ہوائوں کے راہی

15 اگست پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 6252کابل ایئرپورٹ کے رن وے پر موجود تھی۔ یہ کوئی عام فلائٹ نہیں تھی‘ نہ ہی حالات عام تھے۔ طیارے کو ایئرپورٹ پر کھڑے 8 گھنٹے ہوچکے تھے اور شہر میں ایک جنگ کا سا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگئی تھی اور اقتدار طالبان نے سنبھال لیا تھا۔ پاکستان ایئر لائنز کے اس جہاز میں 170 مسافر سوار تھے جن کی آخری امید‘ خدا کے بعد پی آئی اے کے کیپٹن مقصود بجرانی اور ان کا عملہ تھا۔ ایک وقت آیا کہ امریکی طیاروں نے وہاں بمباری شروع کردی۔ نیچے سے بھی راکٹ اور میزائل فائر ہونے لگے۔ ایسے میں ایک سویلین فلائٹ کا یوں رن وے پر کھڑے رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
کیپٹن مقصود بجرانی اور فرسٹ آفیسر سجاد غنی یہ سب کاک پٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت مقصود بجرانی یہ سوچ رہے تھے کہ اتنے مسافروں کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، اس صورتحال میں کیا کیا جائے۔ تین دہائیوں سے وہ فلائنگ کررہے ہیں، شمالی علاقہ جات جیسے پُرخطر پہاڑی علاقے میں ان کی ہر ہفتے ڈیوٹی ہوتی ہے اور کمال مہارت سے وہ طیارے کو پہاڑوں کا سینہ چیرتے ہوئے لینڈ اور وہاں سے ٹیک آف کرتے ہیں مگر یہاں مسئلہ پروفیشنل مہارت کا نہیں تھا۔ یہاں تو میزائل اور راکٹ چل رہے تھے۔ کبھی اپنے خاندان کا چہرہ ان کی نظروں کے سامنے آتا تو کبھی وہ مسافروں کے چہرے پر نظر ڈالتے۔ انہوں نے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی مگر کنٹرول ٹاور کا عملہ غائب ہو چکا تھا۔ اب جو کرنا تھا، انہیں خود ہی کرنا تھا اور وقت تیزی سے پھسلتا جا رہا تھا،جو بھی فیصلہ لینا تھا، اگلے چند لمحوں میں لینا تھا۔رن وے پر کھڑے کھڑے کچھ بھی ہوسکتا تھا، طیارے کو میزائل لگنے کا خطرہ تھا، ہر طرف فائرنگ ہو رہی تھی، جہاز کو یرغمال بنائے جانے کا خدشہ بھی پوری طرح موجود تھا۔
چند ماہ پہلے ایک حکومتی وزیر نے ایک لسٹ پارلیمان میں لہرائی جس میں لکھا تھا کہ پاکستان میں جعلی پائلٹس بھی جہاز اڑا رہے ہیں۔ اس خبر نے پاکستان کے ایوی ایشن شعبے کا دیوالیہ نکال دیا۔ اس لسٹ میں کیپٹن بجرانی کا بھی نام شامل تھا کہ وہ جعلی پائلٹ ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تین دہائیوں سے فلائنگ کرنے والے پائلٹ کو ایک مشتبہ لسٹ میں ڈال کر 5 دن کے لیے گھر بٹھا دیا گیا تھا۔ بعد میں سب ثابت ہو گیا کہ یہ الزام کہ وہ جعلی ڈگری والے پائلٹ ہیں‘ سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ انہوں نے یہ تکلیف اور ہزیمت چپ کرکے برداشت کی اور ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جب وہ انکوائری میں کلیئر کر دیے گئے تو دوبارہ سے وردی پہن کر پاکستان کی قومی ایئر لائن میں اپنے فرائض سرانجام دینا شروع کردیے۔
اب کابل ایئر پورٹ پر اردگرد کا جنگی ماحول دیکھ کر مستقبل کا ایک منظر بھی ان کے ذہن میں گھوم گیا۔ اس وقت ان کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ اگر جہاز یا مسافروں کو کچھ ہوا تو سب الزام ان پر آئے گا اورپھر سب ان کو جعلی ڈگری والا پائلٹ کہنا شروع کر دیں گے اور یہ بھی عین ممکن تھا کہ اپنا دفاع کرنے کیلئے وہ موجود ہی نہ ہوں۔ مسافروں کی جان سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔ ایوی ایشن کے اسباق ان کے ذہن میں فلم کی طرح چل رہے تھے۔ کیپٹن مقصود بجرانی اور فرسٹ آفیسر سجاد غنی اپنی ایئر بس 320 کے ساتھ کابل ایئرپورٹ سے ٹیک آف چاہتے تھے، وہ مزید انتظار کر کے مسافروں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے تھے۔ کنٹرول ٹاور عملہ فرار ہو چکا تھا اور اب موبائل کنٹرول ٹاور ہی کام کررہا تھا۔ کیپٹن مقصود بجرانی نے فیصلہ کیا کہ جہاز کو ٹیک آف کیا جائے۔ اس وقت امریکی جنگی جہازوں کے علاوہ قطر کی ایئرلائن اور بھارتی ایئرلائن کا ایک ایک مسافر طیارہ بھی کابل ایئرپورٹ پر موجود تھا مگر صرف ملٹری کے طیارے ہی ٹیک آف اور لینڈ کررہے تھے۔ جیسے ہی ملٹری کے ایک طیارے نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا تو مناسب فاصلے کے ساتھ کیپٹن بجرانی بھی اپنا طیارہ رن وے پر لے آئے اور میزائلوں اور راکٹوں کی فائرنگ کے باوجود کمال بہادری کے ساتھ اڑان بھرلی۔ پی کے 6252 اس لحاظ سے ایک منفرد پرواز تھی کہ جس وقت اس جہاز نے کابل میں لینڈ کیا تھا، اس وقت اشرف غنی کی حکومت تھی اور جس وقت طیارے نے ٹیک آف کیا‘ اشرف غنی ملک سے فرار ہو چکے تھے اور طالبان افغانستان میں برسراقتدار آچکے تھے۔
مقصود بجرانی بتاتے ہیں کہ میں نے بہت بار اڑان کی اجازت لی لیکن جواب نہیں ملا اور پھر جب یہ اطلاع ملی کہ کنٹرول ٹاور پر بھی حملہ ہوگیا تو تب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا تو اب ہم خود فیصلہ لیں گے۔ دوسرے مسافر طیارے پہلے ہی جاچکے تھے ،اب رن وے پر صرف ہم موجود تھے۔ جیسے ہی امریکی فضائیہ کے طیارے نے پرواز کی‘ ہم نے بھی فارمیشن کی صورت میں پرواز کرلی۔ مجھ پر میرے عملے اور مسافروں کی ذمہ داری تھی، میں نے بہت انتظار کرلیا تھا،اب اس سے زیادہ انتظار خطرے سے خالی نہیں تھا۔
کیپٹن بجرانی کہتے ہیں کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے؛ تاہم اس وقت میرے لئے مسافروں کی جانیں بچانا بہت ضروری تھا۔ میرے پاس کوئی ٹی وی یا میڈیا نہیں تھا‘ بس ایئر ٹریفک کنٹرولز کی آواز آرہی تھی اور ایک وقت میں وہ بھی ختم ہوگئی۔ اپاچی ہیلی کاپٹر نظر آرہے تھے جو راکٹ برسا رہے اور شیلنگ کررہے تھے۔ پھر کنٹرول ٹاور پر حملہ ہوگیا اور ہمارا مسافر طیارہ ہی کابل ایئرپورٹ کے رن وے پر رہ گیا۔ مجھے نہیں پتا کہ اگر ہم وہاں کھڑے رہتے تو کیا ہوتا۔ دھماکوں اور شیلنگ کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ میں نے انجن سٹارٹ کیا اور ٹیک آف کی تیاری کی، مجھے یہ خدشہ تھا کہ کوئی گاڑی ہمیں روک نہ لے۔ ہم آٹھ‘ نو گھنٹے سے وہاں کھڑے تھے۔ انجن سٹارٹ کرکے بھی ہمیں ایک گھنٹہ کھڑا رکھا گیا اور اس دوران ایندھن مسلسل استعمال ہورہا تھا۔ میں نے ٹیک آف رول سلو ملٹری جہازوں کے پیچھے کیا اور فارمیشن کی صورت میں فلائی کیا۔ فلائٹ میں کیبن کریو سمیت تین سکیورٹی اہلکار، سفارت کار اور دیگر ملکی اور غیر ملکی مسافر سوار تھے۔ مسافر بھی پریشان تھے؛ تاہم جب طیارے نے کابل سے ٹیک آف کیا تو سب کی جان میں جان آئی۔
وہ کہتے ہیں کہ پی آئی اے اور پی اے ایف‘ دونوں کے پائلٹس قابلِ تعریف ہیں۔ کوئی بھی اہم موقع ہو‘ قومی خدمت ہو یا ایمرجنسی حالات ہوں‘ ہمارے پائلٹس ہر وقت خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ میں ہمارے پی اے ایف پائلٹس نے اسرائیل کے جہاز گرائے تھے۔ پاکستانی پائلٹس کی ہمت اور جرأت ان کو دوسرے پائلٹس سے منفرد بناتی ہے۔ کشمور سے تعلق رکھنے والے پی آئی اے کے پائلٹ مقصود بجرانی نے وطن میں لینڈ کیا تو وہ قومی ہیرو بن چکے تھے۔ فلائٹ پی کے 6252نے تمام 170 مسافروں کے ساتھ بحفاظت لینڈ کیا۔
اگرچہ پاکستان میں ایوی ایشن کے معاملات آئیڈیل نہیں ہیں مگر ہمارے پائلٹس بہت محنتی اور قابل ہیں۔ ایئر سپیس اور ایئرسیفٹی گورننس کے معاملات کو حل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ نئے طیاروں کی خریداری اور پرانے طیاروں کی مینٹی ننس پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نو فلائی ایریاز ختم کیے جائیں، خراب اور پرانے جہازوں کو گرائونڈ کر دیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی طیارہ حادثہ پیش آتا ہے تو سارا الزام پائلٹس پر لگا دیا جاتا ہے، بیشتر ایسے واقعات میں پائلٹس چونکہ خود بھی ہلاک ہو جاتے ہیں‘ اس لیے وہ اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہہ پاتے۔ پائلٹس پر جو جعلی ڈگری کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا‘ اس پر حکومت کو ان پائلٹس سے معافی مانگی چاہیے جن کا نام غلطی سے اس لسٹ میں شامل ہوا۔ پائلٹس جہاز سے بھی زیادہ قیمتی اثاثہ ہیں‘ ہمیں ان کی قدر کرنا ہو گی۔ پی آئی اے حالیہ دنوں میں افغانستان سے پھنسے ہوئے متعدد ممالک کے لوگوں‘ مسافروں‘ غیر ملکی سفارت کاروں اور فوجیوں کو نکال کر پاکستان لائی جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہوا۔ عالمی برادری کو بھی پی آئی اے کو وہ مقام دینا ہوگا جس کی وہ حقدار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں