حکومت ''نیا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی اس کا یہ نعرہ پرکشش تھا۔لاکھوں لوگوں نے انہیں سپورٹ کیا‘ ووٹ دیے‘ خاص طور پر سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کی مقبولیت بہت زیادہ تھی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں میں سے بڑی تعداد عمران خان صاحب کی فین اور تبدیلی کی خواہاں تھی۔یہاں تک کہ جھیل کے کنارے رہنے والے ڈاکٹر صاحب نے بھی واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا‘ تاہم ستم ظریفی دیکھیں کہ حالات ویسے ہی رہے اور کچھ تبدیل نہیں ہوا۔تین سال ہوگئے ہیں ‘ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔اس کے ساتھ رہی سہی کسر کورونا اور ڈینگی نے پوری کردی۔ حکومت ان تین سالوں میں مہنگائی کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔شہریوں کی قوتِ خرید بہت کم ہوگئی ہے۔دوسری طرف حکومت ریلیف دینے میں ناکام ہے۔عوام دہائی دے رہے ہیں لیکن ایوان اقتدار کے مکینوں تک آواز پہنچ نہیں پارہی۔ عوام کے لیے پیٹ بھرنا مشکل ہورہا ہے ‘گھر کا خرچہ چلایا نہیں جارہا‘ مہنگائی کے باعث مریض دوائیں خریدنے اور علاج کرانے سے قاصر ہیں۔متوسط طبقہ غریبی کی لکیر سے نیچے چلا گیاہے اور کورونا کی وبا کے دوران امیر لوگوں کو سڑک پر آتے دیکھا ہے‘ تاہم حکومت معیشت کے اثرات سے بالکل بے خبر ہے ۔اس حوالے سے کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے اور کتنے اس وبا میں مالیاتی نقصان کی وجہ سے معاشی طور پر بدحال ہوگئے۔ اس وقت سینکڑوں لوگ بیروزگاری کا سامنا کررہے ہیں جوکہ فاقوں کی نوبت تک پہنچ گئے ہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف عوام آٹا ‘ گھی ‘ چینی ‘ سبزیاں اور پھل مہنگے ہونے پر محسوس کررہے ہیں۔ حکومت پرائس کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام ہے‘ سارا غصہ ایک ریڑھی والے پر نکل جاتا ہے جبکہ دکاندار اور مالز والے اپنی من مانی کررہے ہیں۔ جس چیز کا نرخ ایک بار بڑھ جائے پھر حکومت اس کو کم کرانے میں ناکام رہتی ہے۔اگر کوئی چیز عالمی منڈی میں مہنگی ہوتی ہے تو پاکستان میں بھی مہنگی ہوجاتی ہے اور اگر عالمی منڈی میں سستی ہو تو پاکستان میں اس کی قیمت کم نہیں ہوتی۔عوام آٹے کی قیمت بڑھنے پر بھی نالاں ہیں کیونکہ روٹی سے پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ جب آٹا مہنگا ہوگا تو عوام پیٹ بھر کرروٹی نہیں کھاسکیں گے۔پیٹ میں روٹی نہیں ہوگی تو انسان کام کرنے کی انرجی کہاں سے لائے گا؟اس لئے عوام بہت سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ آٹا اس وقت 53 روپے کلو تک پہنچ گیا ہے اور 20 کلو کا تھیلا کراچی میں 1500 روپے سے اوپر ہے اور گھی 300 کا ہندسہ عبور کرگیا ہے۔اب عوام کیا کریں‘ کس چیز سے اپنی بھوک مٹائیں۔چینی کی قیمت کو بھی پرلگے ہوئے ہیں۔یہ سو کا ہندسہ پھلانگ گئی جبکہ سرکاری نرخ 88 مقرر ہے۔
پرائس کنٹرول نامی کمیٹیاں موجود ہیں لیکن یہ بری طرح ناکام رہتی ہیں۔ ہر کوئی اپنے نرخ پر اشیا ئے خورونوش بیچ رہا ہے۔ گراں فروشی پر چھوٹے تاجروں کو جرمانے ہوتے ہیں لیکن بڑے کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ریٹ لسٹ آویزاں نہیں ہوتی اور گاہک دکانداروں کو مرضی کے ریٹ دینے پر مجبور ہیں۔حکومت کے تین سالہ دور میں دالیں بھی غریب کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ 2021ء میں دال کی قیمتوں میں دس سے پندرہ روپے فی کلو کا اضافہ ہوا۔بات کریں سبزیوں کی توایک وقت آیا کہ ٹماٹر 300 روپے کلو ہوگیا ‘ لہسن ادرک 400 روپے فی کلو تک چلا گیا‘ تاہم عوام کی پریشانی کا احساس حکومت کو نہیں ہوا۔بعد میں کچھ اشیا کی قیمتیں کم ہوئیں لیکن زیادہ تر اشیا کے نرخ اب بھی عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔میں نے اسلام آباد کے ایک سٹور پر جہاں بڑی تعداد میں عوام گھر کا سودا سلف خریدنے آتے ہیں جب چیزوں کی قیمت کا جائزہ لیا تو لیموں کی قیمت 389روپے‘ مرچیں 209روپے اور بند گوبھی 99 روپے فی کلو۔پپیتا 239 روپے‘بھنڈی 139 روپے‘شملہ مرچ 359 روپے کلو۔گاجر 129روپے‘پالک 69 روپے اور آئس برگ379 روپے کلو۔پودینہ 19 روپے گھٹی ‘گھیا کدو 129‘ بینگن 129 روپے کلو‘مٹر 439 روپے کلو‘ فریش بین 209روپے کلو‘ دھنیا 229 روپے کلو‘ کھیرا 85 روپے اور آلو 95 روپے کلو فروخت ہورہا تھا۔ پھلوں کی بات کریں تو کیلا 120 روپے درجن‘ سیب 299 روپے کلو‘سندرخانی انگور 495 روپے اور انار 319 روپے کلو تھا۔چینی ‘ گھی اور آٹا دال سبزیاں پھل ‘ سب کچھ کے نرخ ہر روز بدل جاتے ہیں اور حکومت اس کے آگے بے بس ہے۔
اب اگر جائزہ لیں پٹرولیم مصنوعات کا تو اس میں بھی حکومت نے عوام پر وہ بم مارا ہے کہ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 44 پیسے‘ لائٹ ڈیزل آئل آٹھ روپے‘پٹرول کی قیمت میں 10 روپے 49 پیسے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 10 روپے 95 پیسے اضافہ کیاگیا ہے۔ یوں قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔ اب ایک لٹر پٹرول 137 روپے 79 پیسے اور ڈیزل 134 روپے 48 پیسے کا ہو گیا ہے۔ عوام حیران پریشان اور صدمے میں ہیں کہ ان کی خریدنے کی سکت اتنی نہیں جتنا حکومت نے اُن پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ جب فی کس آمدنی اس ملک میں اتنی کم ہے تو ہم کیسے عوام پر اتنا بوجھ ڈال سکتے ہیں؟ جب عالمی منڈی میں مصنوعات کم ہوتی ہیں تب تو یہاں صرف چند پیسے کی کمی ہوتی اور اکثر جب پٹرول پمپ پر لوگ اپنے 79 پیسے یا 40 پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ پیسے اب کرنسی میں موجود ہی نہیں۔پھر اتنا ریلیف کیوں دیا جاتا ہے؟پر حکومت ریلیف اتنا سا دیتی ہے اور جب اضافہ کرنا ہو تو یکدم تین روپے ‘پانچ روپے بڑھتے ہیں اور اس بار تو اضافہ دس سے چودہ پر پہنچ گیا ہے ۔
دوسری طرف وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ مہنگائی نیچے نہیں آئے گی‘ تو اب عوام بیچارے جائیں کہاں؟ بجلی کی بات کریں تو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اس کی قیمت میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 14اکتوبر کو نیپرا نے بجلی کے نرخ بڑھائے ہیں جس کے تحت فی یونٹ ایک روپیہ 65 پیسے کا اضافہ کیا گیا۔گولڈ کی بات کریں تو اس وقت سونا ایک لاکھ 18ہزار 300روپے تولہ پر پہنچ گیا ہے جبکہ دس گرام کی قیمت ایک لاکھ ایک ہزار423 روپے ہے۔غریب اپنی بیٹی کو شادی میں سونا تک نہیں دے سکتا۔اسی طرح سی این جی سٹیشنز نے سندھ میں دس دن کے لیے گیس بند رکھنے کا اعلان کیا ہے اور گھریلو صارفین بھی قدرتی گیس کی کمی کی شکایت کررہے ہیں۔ڈالر کی بات کریں تو ڈالر 171 روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔مہنگائی عروج پر ہے ‘ ایل پی جی سلنڈر اور بکرے کا گوشت بھی اس ہفتے مزید مہنگا ہوا۔ مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔جان بچانے والی ادویات سے لے کر ٹیسٹ تک مہنگے ہوگئے ہیں اور دوسری طرف حکومتی مشیر اعداد و شمار کے ساتھ مہنگائی کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ دیکھیں امریکا میں کیا صورتحال ہے‘ یورپ میں کیا مہنگائی نہیں؟ وہاں کی سہولیات کو بھی تو دیکھیں‘ ان کے عوام کو سوشل سکیورٹی ملتی ہے‘ مفت تعلیم‘ مفت علاج معالجہ ملتا ہے‘ وہاں آمدنی زیادہ ہے پاکستان میں تو یہ سب نہیں ‘بس اشیائے ضروریہ مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ اس پر بھی مشیر‘ معاونین اور وزرا ء ڈٹ کر اس کا دفاع کررہے ہیں۔عوام کی بدعائیں اور آہیں مت سمیٹیں۔ حکومت اپنے چونچلے اور خرچے کم کرے۔ تمام اخراجات کا بوجھ عوام پر مت ڈالے۔ حکومت کی کارکردگی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں صفر ہے۔