کورونا نے ہماری زندگیوں کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ دکھوں اور غموں کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ بیاں سے باہر ہیں۔ لوگ بیمار ہوگئے، لاک ڈائون لگ گیا، کاروبارِ زندگی تھم گیا، کتنے ہی لوگ جانبر نہ ہو سکے، کتنے اب بھی بیمار ہیں‘ کچھ معاشی لحاظ سے دیوالیہ ہو گئے ، کئی گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ اسلام آباد کی ایک نرس ہے‘ وہ بہت سخت حالات میں ڈیوٹی کررہی ہے، جڑواں شہروں میں کورونا ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا ہے اور دوسرے شہر میں جاکر اس نے دوسری شادی کرلی ہے۔ اس نے کبھی شوہر سے پیسوں اور طلاق کا مطالبہ نہیں کیا۔ چپ چاپ وہ اپنے چار بچوں کی کفالت کررہی ہے۔ اگر آپ اس کا گھر دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ صرف ایک کمرہ ہے‘ اس پر بھی اس نے ٹین کی چادر کی چھت لگائی ہوئی ہے، ایک چھوٹا سا برآمدہ ہے جس میں کچن ہے۔ بچوں کے پاس بیڈ تک نہیں ہے، زمین پر گدے‘ چادریں بچھا کر بچے سکول کا کام کر رہے تھے۔ وہ جو کماتی ہے‘ بچوں کی فیس، گھر کے کرائے اور راشن پر خرچ ہوجاتا ہے۔ روشن نے مجھ سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا لیکن ضرورت مند کی آنکھیں سب بول پڑتی ہیں۔ اس کے گھر میں راشن نہیں‘ اس کے بچوں کے پاس کرسی اور میزتک نہیں ہے، وہ زمین پر ہی سوتے ہیں‘ وہیں کھانا کھاتے اور وہیں پڑھتے ہیں۔ چاروں بچے بہت لائق ہیں مگر اس کی تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ وہ ان کو اچھی تعلیم اور خوراک دے سکے۔ میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ ایسی اور کتنی روشن ہوں گی جو روز نوکری کے لئے نکلتی ہیں لیکن پھر بھی گھر کے خرچے پورے نہیں کرپاتیں۔ جتنا ہوسکتا تھا‘ میں نے اس کی مدد کی لیکن یہ کام معاشرے اور ریاست کا بھی ہے‘ اپنے اردگرد نظر رکھیں اور ایسے افراد کی بالخصوص مدد کریں جو ہاتھ نہیں پھیلاتے اور جو حقیقی مجبور ہیں۔
مجھے ایک ایسے شخص کی کال آئی جنہوں نے ساری زندگی لوگوں کا بھلا کیا‘ ان کے گھر کا دسترخوان ہمیشہ وسیع رہا۔ انہوں نے ہمیشہ غریبوں کی مدد کی لیکن کورونا نے ان کے کاروبار کو تباہ کردیا اور گزشتہ ایک سال سے وہ گھر پر ہیں۔ ان کی روتے ہوئے کال آئی اور نہایت بوجھل دل سے انہوں نے کہا کہ اگر ہو سکے تو لوگوں سے میرے لئے مدد کی اپیل کریں۔ مجھے اس بات پر بہت دکھ ہوا کہ کورونا کی وبا نے اُن لوگوں کو بھی سڑک پر پہنچا دیا ہے جو صاحبِ ثروت تھے۔ وہ بات کررہے تھے اور ساتھ ہچکیوں کے ساتھ رو بھی رہے تھے کیونکہ بیماری کی وجہ سے وہ محنت مزدوری کرنے سے قاصر ہیں اور بچے ان کے ابھی چھوٹے ہیں۔ میں کافی پریشان ہو گئی کہ اس وبا نے انسانوں کو معاشی اور جسمانی طور پر ہی نہیں جذباتی طور پر بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔ میں نے اپنے سرکل میں کئی لوگوں سے کہا کہ ان کی مدد کریں مگر خاموشی سے تاکہ ان کی خودداری پرحرف نہ آئے۔
گزشتہ دنوں ایک افسوس ناک خبر ملی کہ عابد رضا بنگش انتقال کرگئے ہیں۔ وہ رفیق رضا بنگش شہید کے والد تھے۔ رفیق رضا اے پی ایس پشاور کے طالب علم تھے اور 16 دسمبر 2014ء کو سانحہ اے پی ایس میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کی مظلومانہ شہادت نے شازیہ اور عابد بنگش کو توڑ کررکھ دیا تھا۔ وہ دونوں ہر روز روتے تھے‘ ہر روز ہمت جمع کر کے زندگی گزارتے تھے۔ سانحہ اے پی ایس نے رفیق بنگش کو زندہ درگور کردیا تھا۔ وہ پشاور سے اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے مگر ان کا ہر تہوار کوہاٹ میں رفیق کی قبر پر گزرتا تھا۔ بہت بہادری سے انہوں نے زندگی کو سمیٹا لیکن آزمائش ابھی باقی تھی، اسی دوران وہ کورونا کا شکار ہو گئے اور 11 ستمبر کو ان کی وفات ہوگئی۔ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، ان کی بیوہ اور دونوں بچوں کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ ان شاء اللہ وہ اور رفیق جنت میں ساتھ ہوں گے، اللہ تعالی اس خاندان کو صبر دے اور ان کی آزمائشوں میں کمی لائے۔
ارسلان کی باتیں سن کر بھی کافی افسوس ہوا، وہ پشاور میں رہتا ہے‘ گرافک ڈیزائنر ہے‘ ایڈیٹنگ بھی جانتا ہے، اپنے والد کی اچانک وفات کے سبب وہ ماسٹرز میں داخلہ نہیں لے سکا تھا، اب گزشتہ ایک سال سے نوکری کی تلاش میں ہے لیکن کہیں بھی اس کو نوکری نہیں مل رہی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ جس محکمے میں اس کے والد کام کرتے تھے‘ وہیں پر اس کو نوکری مل جائے لیکن وہاں اس سے رشوت طلب کی گئی۔ رشوت بھی کوئی کم نہیں‘ کہا گیا کہ اگر نوکری چاہیے تو 25 لاکھ کا انتظام کر لو، جس کی جیب میں 25روپے نہیں‘ وہ کہاں سے لاکھوں روپے کا انتظام کرے؟ گھر پر فاقے شروع ہو گئے تھے، اس پر اس نے ایک ہوٹل پر رات کو بیرے کی نوکری کرنا شروع کر دی۔ اس نے مجھ سے پوچھا: جیا آپی تبدیلی کہاں ہے؟ مجھے بی ایس کے باوجود نوکری نہیں مل رہی، سفارش اور رشوت کے بنا اس ملک میں کام کیوں نہیں ہوتا؟ مجھے ویٹر بننے میں کوئی عار نہیں‘ محنت میں یقینا عظمت ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس تنخواہ میں گھر نہیں چل رہا اور میری تعلیم کا سلسلہ بھی رک گیا ہے، کورونا نے ہمارا گھر برباد کردیا ہے۔
میری ایک سہیلی کے ساتھ زندگی نے وہ کھیل کھیلا کہ شاید اس کا دکھ بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تمام تر احتیاط کے باوجود اس کے والدین کو کورونا ہو گیا، پہلے اس کی والدہ نے دم توڑا اور اگلے ہی دن والد بھی چل دیے۔ وہ کہتی ہے کہ چونکہ وہ دونوں کورونا سے فوت ہوئے تھے لہٰذا میں نے گھر میں قرنطینہ کرلیا تاکہ اگر مجھ میں بھی یہ بیماری ہے تو مجھ سے کسی کو یہ نہ لگ جائے۔ وہ کہتی ہے کہ ایک تو یتیمی کا صدمہ‘ دوسرا تنہائی کا دکھ‘ دونوں نے مجھے توڑ کر رکھ دیا، غم کی اس گھڑی میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کے گلے لگ کر میں رو سکتی۔ اس غم نے اس کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر شدید دھچکا پہنچایا۔ اگرچہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہے مگر 24 گھنٹے کے اندر اپنے والدین کو کھو دینا ایک ایسا غم ہے جو اب ساری زندگی اس کے ساتھ رہے گا۔ اس غم نے اس کو نفسیاتی دبائو کا شکار کردیا ہے۔
کیا حکومت کا کوئی ادارہ اس امرپر کام کررہا ہے کہ کورونا نے پاکستان کے عوام پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ اس وبا کے بعد معاشی طور پر لوگوں کا کتنا نقصان ہوا ہے، کتنے لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، کتنے آسودہ حال مالی تنگ دستی کا شکار ہو گئے ہیں، کون سے افراد بیماری کے بعد نفسیاتی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں، کتنے لوگ اس بیماری کے بعد اب تک مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوسکے اور دیگر امراض کا سامنا کررہے ہیں۔ کتنے لوگوں کا کاروبار متاثر ہوا، کتنے لوگوں کا بالکل ہی تباہ ہوگیا، کتنے لوگ اس بیماری کی وجہ سے خوف کا شکار ہو گئے اور اب نفسیاتی دبائو میں ہیں؟ ان سب کا ڈیٹا تیار کرنا ریاست کا کام ہے، ان کی مدد ریاست کو کرنی ہے کیونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ ریاست کو ان سب کا خیال کرنا ہوگا اور ان کی داد رسی کرنا ہوگی۔ حکومت عوام کو بلا سود قرضے دے‘ علاج معالجے کیلئے معاونت دے‘ ہر جگہ شعبۂ نفسیات قائم کیا جائے تاکہ دکھی عوام کے غم کو کوئی تو سننے والا ہو۔ اس کے ساتھ عوام کیلئے لنگر خانے اور دستر خوان زیادہ جگہوں پر کھولے جائیں تاکہ پورے ملک میں ایک بھی شخص بھوکا نہ سوئے، سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں‘ ان خواتین کی کفالت کی جائے جن کے سروں پر باپ‘ بھائیوں کا سایہ نہیں ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران سب سے زیادہ ضرورت ایسے کام کرنے کی ہے جن سے عوام کی فلاح و بہبود یقینی بنائی جا سکے۔ ضرورت ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر ریاستِ پاکستان کو استوار کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان میڈیا اور سوشل میڈیا فورمز پر عوام کے مسائل براہِ راست سنیں۔ اس وقت احساس پروگرام اور بیت المال کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضروت ہے۔ عوام کورونا‘ بیماری اور معاشی بدحالی کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں‘ فی الفور ان کے لئے کچھ کیا جائے۔ حکومت کی آنکھیں اور کان اس کے وزیر، مشیر اور سوشل میڈیا ٹیم کے ممبر ہیں مگر وہ ''سب اچھا‘‘ کی ہی منظر کشی کرتے رہتے ہیں جبکہ زمینی حالات اس کے برعکس ہیں۔ ایک بار اپنے اردگرد نظر دوڑائیں‘ ہر جگہ عوام کے دکھ اور تکالیف نظر آجائیں گے۔ عوام کے درد کی دوا صرف ریاست کے پاس ہے۔ براہ مہربانی ان کی مدد کریں۔ میں کس کس کا نوحہ لکھوں کہ یہاں تو ہر شخص تکلیف میں ہے۔