مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن کے دنوں میں جب جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم پاکستان میچ کھیلنے آئی تھی۔ یہ بے فکری کا دور تھا‘ ملک میں مجموعی طور پر امن و امان تھا۔ ہم سٹیڈیم میں موجود تھے‘ ہمارے سامنے ٹیم بس میں بیٹھ کر وہاں پہنچی‘ ہم بچے کھلاڑیوں سے ملے‘ میچ دیکھا‘ اس وقت اتنی سکیورٹی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ بالخصوص بچے آسانی سے کھلاڑیوں سے آٹوگراف لے سکتے تھے‘ ان سے ہاتھ بھی ملا لیتے تھے۔ پھر کرکٹ کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ابھرا‘ جب لاہور میں سری لنکا کی ٹیم کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ 3 مارچ 2009ء کو صبح 8 بج کر 40 منٹ پر لاہور کے گلبرگ کے علاقے میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا۔ 12 دہشت گردوں نے ٹیم کے قافلے کو قذافی سٹیڈیم جاتے ہوئے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں اور بس ڈرائیور نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ٹیم کو شدید نقصان سے بچا لیا؛ البتہ اس حملے میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان زخمی ہوئے جبکہ چھ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ دہشت گردوں نے دستی بموں اور راکٹ لانچروں سے حملے کیے لیکن بس کے بہادر ڈرائیور مہر خلیل نے بس نہیں روکی‘ ایک بم بس کے قریب پھٹا جبکہ بس پر‘ جس میں سری لنکن ٹیم سوار تھی‘ راکٹ بھی فائر کیا گیا لیکن ڈرائیور نے بس کو قذافی سٹیڈیم پہنچا کر ہی دم لیا۔ اس حملے میں امپائر احسن رضا اور میچ آفیشل عبد السمیع کو بھی شدید زخم آئے۔مہر خلیل کی بہادری پر ان کو پاکستان اور سری لنکا‘ دونوں اطراف سے اعلیٰ اعزازت سے نوازا گیا۔ انہیں سری لنکا بلایا گیا‘ ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی اور انعام و اکرام اور اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کے بعد بھی ان کو کرکٹ میچز میں مہمانِ خصوصی کے طور پر سری لنکا مدعو کیا گیا۔ اس حملے کے پیچھے کون تھا‘ اس سے کس کو فائدہ پہنچا‘ کون پاکستان میں کرکٹ کے خلاف ہے‘ یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
یہ صرف بھارت ہے جسے پُرامن اور پھلتا پھولتا پاکستان ہضم نہیں ہوتا۔ جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تھا‘ اس سے ایک ماہ قبل پنجاب میں انٹیلی جنس برانچ نے ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا تھا کہ را اور اس کے سہولت کار سری لنکن ٹیم کو نشانہ بنا سکتے ہیں‘ تاہم اُن دنوں تبادلوں اور سیاسی تنائوکے باعث یہ معاملہ دب گیا‘ اس وقت پنجاب کی صوبائی حکومت کو معطل کر کے گور نر راج لگایا گیا تھا‘ غالباً اسی وجہ سے یہ سرکلر دب گیا‘ البتہ یہ حملہ اسی طرح ہوا‘ جیسے الرٹ میں بتایا گیا تھا۔ بھارت اُس وقت بھی امن اور کھیلوں کا دشمن تھا اور آج بھی ہے۔
19 سال قبل یعنی 2002ء میں کراچی میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کے باہر دھماکا ہوا تھا جس میں فرانسیسی انجینئروں سمیت 17 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ یہ حملہ آگستا آبدوز پر کام کرنے والے عملے پر کیا گیا تھا۔ اسی ہوٹل میں نیوزی لینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں بھی ٹھہری ہوئی تھیں جو اس وقت کراچی میں ایک ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھیں۔ نیوزی لینڈ کے کرکٹرز اس صورتحال سے نہایت خوفزدہ ہوئے تاہم سب محفوظ رہے۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ہوٹل کی لابی کے تمام شیشے ٹوٹ گئے۔ اس دھماکے کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم ٹیسٹ میچ اور سیریز کو ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یوں پاکستان میں انٹرنیشنل میچز کے دروازے بند ہوگئے۔ بہت سے ممالک کی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا جس سے شائقین بہت رنجیدہ ہوئے اور ملک میں مثبت تفریح کا ایک باب بند ہو گیا۔
دہشت گردی سے کون سا ملک محفوظ ہے؟ لندن میں دھماکے ہوئے‘ پیرس میں دھماکے ہوئے‘ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ پیش آیا‘ دہشت گردی تو پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس سے مل کر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت کی بات کریں تو اس کے ہاں علیحدگی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں پر کھیلیں اور ثقافتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ درحقیقت اس کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے‘ وہ ہمہ وقت اپنے ہمسایوں کے خلاف سازشیں کرنے اور انہیں دنیا کا غیر محفوظ ترین ملک ثابت کرنے میں جتا رہتا ہے۔ کھیلوں کے خلاف سازش دہشت گردی کے علاوہ بھی بہت سنگین جرم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو دنیا بھر میں بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے۔ سری لنکا کی ٹیم پر حملے سے لے کر اب نیوزی لینڈ کی ٹیم کے واپس چلے جانے تک کے شواہد اس بات کے عکاس ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا دشمن صرف بھارت ہے۔ بھارت کی وجہ سے دنیا بھر میں کھیل متاثر ہورہے ہیں اور کھلاڑیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔ 2009ء میں ہم سے فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے میں چوک ہوئی لیکن اب تو کھلاڑیوں کو صدارتی لیول کی سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارے عوام کرکٹ کے شیدائی ہیں‘ اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ یہاں ٹیمیں آئیں اور سیریز کھیلیں‘ تاہم بھارت ایسا ہونے نہیں دے رہا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ اس سے قبل سری لنکن ٹیم پر بھی را نے ہی حملے کرائے تھے جبکہ اس مرتبہ بھی سازش بھارت نے کی ہے۔
19 برس بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو عوام بہت خوش تھے کہ ملک میں کھیل کے آباد میدانوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ پاکستانی شائقین بھارتیوں کی طرح نہیں ہیں کہ میچ میں ہار کا یقین ہونے پر سٹیڈیم میں آگ لگا دیں یا کھلاڑیوں کے ساتھ بدسلوکی کریں۔ پاکستانی شائقین اپنے مہمان کھلاڑیوں کو بہت عزت دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کی یہاں میزبانی بہت اچھے طریقے سے کی گئی لیکن اس کے باوجود ٹیم آفیشلز نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے 24 گھنٹے بعد انگلینڈ کی ٹیم نے بھی پاکستان آنے سے معذرت کرلی جس سے پاکستانی شائقین بہت بے دل ہوئے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یوں منظم طریقے سے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دھمکیاں دینا اور انہیں دورۂ پاکستان ادھورا چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور کرنا دراصل پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے۔ حکومت نے اس سازش کا پردہ بروقت چاک کردیا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو جو دھمکی آمیز پیغامات ملے‘ ان میں جو ای میل اور ڈیوائسز استعمال ہوئیں‘ وہ بھارت سے آپریٹ ہوئیں۔ اب عالمی طور ان معاملات کو اٹھانا حکومت اور کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ اس معاملے کو ہرفورم پر اٹھایا جانا چاہئے۔
اس ساری صورتحال میں ہمیں لوکل کرکٹ کی بحالی طرف توجہ دینا ہوگی۔ صوبے اور شہروں کی ٹیمیں آپس میں کھیلیں اور لوکل ٹیلنٹ کو سامنے لایا جائے‘ ہم خود کھیل کر بھی کرکٹ کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم تو خود ایک کرکٹر ہیں‘ انہیں چاہیے کہ وہ پاکستان میں لوکل کرکٹ کو فروغ دیں اور اس کی سرپرستی کریں۔ ہر شہر اور صوبے کی اپنی ٹیم ہو جن کے آپس میں مقابلے کرائے جائیں۔ اس کے دہرے فائدے ہوں گے‘ ایک تو اس سے کھیل کے میدان آباد رہیں گے‘ دوم‘ اس سے نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا جو قومی ٹیم کی پرفارمنس میں بھی بہتری کا ذریعہ بنے گا۔
ہمارے ملک میں بہت ٹیلنٹ ہے جب ہم لوکل کرکٹ کو فروغ دیں گے تو پوری دنیا دیکھ لے گی کہ ہم کتنی پُرامن قوم ہیں اور ہمارے لوگ کرکٹ کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔ چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ اور صوبائی کھیلوں کے محکمے اس ضمن بہت اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کرکٹ کے دشمن اور بھارت سن لیں کہ ان کی سازشیں ہمارے خون سے کرکٹ کو نہیں نکال سکتیں۔