انسانیت کے محسنﷺ

ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اُس ہستی کی پیدائش ہوئی جس کیلئے یہ کائنات تشکیل دی گئی۔ سرورِ کونین نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لاکھوں‘ کروڑوں درود و سلام! آپﷺ کی پیدائش عرب خطے میں ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اس خطے کی قسمت بدل گئی۔ آپﷺ کے والد آپ کی پیدائش سے قبل جبکہ والدہ کم سنی میں ہی رحلت فرما گئی تھیں۔ آپ کے دادا عبد المطلب نے حلیمہ سعدیہ کو آپﷺ کی رضاعی ماں مقرر کیا۔ جب شاہِ دو جہاںﷺ ان کے زیرِ کفالت آئے تو ان کے بھی دن بدل گئے۔ اُن کی لاغر سواری تیز ہوگئی‘ اوٹنی کے تھن دودھ سے بھر گئے، ان کے علاقے میں خوشحالی آگئی۔
آپﷺ کی والدہ کے وصال کے بعد آپﷺ کے دادا عبدالمطلب اور ان کی رحلت کے بعد آپﷺ کے چچا ابوطالب نے آپ کی پرورش کا ذمہ اٹھایا۔ اعلیٰ ترین اخلاقی اوصاف اور خصائل اعلانِ نبوت سے قبل ہی آپﷺ کی ذات سے منسوب تھے۔ مکہ میں آپﷺ کی شہرت دیانت داری‘ صداقت‘ وجاہت اور ایمانداری سے تھی۔ آپﷺ تجارت کے شعبے سے وابستہ ہوئے تو ہر تجارتی سفر میں دگنا منافع لاتے۔ سارے قریش میں آپﷺ کا چرچا ہونے لگا تھا، لوگ اپنی امانتیں آپﷺ کے سپرد کرتے تھے۔ اخلاقی اوصاف کے علاوہ آپﷺ ظاہری طور پر بھی نہایت حسین و جمیل تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ کا قدوقامت اور ڈیل ڈول معتدل تھا، آپﷺ کا رنگ کھلتا ہوا سفیدی مائل گندمی تھا، گھنے بال، ماہ تابی روشن چہرہ اور داڑھی گنجان تھی۔ آپﷺ کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب بھی قریش میں اپنی وجاہت کے سبب مشہور تھے۔ آپﷺ کا خاندانی شجرۂ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
25 سال کی عمر میں آپﷺ شام کی طرف ایک تجارتی قافلہ لے کر گئے جس میں تجارتی سامان حضرت خدیجہؓ کا تھا، ان کا ملازم میسرہ آپﷺ کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور ایمانداری کی باتیں حضرت خدیجہؓ کو بتائیں جن سے وہ بھی بہت متاثر ہوئیں اور آپﷺ کو شادی کا پیغام بھیج دیا۔ روایات کے مطابق شادی کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس اور آپﷺ کی عمر مبارک پچیس برس تھی۔ آپﷺ ہر ایک کے ساتھ حسنِ سلوک فرماتے، اہلِ خانہ کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ غریبوں‘ مسکینوں کو کھانا کھلاتے، بیمار و لاچار اور بوڑھے افراد کا کام میں ہاتھ بٹاتے، ان کی مزاج پرسی کرتے، مریضوں کی عیادت کرتے اور نیکی کے ہر کام میں پہل فرماتے۔ پورا مکہ شہر آپﷺ کی فہم و فراست اور شرافت کا قائل تھا۔ مکہ کے بت پرست معاشرے میں بھی آپﷺ خدائے یکتا و واحد کی عبادت کے لیے غارِ حرا جانے لگے ۔ چالیس برس کی عمر میں جب آپﷺ غارِ حرا میں غور و فکر میں مشغول تھے‘ اللہ کا عالی مرتبت فرشتہ جبرائیل نازل ہوا اور کہا: پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ،جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ نبوت کے فریضے اور نزولِ وحی سے آپﷺ پر ہیبت طاری ہوگئی۔ آپﷺ جلد از جلد گھر آئے اور حضرت خدیجہؓ کو کمبل اوڑھانے کیلئے کہا۔ کچھ دیر بعد اپنی رفیقہ حیات کو سب کچھ بتا دیا، وہ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جنہوں نے تمام حالات سننے کے بعد کہا کہ یہ اللہ کا وہی فرشتہ ہے جو اس سے قبل موسی علیہ السلام پر بھی اترا تھا۔
آپﷺ نے جب دین کی دعوت کا آغاز کیا تو یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا، جب علانیہ تبلیغ کا آغاز ہوا تو اہلِ مکہ آپﷺ کے دشمن بن گئے؛ تاہم اس دعوتِ حق پر ایمان لانے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس دعوت کی پاداش میں قریش کے لوگوں نے آپﷺ کو ایذا دینا شروع کردی، آپﷺ کی راہ میں کانٹے بچھا دیتے، آوازے کستے اور طرح طرح سے تنگ کرتے؛ تاہم رسول اللہﷺ نے نہایت پُرامن طور پر پیغامِ دین کی تبلیغ جاری رکھی۔ اس دوران حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ بھی اسلام لاچکے تھے جو قریش کے نہایت جری افراد سمجھے جاتے تھے‘ اب اسلام کی دعوت پر قریش کے معزز سمجھے جانے والے افراد بھی متوجہ ہو رہے تھے لیکن پھر ایک ایسا دور آیا کہ قریش نے مسلمانوں کا بائیکاٹ کردیا اور رسول کریمﷺ کا گھرانہ شعبِ ابی طالب نامی درے میں محصور ہو گیا تھا۔ بنو ہاشم پر یہ کڑا وقت تھا‘ اسی دوران حضرت ابو طالب اور سیدہ خدیجہؓ کا وصال ہوگیا، آپﷺ نے اس سال کو ''عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال قرار دیا۔اب حالات یہاں تک آن پہنچے تھے کہ مسلمانوں کا مکہ میں رہنا دشوار ہو گیا تھا، لہٰذا آپﷺ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ہجرتِ حبشہ کا حکم دیا۔اس کے کچھ عرصہ بعد آپﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کر لی۔
رسول اللہﷺ اور اہلِ ایمان نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو یہاں سے اسلامی ریاست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مدینہ ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے اردگرد کے قبیلوں اور علاقوں کے ساتھ معاہدات کیے اور بقائے باہمی کی بنیاد پر ایک پُرامن معاشرے کی بنیاد رکھی۔ یہاں پر مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی۔ انصار اور مہاجرین کے مابین مواخات ہوئی اور یوں اخوت اور بھائی چارے کی ایک منفرد مثال قائم ہوئی۔ بدر ، احد اور احزاب سمیت کئی غزوات لڑی گئیں۔ دورِ مکہ کے برعکس ہمیں ریاستِ مدینہ میں رسول اللہﷺ ایک سپہ سالار اور ایک سربراہِ ریاست کے طور پر نظر آتے ہیں۔ آپﷺ نے دوسرے حکمرانوں کو مکاتیب ارسال کیے جن میں انہیں دعوتِ حق پیش کی گئی۔ آپﷺ کی پُر اثر دعوت اور حسنِ اخلاق سے اسلام کا دائرہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوا اور ہجرت کے بعد محض ایک دہائی میں پورا عرب خطہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا۔ واقعہ معراج اور شق القمر سمیت آپﷺ کے کئی معجزات ہیں مگر سب سے بڑا معجزہ خاتم النبیین پر اترنے والی کتاب قرآنِ پاک ہے جو آج تک اپنی اصل حالت میں حرف بحرف موجود ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔
آخری حج میں نبی آخر الزمانﷺ نے جو خطبہ دیا‘ وہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ اس خطبے میں جو باتیں کی گئیں وہ اصل میں انسانی حقوق کا چارٹر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر‘ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں ، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ آپﷺ نے تاکید فرمائی: اپنے غلاموں کے حقوق کا خیال کرو، دورِ جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا ہے، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ دینی معاملے میں حدود سے تجاوز نہ کرنا، تم سے پہلے لوگ اسی سبب ہلاک ہوئے تھے۔ لوگو! یاد رکھو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اپنے رب کی عبادت کرو۔
رسول اللہﷺ نے دنیاسے پردہ فرما جانے سے قبل ہمیں انسانی جان کی حرمت ، ملکیت و وراثت،معاشرت، سود کی ممانعت، قرض کی ادائیگی، قصاص و دیت ، عورتوں کے حقوق ، غلاموں سے حسنِ سلوک، مخلوقِ خدا سے بھلائی سمیت زندگی کے ایک ایک شعبے سے متعلق واضح ہدایات دیں۔ اب ہمیں اسوہ حسنہ کو زندگی کے ہر شعبے میں مشعلِ راہ بنانا ہو گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں بروزِ قیامت حضرت محمدﷺ کی شفاعت نصیب فرما، آمین! اس وقت ختم نبوت اور گستاخانہ مواد کے حوالے جو فتنے سر اٹھا رہے ہیں‘ ہمیں ان سب کو کچلنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور ان تعلیمات کو عام بھی کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں