یوں تواسلام آباد میں صفائی کا انتظام بہت اچھا ہے لیکن میرے خیال میں 28 جولائی کی صبح کلائوڈ برسٹ یعنی بادل پھٹنے سے اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی۔ سیکٹر ای الیون کے ساتھ ہی اسلام آباد کا مضافاتی علاقہ ہے۔ یہ سیکٹر سوسائٹیز پر مشتمل ہے اور یہاں خاصی بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں۔ یہاں کافی خوبصورت گھر بنے ہوئے ہیں اور فلیٹس بھی ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں بیسمنٹ میں بھی رہائش پذیر ہیں اور مارکیٹوں میں بنے فلیٹس میں بھی رہائش رکھتے ہیں۔ چند روز قبل بھی جب بارش ہوئی تو اس علاقے میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگیا تھا۔ لوگوں نے نشاندہی کی کہ علاقے میں کچھ جگہوں پر سیلاب کی سی کیفیت ہوگئی ہے تو ڈی سی اسلام آباد نے فوری ایکشن لیا اور پانی کی نکاسی یقینی بنائی اور علاقہ کلیئر کروادیا۔ شاید ای الیون سیکٹر میں بارش سے نمٹنے کیلئے نجی سوسائٹیز نے ٹھیک انتظامات نہیں کر رکھے، اس کے ساتھ ہی سی ڈی اے اور لوکل انتظامیہ پر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انہوں نے اطراف کے نالوں کی صفائی نہیں کروائی تھی؟ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اتنا بڑا سیلابی ریلا رہائشی علاقے میں داخل ہوجائے۔ ای الیون کے ساتھ ہی گولڑہ کا علاقہ اور وہاں موجود نالے کچرے سے اٹے پڑے ہیں، شاید یہ بھی وجہ بنی کہ پانی سیلاب کی صورت میں رہائشی علاقے میں داخل ہو گیا۔ اس پر یقینا انتظامیہ سے جواب طلبی ہونی چاہیے۔ اس پانی کا بہائو اتنا شدید تھا کہ یہ نہ صرف لوگوں کے گھروں میں گھس گیا بلکہ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پانی ڈی 12 سے ای الیون کی طرف آیا چونکہ یہاں نالے ٹھیک سے صاف نہیں تھے‘ کچھ نالوں پر ناجائزتجاوزات بھی ہیں‘ اس وجہ سے پانی کی نکاسی ٹھیک سے نہیں ہو سکی۔ یہاں پر میں نے خود بھی کچرے کے ڈھیر اور مویشیوں کے ریوڑ دیکھے ہیں۔ اب کچھ سوسائٹیز کی جو مرضی وہ کریں‘ نالوں کی جگہ بھی پلاٹ بنا دیں‘ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہاں پر سی ڈی اے کی بھی غلطی ہے‘ اس کو چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہیے تھا۔ اس کوتاہی کا خمیازہ شہریوں نے بھگتا ہے۔
جب بارش کے پانی کا ریلا ای الیون میں داخل ہوا تو لوگوں کے گھروں کے گرائونڈ فلورز اور تہہ خانوں کو نقصان پہنچا۔ ان کے فرنیچر‘ کارپٹ‘ برتن اور کپڑے وغیرہ خراب ہوگئے۔ باہر لان‘ کیاریاں اور گاڑیاں وغیرہ اس ریلے کی زد میں آگئے۔ مالی نقصان تو پھر کسی نہ کسی بھر جاتا ہے‘ گھر میں کچرا آجائے تو وہ بھی صاف ہوجاتا ہے‘ چند دن تک بدبو بھی چلی جاتی ہے‘ چیزوں کی مرمت بھی ہوجاتی ہے یا نئی خرید لی جاتی ہیں مگر یہ بارش سب کو رنجیدہ کرگئی کیونکہ اس بارش سے مالی نہیں‘ جانی نقصان بھی ہوا جس کی کوئی تلافی ممکن نہیں ہے۔ سیکٹر ای الیون ٹو میں جس وقت پانی کا ریلا داخل ہوا‘ بیسمنٹ میں رہائش پذیرشہری کاشف کے گھر میں بھی پانی داخل ہوگیا‘ صبح سویرے جس وقت پانی داخل ہوا‘ لوگ سو رہے تھے۔ کاشف کی اہلیہ اور بیٹا جاں بحق ہوگئے اور دو بچے اور وہ خود معجزانہ طور پر بچ گئے۔ کاشف کے اہلِ خانہ اس وقت صدمے سے نڈھال ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ماں اور بچہ یوں اچانک دنیا سے چلے جائیں گے۔ کاشف کی والدہ نے روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پانی سیلابی ریلے کی طرح گھر میں داخل ہوا اور ان کی بہو اور پوتا جاں بحق ہوگئے۔ ایک پوتا اور پوتی اس طرح محفوظ رہے کہ ان کے بیڈ کا گدا پانی میں تیرنے لگا اور وہ دونوں بچے ڈوبنے سے بچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ہماری مدد کے لئے نہیں آیا‘ محلہ داروں نے بالٹیوں سے بھر بھر کر پانی باہر نکالا۔ انہوں نے سی ڈی اے کو اس غفلت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان کے انتظامات ٹھیک نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اہلِ علاقہ نے متعدد بار متعلقہ دفاتر میں شکایات کیں کہ ہمیں بارشوں سے خطرہ ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔یہ یقینا ایک بڑا سانحہ ہے جس سے جڑواں شہروں کے عوام بالخصوص بہت رنجیدہ ہیں۔ اسلام آباد کے شہری نجی سوسائٹیز اور سی ڈی اے سے سوال کررہے ہیں کہ کس کی غفلت کی وجہ سے یہ سب ہوا کہ ایک پورا سیکٹر پانی میں ڈوب گیا،ایک خاندان اجڑگیا۔ دیگر شہریوں اور تاجروں کا جو مالی نقصان ہوا‘ وہ الگ ہے ۔ کئی شہریوں نے اسلام آباد سیلابی ریلے کی وڈیوز پوسٹ کی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح بارشوں کے پانی نے شہریوں کے گھروں‘ دیواروں‘ دروازوں اور لان وغیرہ کو نقصان پہنچایا۔ پانی ان کے گھروں میں مٹی‘ کچرا اور گارا چھوڑ گیا۔ بہت سے شہریوں کی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ اس کے ساتھ مارکیٹوں کی بیسمنٹس میں بھی پانی چلا گیا جس سے شہریوں کا لاکھوں‘ کروڑوں کا نقصان ہوا۔
ای الیون کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے‘ نالوں کی صفائی ٹھیک سے نہیں ہوتی، بے ہنگم تجاوزات، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، گداگروں کی بھرمار، اکثر شہری رہزنی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، اس کے علاوہ یہاں کتوں کی بھی بہات ہے۔ یہ سیکٹر اگرچہ کچھ سوسائٹیز کے پاس ہے لیکن سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے خود بھی اقدامات کرے اور سوسائٹیز سے بھی یہ کام کروائے۔ کیپٹل سٹی کے سیکٹر ڈی 12 سے بھی شہریوں نے وڈیوز شیئر کی ہیں کہ پانی کا بڑا ریلا وہاں سے گزرا اور عوام گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ ڈی 12 اور ای الیون اس وقت بہت سے شہری اپنے گھروں کی دوسری منزل پر محصور ہیں۔
صبح کے وقت اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ سری نگر ہائے وے بھی سمندر کا منظر پیش کررہی تھی اور دفاتر جانے والے حیران تھے کہ اچانک یہ سب کیا ہو گیا۔ انتظامیہ کے مطابق یہ کلائوڈ برسٹ یعنی بادل پھٹ جانے کا نتیجہ ہے‘ اس کے باعث یہ صورتحال پیش آئی، بادل صرف پاکستان میں نہیں‘ انڈیا اور چین میں بھی پھٹے ہیں اور وہاں بھی سیلاب کی سی کیفیت پیدا ہوگئی؛ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر اس صورتحال کا اندیشہ تھا تو شہریوں کو بروقت کیوں نہیں آگاہ اور متنبہ کیا گیا؟
بادل پھٹنا کیا ہوتا ہے: یہ ایک موسمیاتی اصطلاح ہے‘ ہوتا کچھ یوں ہے کہ بہت تھوڑے وقت میں بادل بہت زیادہ بارش برسادیتا ہے۔ بادل پھٹنے کے واقعات پاکستان اور بھارت میں متعدد بار پیش آئے ہیں، اسی باعث وادیٔ کشمیر میں بہت بار سیلاب کی سی صورتحال پیش آئی۔ 2019ء میں بادل پھٹنے سے نیلم ویلی میں سیلاب آگیا تھا جس سے 3 افراد جاں بحق اور 22 لاپتا ہوگئے تھے۔ اسلام آباد میں بھی بادل پھٹنے سے چند گھنٹوں میں 150ملی میٹر تک بارش ہوگئی جس سے طغیانی آگئی۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبریں آئیں تو پولیس‘ فوج‘ ریسکیو ادارے اور اسلام آباد کے ڈی سی خود ای الیون پہنچ گئے اور اپنے زیر نگرانی امدادی سرگرمیاں کروائیں۔ بہت سے علاقوں سے پانی نکال لیا گیا۔ سری نگر ہائی وے‘ مارگلہ روڈ‘ ناظم الدین روڈ‘ نائنتھ ایونیو اور آبپارہ روڈ کلیئر کردی گئیں، جہاں جہاں درخت گرے تھے‘ ان کو ہٹا دیا گیا۔ اس وقت راول ڈیم کے سپل وے کھول دیے گئے ہیں، جہاں پر بجلی کے پول خراب ہوئے تھے‘ ان کو بھی ہنگامی بنیادوں پر ٹھیک کیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی سیلابی ریلا داخل ہوا جس نالہ لئی میں طغیانی آگئی، راولپنڈی میں بھی شدید بارش ہوئی اور اسلام آباد کی طرف سے بھی پانی داخل ہوگیا جس سے شہر کے نشیبی علاقوں کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس موقع پر انتظامیہ کو بہت متحرک رہنا ہوگا،اکثر لوگ ایسے موسم میں کرنٹ لگنے یا ڈوب جانے سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ انتظامیہ سب سے پہلے تو پانی جمع نہ ہونے دے‘ اگر پانی جمع ہوجائے تو نکاسیٔ آب کا موثر نظام ترتیب دے تاکہ نظامِ زندگی درہم برہم نہ ہو۔ بارش اسی شدت کے ساتھ آئندہ چند روز تک جاری رہے گی‘ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھیں۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر سے بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں بھی بادل پھٹا ہے اور کشتوار‘ کارگل اور پلگام کے علاقے متاثر ہوئے ہیں‘ سات افراد جاں بحق اور متعدد گھر منہدم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اللہ سب کی حفاظت فرمائے!