کیا آپ کا فون محفوظ ہے ؟

فون ایک ایسی چیز ہے‘ آج کل کے دور میں جس میں ہمارا سارا حساس ڈیٹا ہے، فون نمبرز ہیں، تصاویر ہیں، ای میل ہے، موبائل بینکنگ ہے، ہمارے سوشل میڈیا اکائونٹس ہیں، ہماری ویڈیوز فون میں ہیں، الارم، کیمرہ، دیگر ایپس، اہم پیغامات‘ سب کچھ موبائل فون میں ہی ہوتا ہے۔ فون ہمارا لیپ ٹاپ بھی ہے، کیمرہ بھی، الارم کلاک بھی اور ٹائپ رائٹر بھی، سب کچھ اب اسی میں ہے‘ اس لیے اس کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے۔ کبھی فون پر کوئی ایسا لنک آئے جو مشکوک ہو‘ جس میں کسی گفٹ کی آفر کی گئی ہو‘ آپ کی تصاویر کو ایڈٹ کیا گیا ہو‘ تو ایسے لنکس کو ہرگز مت کھولیں، اس سے آپ کا فون ہیک ہوسکتا ہے۔ کچھ ایسے لنک بھی آتے ہیں جن کو کھولتے ہی آپ کا وٹس ایپ ہیک ہوجاتا ہے۔ آج کل کی دنیا میں فون بہت اہم ڈیوائس ہے‘ یہ ایک منی لیپ ٹاپ ہے، آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل ہی آج آپ کی شناخت ہے۔
کچھ دن قبل ایک تہلکہ خیز سکینڈل آیا ہے‘ پیگاسس پروجیکٹ کے نام سے یہ ٹویٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ اس میں اسرائیلی سافٹ ویئر کے ذریعے سے دنیا بھر کے 50 ہزار سے زائد اہم افراد کے موبائل فون کی جاسوسی کی گئی۔ان اہم افراد میں مختلف سربراہانِ مملکت، اعلیٰ شخصیت، کاروباری افراد، نامور سیاستدان، صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ افراد سمیت دیگر لوگ شامل تھے۔ ان افراد کے موبائل فون کی جاسوسی کی گئی یا انہیںہ یک کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور غیر ملکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ جن پچاس ہزار فونز کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی‘ اس میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا فون بھی تھا اور بھارت ان کے فون کی جاسوسی کا خواہاں تھا۔
اس کے علاوہ بھی 14 حکمرانوں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں، جن میں مراکش اور فرانس کے حکمران بھی شامل ہیں۔ چونکہ سربراہان مملکت کے فونز کا تجزیہ نہیں ہوا اور کسی نے اپنا فون تجزیے کے لیے پیش نہیں کیا‘ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ صرف کوشش تھی یا فون ہیک بھی ہوئے؛ تاہم جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق‘ 2ہزار سے زائد پاکستانیوں اور بھارتیوں کے فون جاسوسی کانشانہ بنے تھے۔بھارت این ایس او سے جاسوسی کررہا تھا جن میں پاکستانی شخصیات، کانگریس کے لیڈران، راہول گاندھی، مقبوضہ کشمیرکے رہنما، اقلیتوں کے رہنما اور حکومت مخالف صحافی شامل تھے۔ مودی سرکار نے اپنے تمام حریفوں کی جاسوسی کرنے کی کوشش کی۔
پیگاسس سپائی ویئر ہے کیا؟ یہ اسرائیل کا تیارکردہ ایک جاسوسی کا سافٹ ویئر ہے‘ جو وٹس ایپ، ایس ایم ایس اور آئی میسج کے ذریعے سے فون میں داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ آپ کے فون پر قابض ہوجائے تو یہ کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘ یہ محض سوچا ہی جا سکتا ہے۔ اس سے آپ کے تمام ایس ایم ایس پڑھے جاسکتے ہیں، وٹس ایپ کال سنی جاسکتی ہے، سارے فون نمبرز کاپی کیے جا سکتے ہیں، آپ کے کیمرے سے کسی بھی وقت آپ کو دیکھا جاسکتا ہے، فون کے مائیکرو فون کے ساتھ آپ کو‘ آپ کے اردگرد ہونے والی گفتگو کو سنا جاسکتا ہے، آپ کی ای میل، تصاویر،وڈیوز اور بینک اکائونٹس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 2019ء میں پاکستانی حکام کے موبائل فون کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی‘ جس کے پیچھے بھارت ہی ہوسکتا ہے، تب بھی این ایس او کا سافٹ ویئر استعمال ہوا تھا۔اس وقت ایک سرکاری مراسلہ بھی سامنے آیا تھا جس میں یہ لکھا کہ پاکستانی سرکاری حکام کو کہا گیا تھا کہ وہ وٹس ایپ استعمال مت کریں لیکن اس ضمن میں یہ کہنا مشکل ہے کہ فون ہیکنگ کی کوشش کس حد تک کامیاب ہوئی۔
180صحافیوں کی اس سے جاسوسی کی گئی جن میں بھارتی صحافی بھی شامل تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، انڈین ایکسپریس، انڈیا ٹوڈے، نیٹ ورک 18 وغیرہ جیسے اداروں سے تھا۔ یہ بہت خطرناک امر ہے، نہ صرف اس سے صحافیوں کی زندگیاں خطرے میں آسکتی ہیں بلکہ ان کے سورس کی جانیں بھی خطرے میں آجائیں گی۔ بھارتی حکومت اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے مودی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے، بھارت کے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔ اپوزیشن اس بات کی خواہاں ہے کہ پیگاسس سکینڈل اور مودی سرکار کی زرعی پالیسی پربحث ہو؛ تاہم مودی سرکار اس پر تیار نہیں ہے۔
کچھ باوثوق ذرائع کے مطابق‘ چار سال قبل جب بھارتی وزیراعظم اسرائیل کے دورے پر آئے تھے‘ تب یہ ساری پلاننگ کی گئی تھی۔ کانگریس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے وہ رہنما جو مودی کابینہ میں شامل ہیں اور وشوا ہندو پریشد کے لیڈروں کے فون بھی ٹیپ کیے گئے، 2019ء کے بھارتی انتخابات میں جو لوگ انتخابی عمل کا حصہ تھے‘ ان کی بھی جاسوسی کی گئی۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے پیگاسس سکینڈل کی تحقیقات کے لیے دو سابق جج صاحبان پر مشتمل ایک دورکنی کمیٹی تشکیل دی ہے؛ تاہم بھارتی حکومت یا بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے ابھی تک کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپش بگھیل کی طرف سے بھی سپائی ویئر سکینڈل کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ بھارت میں پیگاسس سافٹ ویئر صرف ان کے لیے استعمال کیا گیا جو مودی مخالف تھے‘ اس عمل سے بھارتی حکومت نے اپنے ملک کی سلامتی کو خود ہی خطرے میں ڈالا۔ کانگریسی رہنما نریندر مودی اور امیت شاہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن نے دو بہت اہم سوالات اٹھائے کہ بھارتی حکومت میں سے کس نے اسرائیلی کمپنی سے پیگاسس سافٹ ویئرخریدا اور اس پر کتنا خرچہ آیا۔ دوسرا سوال، اس سے کس کس کی جاسوسی کی گئی ۔ پاکستان بھی اس حوالے سے تفتیش کا اظہارکررہا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے اس سکینڈل کی تحقیقات کریں۔ پاکستان ہرسطح پر اس معاملے کو اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے جاسوسی ایک غیرذمہ دارانہ طرزِعمل ہے اور یہ بین الااقومی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس سے پہلے بھی بھارت کا پول ای ایو ڈس انفولیب کھول چکی ہے کہ کس طرح بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کو پورے کرنے کے لیے ڈس انفارمیشن کی جنگ لڑی۔ ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق‘ بھارتی نیٹ ورک اور سری واستوا گروپ کا ہدف پاکستان کے خلاف جعلی خبریں پھیلانا تھا۔ یہ نیٹ ورک 15 سال تک اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر اثرانداز ہوتا رہا۔ اس کے تحت بھارت نے تھنک ٹینک بنائے‘ ایونٹ منعقد کرائے، میڈیا میں جعلی خبریں نشر کروائیں، 500سے زائد جعلی این جی اوز قائم کیں۔ اب کی بار بھارت نے ڈس انفو لیب کے نام سے ٹویٹر پر اکائونٹ بنایا اور وہاں سے کشمیر اور پاکستان کے خلاف مہم شروع کردی۔سوشل میڈیا صارفین نے نشاندہی کی تو ٹویٹر نے اس کا ویریفائیڈ اکائونٹ کا درجہ ختم کر دیا؛ تاہم یہ اکائونٹ اب بھی پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کررہا ہے۔ بھارت اس وقت پاکستان کے خلاف انفارمیشن وار لڑ رہا ہے اور پاکستان کو بھی اس کا بروقت جواب دینا چاہیے کیونکہ لوگ اس طرح کی منظم مہمات کواکثر سچ مان لیتے ہیں۔
اپنے فون پر کسی بھی غیر متعلقہ لنک کو اوپن نہ کریں‘ کسی خبر کو بھی بنا تصدیق آگے مت پھیلائیں۔ اکثر فون پر میسج آتے ہیں کہ فلاں برینڈ تحائف دے رہا ہے‘ اس لنک کو کھولیں اور آگے لوگوں کو فاروڈ کریں‘ ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے لنک سے آپ کے فون میں وائرس آجاتا ہے اور آپ کا فون ہیک ہوجاتا ہے۔ جب سربراہانِ مملکت کے فون ہیک کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے تو ایک عام صارف کا فون کتنا غیرمحفوظ ہوسکتا ہے‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے اپنے فون کی حفاظت کریں‘ اس کو پاس ورڈ لگا کر رکھیں۔ فائنڈ مائی فون کا آپشن آن رکھیں، کسی گفٹ والے لنک کو مت اوپن کریں، کسی لنک پر لکھا ہو کہ یہاں آپ کی تصاویر ہیں‘ اس کو بھی کلک نہ کریں، یہ بھی فون اور سوشل میڈیا اکائونٹس کو ہیک کرنے کے حربے ہیں۔ اگر فون کال پر کوئی بینک یا منی سروس والا بن کر کوڈ مانگے تو ہرگز نہ دیں۔ کسی ایپ کو ڈائون لوڈ کرتے وقت یہ ضرور چیک کریں کہ وہ آپ سے کس کس چیز کا ایکسس مانگ رہی ہے۔ یاد رکھیں! ایک بار فون ہیک ہوگیا تو آپ کے فون کا کیمرہ اور مائیک ہیکرز کے اختیار میں چلے جائیں گے‘ وہ جس وقت چاہیں‘ انہیں آن کر سکتے ہیں۔ اس لیے کسی غیر ضروری لنک کو اوپن مت کریں، غیر ضروری وڈیوز، تصاویر کو ڈیلیٹ کردیں۔ فالتو ایپس مت ایڈ کریں۔ فون آپ کی شناخت ہے‘ اس کی حفاظت کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں