جنگ بہت بھیانک ہوتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ بہت تباہی اور ظلم لاتی ہے جس میں انسان اور مکاں سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی سفاکی اور ہولناکی مدتوں زمین کو بنجر کر دیتی ہے اور نسل انسانی کا وجود مٹ جاتا ہے۔ جب امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرایا تو ان علاقوں میں آج تک فصل نہیں اُگتی‘ مائیں بانجھ ہیں اور لوگ کینسر میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح جب ویت نام میں جنگ ہوئی تو ایک بچی جو کہ نیپام گرل کے نام سے مشہور ہے اس کی تصویر سامنے آئی۔ وہ بھاگ رہی تھی اس کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ اس کی عمر آج 55 سال ہے۔ اس کے جسم پر آج بھی جلے ہوئے زخموں کے نشان ہیں۔ کم پھک آج بھی اس دکھ اور تکلیف کو محسوس کر سکتی ہے۔ کم پھک کی اس تصویر نے عالمی ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن اب لگتا ہے جیسے عالمی ضمیر سو رہا ہے۔ بہت سے بچوں کی اب بھی تصویریں آتی ہیں لیکن عالمی ضمیر اب مکمل طور سو رہا ہے۔
ننھے ایلان کردی کی تصویر ترکی کے ساحل سے ملی۔ وہ ایک شامی بچہ تھا جس کا خاندان جنگ سے بچنے کے لیے سمندر کے راستے محفوظ جگہ پر جا رہا تھا لیکن راستے میں ہی انسانی سمگلرز کی وجہ سے ان کی کشتی الٹ گئی اور وہ اپنے گھر والوں سمیت جاں بحق ہو گیا۔ صرف اس کے والد زندہ بچے۔ اس کے بھائی والدہ اور دیگر لوگ سمندر میں ڈوب گئے۔
اس کے بعد مقبوضہ کشمیر سے ایک تصویر سامنے آئی کہ ایک معصوم بچہ اپنے نانا کی لاش کے اوپر بیٹھا ہوا ہے جس کو بھارتی فوجیوں نے مار دیا تھا۔ شاید اب دنیا کا ضمیر سو گیا ہے‘ اب کوئی موت یا تصویر عالمی ممالک کو ہلا نہیں پاتی۔ یہ دونوں بچے جان دے کر بھی اپنے ممالک میں جنگ ختم نہیں کروا سکے۔ اب یہی سب فلسطین میں ہو رہا ہے۔ یہودی آباد کار آہستہ آہستہ فلسطین کے علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں اور معصوم نہتے شہریوں کو وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔ حالیہ کشیدگی کا آغاز شیخ الجراح کے علاقے سے ہوا جہاں سے یہودی اسرائیلی فورسز کے بل بوتے پر نہتے فلسطنیوں کو ان کے گھروں سے نکال رہے تھے اور وہ پرامن مذمت کر رہے تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی فورسز نے مسجدالاقصیٰ پر حملہ کر دیا اور رمضان میں مسجد کا تقدس پامال کیا اور نہتے روزہ داروں کو زدوکوب کیا۔ مسجدالاقصیٰ مسلمانوں کے لیے بہت مقدس ہے اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے اس پر حملہ کر دیا۔ جواب میں حماس نے بھی یروشلم پر راکٹ داغے‘ اس کے بعد اسرائیل نے مزید بمباری اور فضائی حملے شروع کر دیئے۔ اسرائیل کے پاس بہت اسلحہ ہے اور یہ ایک امیر ملک ہے‘ اس کا مقابلہ نہتے فلسطینی کر بھی نہیں سکتے۔
اب جب جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تو عالمی طاقتوں نے چشم پوشی اختیار کئے رکھی۔ اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے‘ ان کا نشانہ صرف سویلین آبادی تھی۔ اسرائیل نے اتنے شدید حملے کئے کہ صرف ایک دن 23 فلسطینی شہید ہو گئے۔ اس حملے میں پچاس افراد زخمی ہوئے اور تین عمارتیں مسمار ہو گئیں‘ اس کے بعد مسلسل حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسرائیل نے رہائشی عمارتوں ‘محکمہ اوقاف‘ وزرات دفاع اور وزرات صحت کو نشانہ بنایا اور یہاں تک کہ غزہ میں کورونا ویکسین کی مہم بھی رک گئی۔ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں مہاجرین کے کیمپ پر بھی حملہ کیا جس میں ایک خاندان کے دس افراد شہید ہو گئے۔ اس کے بعد صہیونی فورسز نے اس ٹاور کو بھی نشانہ بنایا جہاں پر میڈیا کے دفاتر تھے تاکہ دنیا اسرائیلی جارحیت میڈیا پر نہ دیکھ سکے۔ میڈیا کے دفاتر منٹوں میں زمیں بوس ہو گئے لیکن میڈیا نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رپورٹنگ جاری رکھیں گے۔
جنگ جب بھی ہوتی ہے سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے اس اسرائیل جارحیت میں 66 فلسطینی بچے شہید ہو گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ جارحیت یہاں کے عوام اور بچوں پر بہت بھیانک اثرات مرتب کرے گی۔ اسرائیل نے غزہ پر سینکڑوں حملے کئے۔ ان حملوں میں کل 248 افراد شہید ہوئے جن میں 39 خواتین شامل تھیں۔ اب وہاں صورتحال یہ ہے طرف کنکریٹ کا ملبہ ہے لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ بجلی کی فراہمی معطل ہے‘ صاف پانی اور خوراک کی قلت ہو گئی ہے۔ دو ہزار کے قریب لوگ زخمی ہیں۔ انس کی دہائیاں سب نے سنی اس نے شادی سے چند دن پہلے اپنی منگیتر ان حملوں میں کھو دی۔ لوگوں نے اپنی جانیں الماریوں میں چھپ کر بچائیں لیکن جب میزائل حملے ہوئے تو عمارتیں منٹوں میں زمیں بوس ہو گئیں اور لوگوں کو اپنی جانیں بچانے کا بھی موقع نہ ملا۔ مال جان سب منٹوں میں خاک میں مل گیا۔ ہر طرف دھوئیں کے بادل تھے‘ ہر طرف آگ تھی‘ تباہی تھی اور غزہ جل رہا تھا۔
گیارہ دن فلسطین کو گیارہ سال پیچھے لے گئے۔ صحت کا شعبہ‘ کاروبارِ زندگی اور انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے۔ دو بچیاں اپنے یوٹیوب کے لئے ویڈیو ریکارڈ کر رہی تھیں کہ بمباری شروع ہو گئی اور خوف زدہ ہوکر چیخنے لگیں۔ حدیدی برادرز چاروں اسرائیل کی بمباری سے ابدی نیند سو گئے۔ دو اور فلسطینی بچیوں نے ملبے پر سے دہائی دی کہ ان کے گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے‘ ان کے دوست مر گئے ‘کون ان کے غموں کا مداوا کرے گا۔
کیا عالمی حقوق کی تنظیمیں اس بات کا اندازہ لگا سکتی ہیں کہ اس وقت فلسطین کے عوام کس کرب میں سے گزر رہے ہوں گے؟ ان پر اسرائیل کی اس بمباری کا کیا اثر پڑا ہو گا؟ وہ نفسیاتی‘ جسمانی اور معاشی طور پر کس قدر ٹوٹ گئے ہوں گے؟ اس وقت عالمی تنظیموں کو خوراک اور ادویات کے لیے ا ن کی فوری طور پر مدد کرنی چاہیے تاکہ ان کی داد رسی ہو سکے۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں ایک تصویر میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ غزہ کے بچے میزائل کے خول کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ تاہم ان بچوں کی مدد کرنا آسان نہیں کیونکہ فضائی اور زمیں راستے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ عالمی دنیا ایک خاموش تماشائی کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ یہاں تک کہ مغربی میڈیا ان کاحامی بن گیا ہے اور اسرائیل کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر فلسطین یا کشمیر کا نام لکھیں تو پوسٹ ڈیلیٹ کر دی جاتی ہے۔
جس وقت عالمی شہرت یافتہ جی جی حدید ‘ بیلا حدید اور دعا لیپا فلسطین کے حق میں سامنے آئیں تو اس وقت پوری دنیا میں اسرائیلی لابی ان کے خلاف ہوگئی اور ان کے خلاف نیویارک ٹائم میں پورا اشتہار چھاپ دیا۔ یہ لابی بہت متحد ہے اور فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبا دیتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر نیویارک ٹائم پر بہت تنقید ہوئی۔ انہوں نے فلسطینی بچوں پرپورا فیچر شائع کیا تاکہ ان پر قارئین کی طرف سے تنقید کم ہو سکے۔
سیز فائر تو ہو گیا ہے لیکن یہ معاملے کا دیرپا حل نہیں ہے۔ فلسطین کے علاقوں پر یہودی آباد کاری کو روکا جائے۔ ان کو ان کے علاقوں سے بے دخل نہ کیا جائے اور اس تنازعے کا حل نکالا جائے اور مقدس مقامات کی بے حر متی سے اسرائیل کو روکا جائے۔ اس وقت فلسطین چاروں طرف سے اسرائیل کے نرغے میں ہے اور ان کے ظلم کا شکار ہے۔ اس کا حل صرف فلسطین کی مکمل آزادی اور خود مختاری ہے۔ اس خطے کو صہیونی مظالم کے تسلط سے نجات دی جائے۔فلسطین کے بچوں کو اچھی زندگی گزارنے کا مکمل حق دیا جائے۔