اکرمﷺ نے کبھی کسی خاتون بالخصوص اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ سختی سے بات نہیں کی۔ آپﷺ اپنی ازواجِ مطہراتؓ اور اپنے خانوادے پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس آپ کی سہیلیاں جمع رہتی تھیں مگر رسول اللہﷺ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ تجارت کرتی تھیں اور آپﷺ نے ہمیشہ انہیں سپورٹ کیا۔ آپﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیماؓ قیدی بن کر آئیں تو آپﷺ نے انہیں نہ صرف احترام و تکریم دی بلکہ ان کو آزاد کرکے تحائف کے ساتھ روانہ کیا۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ جب کم سن تھیں تو جیسے ہی والد گرامی کی گھر واپسی کا پتا چلتا تو خوشی سے دروازے پر ان کا ہاتھ پکڑ لیتیں اور آپﷺ ان کو گود میں اٹھا کر بوسہ دیتے۔ اسی طرح جب حضرت فاطمہؓ نے معاشی تنگی دیکھی تو کبھی شکوہ کناں نہیں ہوئیں۔ آپﷺ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا: فاطمہؓ! دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کرو‘ آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کرو‘ اللہ تمہیں بہتر اجر دے گا۔ سرورِ کونینﷺ کی شہزادی اونٹ کی کھال کا لباس پہنتی تھیں جس میں پیوند لگے ہوتے تھے۔ حضرت علیؓ جو کما کر لاتے وہ حضرت فاطمہؓ کے ہاتھ پر رکھ دیتے اور یوں یہ گھر صبر اور محبت سے جنت کا عملی نمونہ بن گیا۔ آج کل کے جوڑوں کو ان واقعات سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ شوہر باہر جتنی بھی سختی دیکھ کر آئے‘ اسے اپنا غصہ اپنے گھر والوں‘ اپنے بیوی بچوں پر نہیں نکالنا چاہیے۔ بیوی جتنا چاہے کام کرے یا سسرال کے دبائو میں رہے‘ اگر شوہر اچھا ہے تو شکر سے گزارہ کر لے؛ تاہم اگر بات مار پیٹ گالی گلوچ تک پہنچ جائے تو پھر راستے الگ کر لینے چاہئیں۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عزت سے ساتھ نہیں رہ سکتے تو عزت سے الگ ہو جائیں مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ طلاق کی کارروائی کے دوران خواتین کی تذلیل اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ان کو تنگ کیا جاتا ہے۔
اس وقت جب ہم وبا کے دور میں ہیں‘ تب بھی لوگوں کے دل نجانے اتنے سخت کیوں ہیں کہ ان میں خوفِ خدا ہی ختم ہو گیا ہے، اس دوران گھریلو تشدد میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عمومی طور پر عورت کو تشدد کا نشانہ تو مرد بناتے ہیں مگر اس جرم میں عورتیں بھی شریک ہو جاتی ہیں۔ یہ انتہائی قبیح فعل ہے کہ کسی انسان کو مارا پیٹا جائے۔ ضروری ہے کہ گھریلو تشدد کے خاتمے کیلئے قومی سطح پر ہیلپ لائن بنائی جائے تاکہ خواتین خود پر ہونے والے ظلم کو رپورٹ کر سکیں۔ دوسرا، والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں بالخصوص بیٹوں کی تربیت پر توجہ دیں اور شروع سے ان کو دینی تعلیم بھی دیں اور انہیں سکھائیں کہ کس اپنے گھر کو چلانا ہے۔ مار پیٹ میں کوئی مردانگی نہیں۔ گھریلو تشدد کسی مخصوص طبقے کا مسئلہ نہیں‘ ہر طبقے کی عورت اس کا شکار ہے۔ اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسلام آباد پولیس نے خواتین پولیس عملے پر مشتمل جینڈر پروٹیکشن یونٹ بنایا ہے جس سے خواتین مددقانونی اور طبی‘ دونوں طرح کی مدد اور معاونت طلب کر سکتی ہیں۔ اس طرز پر پورے ملک میں یونٹ بنانے چاہئیں تاکہ گھریلو تشدد اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں