عیدِ قربان اور ہمارے فرائض!

عیدِ قربان ہمیں خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے، حکم الٰہی پر وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے پر تیار تھے کہ رحمتِ خداوندی نے جوش مارا اور حضرت اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا آگیا۔شیطان مردود نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو بہکانے کی کوشش کی لیکن خلیل اللہ نے اس کو کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ سورۃ الصافات میں ارشادِ باری تعالی ہے: تو ہم نے انہیں پکارا کہ اے ابراہیم! تم نے اپنے خواب کو سچا کردیا، بے شک ہم نیک افراد کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں اور یقینا یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ (آیات 104تا 106) سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہر سال لاکھوں فرزندانِ توحید قربانی کرتے ہیں اور اس عظیم قربانی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی۔ اپنی اولاد سب کو بہت پیاری ہوتی ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ کی محبت دنیا کی سب محبتوں پر غالب تھی اور اسی لیے آپ اللہ کے حکم پر اپنے اکلوتے کم سن بیٹے کی قربانی دینے پر تیار ہوگئے تھے اور اللہ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قربانی کی سنت کو ایسے جاری فرما دیا کہ اب یہ تاقیامت یاد رکھی جائے گی۔
قربانی حج کے ارکان میں بھی شامل ہے اور صاحبِ ثروت افراد پر عید الاضحیٰ کے موقع پر یہ واجب کی گئی ہے۔ ہم سب میں سے جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں‘ ان پر قربانی واجب ہے۔ الحمدللہ میرے اردگرد تمام لوگ قربانی کرتے ہیں اوربشمول میرے‘ وہ خواتین بھی قربانی کرتی ہیں جو خود کمارہی ہیں۔ جب خواتین نت نئے کپڑوں اور دیگر چیزوں پر اتنے پیسے خرچ کرسکتی ہیں تو قربانی کرنا تو اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے خواتین کو چاہئے کہ اگر وہ افورڈ کرسکتی ہیں تو قربانی ضرور کریں۔ سارا سال بھی اس کیلئے رقم جمع کی جاسکتی ہے۔ اگر ہر مہینے ایک ڈیڑھ ہزار بھی الگ کر لیا جائے تو عید کے موقع پر قربانی میں حصہ تو ڈالا ہی جا سکتا ہے۔اس کے لیے صرف نیت کی ضرورت ہے۔ جو لوگ خود قربانی کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ قربانی کے جانور کا خیال رکھیں‘ اس کو تازہ پانی دیں‘ چارہ ڈالیں، اس کو بچوں کے رحم وکرم پر مت چھوڑیں‘ اس کا خیال خود رکھیں۔ قربانی کے جانور کو سائے میں باندھیں‘ کسی کھمبے وغیرہ کے ساتھ نہیں‘ اس سے اس کو کرنٹ وغیرہ لگ سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو بھی سمجھائیں کہ جانوروں کو تکلیف مت دیں اور ان کو خواہ مخواہ گلیوں میں مت بھگاتے پھریں، جانوروں کو بارش کے پانی سے بھی بچا کر رکھیں۔
آج کل ایک اور فیشن آ گیا ہے کہ لوگ قربانی کے جانوروں کے ساتھ سیلفیز اَپ لوڈ کرتے ہیں‘ ان کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور دوسروں کے جانوروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ ٹک ٹاک وڈیوز بناتے ہیں یہاں تک کہ ایک شو میں ماڈلز قربانی کے جانوروں کے ساتھ ماڈلنگ کر رہی تھیں۔ یہ بہت افسوسناک رویہ ہے! قربانی اللہ کے لیے ہے‘ اس پر نمود و نمائش زیب نہیں دیتی۔ اگر کسی نے لاکھوں کا جانور لیا ہے تو دوسروں کو جتانا غیر مناسب ہے۔ عیدِ قربان ہم سنت ابراہیمی کی یاد میں مناتے ہیں‘ اس میں دکھاوے اور نمود و نمائش کی کوئی گنجائش نہیں۔ قربانی کریں مگر سادگی سے !نمود و نمائش سے پرہیز کریں‘ مستحقین کو ان کا حق دیں اور شہر میں گندگی مت پھیلائیں۔
عید کے موقع پر رشتہ داروں کی دعوتیں کریں‘ ان کو کھانے کھلائیں۔ دلوں کی رنجشیں ختم کریں‘ ایک دوسرے کو معاف کرکے خوشیوں میں اضافہ کریں۔اپنے گھروں کو سجائیں‘ اچھے کپڑے پہنیں اور جب قربانی ہوجائے تو گوشت کا کثیر حصہ غریبوں اور ضرورتمندوں کو دیں، اس کے بعد ان رشتہ داروں کو دیں جنہوں نے قربانی نہیں کی۔ غریبوں‘ مسکینوں‘ ملازمین کو دینے کے بعد اپنے دوست احباب اور محلہ داروں میں گوشت تقسیم کریں۔ اس کے بعد اپنے لیے بھی گوشت رکھیں۔ قربانی کا گوشت کھانا اور تقسیم کرنا‘ یہی سنت رسول ہے۔ صاحبِ ثروت افراد تو سارا سال گوشت کھاتے رہتے ہیں‘ اس لیے انہیں چاہیے کہ جب قربانی کریں تو زیادہ سے زیادہ گوشت غربا میں تقسیم کریں تاکہ وہ بھی سیر ہوکر کھا سکیں، کچھ لوگ اپنے فریج قربانی کے گوشت سے بھر لیتے ہیں اور اگلے کئی مہینے تک یہ گوشت استعمال کرتے ہیں‘ ایسا نہیں کرنا چاہیے، قربانی کرتے وقت ہمیں اپنے دل کو غریب افراد کے لیے وسیع کرنا چاہیے۔ یہ عید صرف کھانے پینے اور باربی کیو کا نام نہیں ہے بلکہ یہ قربانی اور ایثار کا درس دیتی ہے۔ حرص، لالچ اور طمع سے اپنی قربانی کے ثواب کو ضائع مت کریں۔ کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اچھا گوشت خود رکھ لیتے ہیں اور غریبوں کو صرف چھیچھڑے اور اوجڑی پکڑا دیتے ہیں۔ یہ بھی انتہائی غلط روش ہے، جانور کے گوشت کے اچھے حصوں کو غریبوں اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہیے۔
قربانی کے علاوہ یہ بات بھی آپ کے فرائض میں شامل ہے کہ قربانی کرتے ہوئے گلی ‘محلے میں گندگی مت پھیلائیں۔ خون کو مت کھڑا ہونے دیں۔ آلائشیں سڑکوں اور علاقے میں مت پھینکیں‘ اس سے تعفن پھیلے گا اور بیماریاں ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ آج کل ویسے بھی برسات کا موسم ہے اس لئے زیادہ احتیاط کریں، جب قربانی ہوجائے تو خون کو گٹر وغیرہ میں بہا دیں، اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو خون پر چونا ڈال دیں۔ کھالیں نامور اور رجسٹرڈ فلاحی تنظیموں کو دیں اور آلائشوں وغیرہ کو کچرے کی جگہ پر تلف کریں۔ اسلام آباد میں تو سی ڈی اے سینی ٹیشن کی گاڑیاں خود آلائشیں، باقیات اور اوجڑی وغیرہ لے جاتی ہیں لیکن ملک کے بہت سے حصوں میں یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ اس عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ خودآلائشوں وغیرہ کو بڑے کچرا دانوں میں ڈال کر آئیں۔ اگر جانوروں کی باقیات کو کھلا پھینک دیا جائے تو یہ ماحول کیلئے بہت بڑا خطرہ بن جاتی ہیں۔ گندگی‘ آلودگی اور تعفن کے ساتھ ساتھ یہ بیماریوں کا بھی گڑھ بن جاتی ہیں۔ ہوائی اڈوں اور ایئربیس کے اردگرد تو کسی بھی صورت میں کچرا نہ پھینکیں۔ اکثر آلائشوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں پرندے ان کو کھانے کیلئے جمع ہو جاتے ہیں اور کمرشل فلائٹس اور پاک فضائیہ کے طیاروں کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ گدھ اور چیلیں وغیرہ طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے وقت بالخصوص حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ پرندے ایک گولی اور میزائل کی مانند جہاز کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ اس لیے کچرا مت پھیلائیں، آلائشوں اور خون کو مناسب طریقے سے تلف کریں۔ اگر کچرا اٹھانے کا ٹھیک بندوبست نہیں کیا گیا ہوتو آلائشوں اور باقیات کو زمین میں دبا دیں۔
اس وقت کورونا کا بھارتی ویری اینٹ‘ جیسے ڈیلٹا کا نام دیا گیا ہے‘ پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اس لیے احتیاط کو بھی لازمی ملحوظ رکھیں، ماسک پہننے میں کوتاہی مت برتیں،قربانی کا فریضہ انجام دیتے وقت بھی اپنے ہاتھوں پر دستانے پہنیں، ماحول کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت بھی کریں۔ یہ بہت ضروری ہے، احتیاطی تدابیر اختیار کر کے خود کو بیماریوں سے محفوظ رکھیں۔ اس کے علاوہ برسات کے موسم میں پانی کے حوالے سے بھی احتیاط کریں، کسی بھی جگہ پر پانی مت کھڑا ہونے دیں، اس موسم میں مچھر افزائش پاتے ہیں‘ خود کو مچھروں سے بچا کر رکھیں۔ مچھر کش سپرے کریں۔
جس وقت میں یہ سطور لکھ رہی تھی‘ مجھے اطلاع ملی کہ میری چچی جان کا انتقال ہوگیا، مرحومہ بہت خوش مزاج اور ملنسار خاتون تھیں، اللہ ان کی منزلیں آسان فرمائے، آمین! عید کے خوشیوں بھرے تہوار پر مرحومین اور لواحقین کو ضرور یاد رکھیں‘ خاص طور پر جن کے پیارے کورونا کی وبا میں جانبر نہیں ہوسکے‘ ان کی دلجوئی کریں، پکوان بناکر ان کے گھر بھیجیں‘ اور ان کو اپنے ساتھ کا یقین دلائیں۔ عید کے ایام عبادات کے لحاظ سے بھی بہت قیمتی ہیں اس لئے ان دنوں کو نمودنمائش اور لوگوں کو دل دکھانے میں صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سرجھکائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں کورونا سے نجات دے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں