بجلی‘ گیس کا بحران اور ہمارے عوامی نمائندے

گرمی نے زور کیا دکھایا‘ بجلی عوام سے روٹھ گئی۔ پی ٹی آئی بہت بلند بانگ دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ ہم آتے ہی جادو کی چھڑی گھما کر تبدیلی لے آئیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ملک اسی پرانی ڈگر پر چلتا رہا۔ کبھی بجلی غائب‘ کبھی گیس غائب‘ کبھی آٹا ناپید تو کبھی چینی کی قلت۔ نیا پاکستان بھی بالکل پرانے جیسا ہے۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی، مہنگائی اور بیروزگاری مزید بڑھ گئے اور عوام معاشی طور پر بدحال ہو گئے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ حکومت نے اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے‘ اس نے بھی کوشش کی لیکن جتنے دعوے کیے گئے تھے‘ ان پر حکومت پورا نہیں اتری۔ اب پھر ملک بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے کورونا تھا‘ اب بجلی کا شاٹ فال ہے، مہنگائی ہے، گیس کا بحران ہے۔ مسلم لیگ کے گزشتہ دورِ حکومت میں بجلی کے بحران پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا تھا لیکن الیکشن کے قریب بجلی ایسے غائب ہوئی کہ عوام بلبلا اٹھے۔ پھر جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو لوڈشیڈنگ کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی‘ عوام بھی مطمئن ہو گئے اور اپنے یو پی ایس وغیرہ کی سروس کروانا چھوڑ دی۔ بیٹریاں ختم ہو گئیں لیکن احساس اس لیے نہیں ہوا کیونکہ لائٹ نہیں جا رہی تھی۔ اب جب دوبارہ لوڈشیڈنگ شروع ہوئی ہے تو عوام کو احساس ہوا ہے کہ ہمارے تو یو پی ایس ہی ورکنگ میں نہیں ہیں‘ لہٰذا اب صرف بجلی کا نہیں بلکہ یو پی ایس اور بیٹریوں کا بھی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
عوام کی بڑی تعداد گزشتہ ایک ہفتے سے یو پی ایس اور بیٹریوں کی خریداری کے لیے خوار ہو رہی ہے۔ اسلام آباد کے تاجر یہی کہتے رہے کہ مال کراچی سے آ رہا ہے‘ فی الحال موجودہ سٹاک بک گیا ہے، جبکہ خریداروں کے مطابق‘ دکاندار بیٹریاں فکس پرائس پر نہیں بیچ رہے بلکہ ہر کوئی من مانی قیمت وصول کر رہا ہے۔ یو پی ایس بیٹریوں کی قیمت پندرہ ہزار سے شروع ہوتی ہیں اور وہاں تک جاتی ہیں جہاں تک آپ کی جیب ہو۔ اس کے علاوہ یو پی ایس اور جنریٹرز کی خریداری میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے؛ تاہم جنریٹر ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس پر کافی خرچہ آتا ہے اور لوڈشیڈنگ میں عام عوام کا سہارا صرف یو پی ایس ہے۔ اس سے پنکھا اور ایک دو لائٹیں بہ آسانی چل جاتے ہیں اور لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ لیا جاتا ہے۔ جن کے پاس جنریٹرز موجود ہیں‘ وہ تو اے سی، ٹی وی وغیرہ‘ سب کچھ آن کر سکتے ہیں؛ تاہم عوام کی اکثریت تو یو پی ایس کی عیاشی بھی افورڈ نہیں کر سکتی۔ وہ ہاتھ کے پنکھا سے ہی ہوا لیتے اور لائٹ آنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
پنجاب میں ان دنوں جتنی شدید گرمی ہے‘ اتنی ہی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے۔ شہروں میں چھ گھٹنے کے قریب لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور دیہات میں یہ دورانیہ دس سے بارہ گھنٹے تک ہے۔ بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان میں ایل این جی، فرنس آئل اور گیس کی کمی وجہ سے بجلی اور سوئی گیس کے بحران نے سر اٹھایا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں گیس بھی ناپید ہوگئی ہے اور سی این جی سٹینشز پر بھی لمبی قطاریں لگی نظر آتی ہیں۔ پشاور سے کراچی تک‘ نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعتی صارفین بھی گیس کی کمی کی زد میں آ گئے ہیں۔ موسم سرما میں تو گیس کا پریشر کم ہوتا ہی ہے لیکن موسم گرما میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ گیس کا پریشر کم ہوگیا ہے اور گھریلو و صنعتی‘ دونوں صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کیوں ہوا ہے؟ یقینا یہ سب بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ یہ تمام فیصلے پہلے او بروقت لینا ہوتے ہیں تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو؛ تاہم ہمارے ہاں جب کوئی بحران سر اٹھانے لگتا ہے تو حکومت اور ادارے اس فوری حل کرنے کے بجائے محض سوچتے رہ جاتے ہیں اور وہ بحران عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ گیس کا معاملہ حل نہیں ہوا تھا کہ بجلی بھی غائب ہو گئی۔ دوسری طرف ہر بار آئی پی پیز کا گردشی قرضہ کھڑا ہو جاتا ہے جو ملکی خزانے پر بوجھ بن چکا ہے۔ حکومت کچھ عرصہ پہلے تک یہ دعوے کر رہی تھی کہ بجلی کی پیداوار سرپلس ہو چکی ہے اور 2023ء تک پاکستان کے پاس ضرورت سے پچاس فیصد زائد بجلی موجود ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ وہ سرپلس بجلی اس وقت کہاں ہے؟ بجلی مہنگی بھی ہو رہی ہے اور غائب بھی ہے۔ اگر بجلی اور گیس نہ ہوں تو کاروبارِ زندگی مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہر کام میں ان دونوں کا استعمال لازم ہے۔ اگر ان کی فراہمی متاثر ہو گی تو ملکی معیشت کا پہیہ بھی رک جائے گا۔
حکومت دریائوں کا بہائو تیز ہونے، بارش ہونے، موسم خوشگوار ہونے یا گلیشیرز کی برف پگھلنے کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ بجلی کی بنا تعطل ترسیل کا کیا حل ہے؟ اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار 19 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ طلب 25 ہزار میگاواٹ ہے۔ اس وقت سندھ‘ پنجاب‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور اسلام آباد سمیت کوئی بھی علاقہ لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسلام آباد کے شہری بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ کبھی تو ہر دو گھنٹے بعد لائٹ جا رہی ہے تو کبھی ایک ساتھ چار سے پانچ گھنٹے کیلئے بجلی بندکر دی جاتی ہے۔ کچھ علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی کی وجہ سے برقی آلات بھی جل گئے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے تک پہنچ چکا ہے۔ بہت سے افراد سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ عوام نے کہنا ہے کہ یہ کیسا نیا پاکستان ہے جس میں لائٹ نہیں‘ اس سب سے تو 2007-08ء اور 2013ء کی یاد آ گئی ہے جب طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ حکومت گیس بحران کا ذمہ دار ایک پرائیوٹ ادارے کو قرار دے کر اپنا دامن جھاڑ چکی ہے۔ اب بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار کون کہلاتا ہے‘ یہ بھی جلد ہم دیکھ لیں گے۔ تین سال ہو گئے ہیں پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے ہوئے‘ اب اسے ذمہ داری قبول کرنا چاہیے کہ معاملاتِ حکومت کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے۔ اب بدانتظامی کی ذمہ دار حکومتی جماعت ہے اور کوئی نہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا‘ وہ بیت چکا، اب حال اور مستقبل میں جو ہو گا اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہو گی۔
حکومت کا موقف ہے کہ بجلی کا زیادہ شارٹ فال نہیں ہے‘ اس وقت پانی کی کمی کی وجہ سے تربیلا ڈیم اپنی پوری استعدادِ کار پر نہیں چل رہا۔ آئندہ چند دنوں میں حالات معمول پر آ جائیں گے لیکن دوسری طرف امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جولائی کے پہلے عشرے میں لوڈشیڈنگ عروج پر رہے گی۔ اس وقت موسم کافی گرم ہے لہٰذا یہ خدشہ بھی ہے کہ لوگ بجلی کی بندش کی وجہ سے ہیٹ سٹروک کا زیادہ آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں پانی زیادہ پیا جائے اور سر پر بھی پانی ڈالا جائے۔ کوشش کی جائے کہ زیادہ وقت سایہ دار جگہ پر گزارا جائے اور دھوپ میں باہر نکلنے سے گزیز کیا جائے۔ حکومت فوری طور پر ان دونوں معاملات کو حل کرے اور بجلی و گیس کی ترسیل یقینی بنائے۔
اس سارے معاملے میں ارکانِ اسمبلی پر سب سے زیادہ افسوس ہوا کہ انہیں کوئی ہوش ہی نہیں کہ عوامی مسائل پر بھی اسمبلی میں بات کر لی جائے۔ پہلے بجٹ اجلاس میں وہ باہم دست و گریبان رہے، ایوان میں نعرے لگے، پوسٹرز آ گئے، گالم گلوچ ہوئی، پھر چارپائی تک آ گئی لیکن کسی کو یہ فکر نہیں کہ عوام کس کرب اور تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ ایک دوسرے پر طنز کے نشتر برساتے رہے۔ اس کے بعد جواب آں غزل کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ سب مناظر دیکھ کر عوام کی بڑی تعداد یہ سوچ رہی تھی کہ عوامی نمائندے ایک دوسرے پر طنز کرنے اور لڑنے جھگڑنے کیلئے ایوان میں جاتے ہیں یا عوامی مسائل پر بات کرنے کیلئے؟ اس وقت ایوان میں غیر سنجیدگی عروج پر ہے اور گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بے حال عوام کا کسی کو احساس ہی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں