جیتا جاگتا شہرِ اقتدار

اسلام آباد ایک خاموش شہر ہے‘ یہاں کے باسی جلد سونے اور صبح جلدی اٹھنے کے عادی ہیں۔ جس طرح دوسرے شہر رات بھر جاگتے ہیں یہاں ایسا رواج نہیں۔ کم ہی لوگ 'نائٹ برڈ‘ ہیں، زیادہ تر کام کی روٹین کو فالو کرتے ہیں۔ معمول کے دنوں میں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب مشین ہیں اور ایک روبوٹ کی طرح کام کررہے ہیں۔ ویک اینڈ پر پھر کچھ رونق میلہ ہوتا ہے اور اب بہت سے ایسے سپاٹس بھی کھل گئے ہیں جہاں کھانا کھانے اور گھومنے پھرنے جایا جاسکتا ہے۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ جب وہ نوے کی دہائی میں یہاں شفٹ ہوئیں تو انہوں نے کافی مشکلات کا سامنا کیا۔ بڑی بہن کے سکول میں کوئی تقریب تھی اور پورے اسلام آباد میں ان کو سفید غرارہ نہیں مل رہا تھا، دوپٹے پر لگانے کیلئے لیس نہیں مل رہی تھی پھر وہ پنڈی کی کمرشل مارکیٹ گئیں۔ آبادی اس وقت اس شہر کی بہت کم تھی مگر شام کے بعد گھر سے نکلتے وقت خوف محسوس ہوتا تھا حالانکہ شہر محفوظ تھا مگر جنگل اور سبزہ بہت تھا۔ ہم بچے رات کے وقت دامنِ کوہ اور پیر سوہاوہ جانے کی ضد کرتے۔ جب بڑے سیر کرانے پر تیار ہوجاتے تو ان جنگلوں سے گزرتے ہوئے جنوں‘ بھوتوں کی باتیں کرتے اور ہنستے ہوئے ہمیں ڈرتے۔ اس وقت یہاں لائٹس وغیرہ نہیں ہوتی تھیں‘ لوگ کتراتے تھے کہ وہ رات کے وقت یہاں آئیں۔ اسی طرح بارشیں اتنی شدید اور مسلسل ہوتی تھیں کہ بیان سے باہر ہے۔ اسلام آباد میں کئی کئی دن سورج نہیں نظر آتا تھا۔
ہم بچے چڑیا گھر وغیرہ بہت شوق سے جاتے تھے‘ وہاں لیڈی برڈز کو پکڑتے اور تتلیوں کا تعاقب کرتے تھے۔ لچھے کھاتے‘ کون آئس کریم اور مکئی پھر میلوڈی میں کھانا کھا کر واپس آتے۔ اُس وقت اسلام آباد میں بہت کم پارکس‘ بہت کم مارکیٹیں اور چند ہی ہوٹلز تھے۔ سڑکیں خالی ہوا کرتی تھیں‘ ہم اکثر شام کو پارلیمنٹ کے سامنے بنی پریڈ گاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے‘ جو اب ڈی چوک کہلاتا ہے۔ اس وقت دہشت گردی کا کوئی تصور نہیں تھا، کوئی منع بھی نہیں کرتا تھا کہ کہاں جاسکتے ہیں کہاں نہیں۔ پولیس کے چند ناکے اور چوکیاں ہوا کرتی تھیں مگر شہر میں ہر طرف امن و امان تھا۔ جب صنعتی نمائش یا سرکس کا انعقاد کیا جاتا تو ہم سب بہت خوش ہوتے، اس کے ساتھ ثقافتی میلہ جو لوک ورثہ کی طرف سے ہوتا تھا‘ ہمارے لئے تفریح کا باعث ہوتا تھا۔ اس میں ملکی ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے تھے، ہم پاکستان کے مختلف علاقوں کے ذائقے چکھتے، پاکستان کی علاقائی موسیقی سنتے اور ہینڈی کرافٹ خریدتے۔ آہستہ آہستہ اس شہر کی آبادی بڑھنے لگی، پہلے جہاں صرف جناح سپر یا سپر مارکیٹ ہوتی تھی وہاں مالز بننا شروع ہوگئے، بہت سارے ہوٹلز اور کیفے کھل گئے، انٹرنیشنل چینز پاکستان میں آنے لگیں، شہرِ اقتدار تھوڑا پُررونق ہوگیا اور اب تو یہ عالم ہے کہ رات گئے تک مارکیٹیں بھی کھلی ہوتی ہیں اور کیفے بھی۔
جب کورونا آیا اور سب کچھ بند ہوگیا تو میں آن لائن شاپنگ ایکسپرٹ بن گئی۔ گروسری‘ پھل‘ سبزیاں‘ کپڑے، غرض سب کچھ آن لائن خریدا جانے لگا۔ بازار بند تھے‘ سکول کالج بند تھے، تفریح گاہیں بند تھیں، اُن دنوں میں اسلام آباد کی خاموشی اور ویرانی بہت بڑھ گئی تھی۔ کچھ سیکٹر سیل کیے گئے اور وہاں کے شہری گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ پھر جب ویکسی نیشن کا عمل شروع ہوا تو اس کے بعدزندگی معمول کی طرف آنے لگی۔ شہر کی رونق کچھ بحال ہوئی‘ اب تو تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں اور تقریبات کا انعقاد بھی ہورہا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی رکھا جارہا ہے کہ کورونا ایس او پیز پر عمل کیا جائے۔ ربیع الاول کا آغاز ہوا تو حکومت نے عشرہ ربیع الاول منانے کا فیصلہ کیا، اسلام آباد کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اس بار عید میلاد النبی پورے جوش و خروش سے منائی جائے گی۔ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ شہری انتظامیہ اتنی محنت کرے گی اور پورے شہر کو سجا دیا جائے گا۔
بارہ ربیع الاول کے دن کا آغاز خصوصی نوافل اور وطنِ عزیز کے لیے دعائوں سے ہوا، توپوں کی سلامی دی گئی۔ جشن عید میلاد النبی کے حوالے سے اسلام آباد میں مختلف تقریبات کا انعقاد ہوا۔ جی نائن اور جی ٹین میں ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ گولڑہ سے ایف ٹین ، بلیو ایریا ، جی سکس، جی نائن ، پاکستان مونیومنٹ، کنونشن سنٹر سے بری امام تک پورا شہر سجا ہوا تھا۔ شاہ فیصل مسجد پر سیاح اور نمازی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے اور ملک کی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ مسجد کو بہت خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا۔ دامنِ کوہ پر بھی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
اس بار اسلام آباد کو بہت خوبصورت طریقے سے سجایا گیا، شاہراہوں اور عمارتوں کو برقی قمقموں سے مزین کیا گیا، پروجیکٹر پر اسلامی سلائیڈ شو چلائے گئے ساتھ نعت شریف اور قوالیاں بھی نشر ہوتی رہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور اس کی مین بلڈنگ پر سلائیڈشو بھی چل رہا تھا، ساتھ ہی نعتیہ کلام بھی پیش کیا جا رہا تھا۔ شاہراہِ دستور کی ہر بلڈنگ برقی قمقموں سے مزین تھی اور ہرے رنگ کا استعمال زیادہ کیا گیا تھا۔ روضہ رسول کا گنبد سبز رنگ کا ہے‘ پاکستان کے پرچم کا رنگ بھی یہی ہے، اس لئے پاکستانیوں کی سبز رنگ سے بہت زیادہ عقیدت ہے۔ شہری انتظامیہ نے خاص طور پر مساجد میں نعت خوانی کے مقابلے کروائے اور جیتنے والے افراد کو اسناد اور کیش انعام دیے گئے۔ اس کے علاوہ شجرکاری مہم کا آغاز بھی کیا گیا جس کا افتتاح وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور ترکی کے سفیر کی اہلیہ نے کیا۔ پودا لگانا ہمارے نبی کریمﷺ کی سنت ہے اور یہ بہت احسن اقدام ہے۔ سرکاری مقامات کے علاوہ شہرِ اقتدار کے تجارتی مراکز بھی اس بار خوب سجے ہوئے تھے اور اکثر مارکیٹوں میں یونینز کی جانب سے محافل کا انعقاد کروایا گیا۔
میلاد النبی کے مبارک موقع پر طلبہ و طالبات کے تقریری مقابلوں کا انعقاد بھی کیا گیا جن کا موضوع تھا: سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ طلبہ و طالبات نے ذوق و شوق سے ان مقابلوں میں حصہ لیا۔ انتظامیہ کی جانب سے سو سے زائد مساجد میں درود و سلام اور نعت خوانی کی محافل کا انعقاد کرایا گیا۔ ڈی چوک پر محفلِ سماع کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف قوالوں نے شرکت کی اور سماں باندھ دیا۔ عوام کی بڑی تعداد نے ان محافل میں شرکت کی۔ عید میلاد النبی کے حوالے سے سیرت النبیﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں اہم حکومتی شخصیات نے شرکت کی۔ ایک خصوصی تقریب کا انعقاد راول ڈیم کے کنارے لیک ویو پارک میں ہوا جس میں عابدہ پروین نے شرکت کی اور صوفیانہ کلام پڑھا۔ اس موقع پر سینکڑوں اڑنے والی قندیلیں فضا میں چھوڑی گئیں۔ آسمان پر روشنی کے یہ چراغ بہت خوبصورت معلوم ہورہے تھے۔
مجھے ایسا لگا میرا شہر آج بہت دن بعدمسکرایا ہے میری آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔ ایسا لگا جیسے اسلام آباد آج جی اٹھا ہے‘ وہ ویرانی جو کورونا لایا تھا، آج ختم ہوگئی۔ ویسے بھی نبی پاکﷺ کی ولادت کا دن تھا‘ ہر طرف ایک سکون اور نور تھا۔ میرا شہر جی اٹھا، عوام خوش تھے، انہوں نے شہر کی سجاوٹ کو بہت پسند کیا اور تقریبات میں بھرپور شرکت کی۔ عید میلاد النبی اس بار بہت احترام سے منائی گئی۔اس ضمن سی ڈی اے ، اسلام آباد پولیس، ڈی سی آفس خاص طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کی کاوشوں سے کورونا سے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں