شاعرِ مشرق‘ مفکرِ پاکستان‘ حکیم الامت‘ سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کو نوجوانوں سے خاص محبت تھی۔ ان کے کلام کا غالب حصہ نوجوانوں میں انقلابی روح کو بیدار کرنے کے حوالے سے ہے۔ یہ کلام صرف بیسویں صدی کیلئے نہیں تھا بلکہ آج کے دور میں بھی اتنا ہی نافذالعمل ہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔ میری والدہ نے جب بچپن میں جب مجھے بانگِ درا دی تو میں نے کہا: ماما یہ تو بہت مشکل ہے‘ میں کیسے پڑھوں؟ بعد ازاں انہوں نے مجھے بالِ جبریل اور ضربِ کلیم بھی دیں۔ مجھے شاعری سے شغف نہیں تھا لیکن علامہ اقبال‘ حالیؔ اور اکبرؔ الٰہ آبادی کا کلام مجھے کافی پسند آیا۔ آج بھی اگر میں کوئی شاعری شیئر کرتی ہوں تو وہ فارسی شاعری ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کا کلام عام شاعری نہیں ہے‘ چھوٹی عمر میں یہ اتنا سمجھ نہیں آتا تھا‘ مجھے اردو اور فارسی‘ دونوں مشکل لگتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ جب ان زبانوں پر تھوڑا عبور حاصل ہوا تو پتا چلا کہ وہ ایک ایسا کلام دے کر گئے ہیں جو ہر صدی میں نوجوانوں اور مسلمانوں کو شعوری بیداری دے گا۔ انہیں یہ بات معلوم تھی کہ نوجوان نسل ہی قوم کا اصل سرمایا ہوتی ہے اور اس کی درست تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے۔ اقبالؔ کا مردِ مومن، اقبالؔ کا شاہین اور اقبالؔ کا فلسفہ خودی‘ یہ تمام موضوعات نوجوانوں کی زندگی ہی کا احاطہ کرتے ہیں اور ان میں نئی نسل کیلئے پیغام عیاں ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ بیسویں صدی کے مقبول ترین مفکر اور شاعر تھے۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ فارسی میں بھی شاعری کی لیکن اقبالؔ صرف ایک مصنف اور شاعر نہ تھے بلکہ ایک مفکر‘ سیاستدان اور تحریکِ پاکستان کے اہم رکن بھی تھے۔ جس وقت انہوں نے سیاست میں قدم رکھا‘ وہ مسلمانوں پر بہت کڑا وقت تھا۔ آپ کے مضامین اور شاعری نے مسلمانانِ ہند میں انقلابی روح پھونک دی۔ انہوں نے سب سے پہلے تصورِ پاکستان پیش کیا اور 1930ء میں خطبۂ الہ آباد میں پاکستان کے قیام کی منظر کشی کی۔ خطبۂ الہ آباد میں فرمایا: برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا یہ واحد حل ہے کہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت قائم کردی جائے کیونکہ اب ان دونوں اقوام کا یکجا رہنا ناممکن ہے اور نہ ہی یہ یکجا ہوکر آگے بڑھ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندرمسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے، پنجاب‘ سرحدی صوبہ‘ سندھ اور بلوچستان کو ضم کرکے ایک مملکت بنائی جائے۔ علامہ اقبال کی سیاست‘ ان کی شاعری‘ ان کی تصانیف نے مسلمان نوجوانوں کے اندر جذبۂ آزادی و خودداری کو بیدار کیا۔
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
مفکرِ پاکستان نے نوجوانوں کو تدبر اور غور و فکر کی طرف گامزن کیا۔ان کا کلام اور فلسفہ نوجوانوں کی کردار سازی پر مبنی ہے۔ انہوں نے اپنے کلام سے اسلام اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کو عام کیا اور نوجوانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنی زندگی قرآن و سنت اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں گزاریں۔
اگر علامہ اقبال کی تصانیف پر بات کریں تو فارسی میں اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، ارمغانِ حجاز، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد، (مثنوی) مسافر شامل ہیں اور اردو شاعری میں بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم شامل ہیں۔ ارمغانِ حجاز اور جاوید نامہ اردواور فارسی دونوں زبانوں میں ہیں۔ ان کی انگریزی تصانیف میں ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا (پی ایچ ڈی مقالہ) اور اسلام میں مذہبی افکار کی تشکیلِ جدید شامل ہیں۔ اقبالؔ نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کے ماضی سے پردہ اٹھایا اور نوجوانوں کو ان کے اسلاف کے شاندار ماضی سے آگاہ کیا جس میں سپین اور صلقیہ کی تاریخ بطورِ خاص شامل تھی۔ حکومت کو علامہ اقبال کا کلام انگریزی کے علاوہ فرنچ‘ چینی اور ازبکستانی زبان میں بھی شائع کروانا چاہیے۔ علامہ اقبال چونکہ مولانا روم کو اپنا استاد مانتے تھے‘ لہٰذا ان کا کلام ہمیں ترک زبان میں بھی شائع کروانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان نوجوان ان کے کلام کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں۔ علامہ اقبال نوجوانوں میں شاہین کے اوصاف اور مردِ مومن کی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ علامہ اقبال کی نظمیں پہلے ہمیں مسلمانوں کے خوشحال ادوار کا احوال سناتی ہیں‘ پھر حال کی مشکلات اور اس کے بعد اچھے مستقبل کی نوید دیتی ہیں۔ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ یاد کراکر وہ نئی نسل کو یہ ہمت اور حوصلہ دیتے ہیں کہ مسلمان نوجوانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ دور اندیش علامہ اقبال نے خطاب بہ جوانانِ اسلام میں نوجوانوں کو کہا ؎
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اس شعر میں علامہ اقبال خاص طور پر نوجوانوں کو ان کے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا تمہیں یاد ہے کہ تم کس امت کا حصہ ہو اور تمہاری کیا تاریخ تھی‘ تم جانتے ہوکہ تم کتنی بڑی کہکشاں کے ٹوٹے ہوئے تارے ہو؟ علامہ اقبال کے کلام میں مسلم امہ کا اتار چڑھائو‘ اسلامی قوانین‘ سیاست ،ثقافت اور ادب‘ قوموں کا عروج و زوال‘ تاریخ و فلسفہ اور حکمرانوں کے حالاتِ زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے نوجوانِ ہند کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ان کو آزادی کا حق لینے کی طرف مائل کیا۔ ان کا کلام مسلمان نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوا اور مسلمان اپنے حق کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بالآخر 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں انہوں آزاد وطن کا حصول ممکن بنا لیا؛تاہم علامہ اقبال اپنی زندگی میں یہ دن نہیں دیکھ سکے اور پہلے ہی 1938ء میں رحلت فرما گئے۔
شاعرِ مشرق‘ مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے یومِ پیدائش 9 نومبر کو اقبال ڈے منایا جاتا ہے جس کا مقصد ان کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور ان کی تعلیمات اور افکار کو اجاگر کرنا ہے؛ اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ان کے فارسی کلام کا ترجمہ کرکے اس کو اردو اور انگریزی میں ویب سائٹس پر شائع کیا جائے اور کلامِ اقبال پر ریختہ کی طرز پر ایک ویب سائٹ اور موبائل ایپ بنائی جائے جس میں سارا کلام تراجم اور تشریح کے ساتھ انگلش اور رومن میں بھی موجود ہو۔ نئی نسل کو اقبال کا کلام اس طرح سمجھ نہیں آ سکتا کیونکہ زبانوں پر عبور کے ساتھ ساتھ ہر شعر کا مخصوص پس منظر بھی ذہن میں ہو تبھی اقبال کے کلام سے حقیقی لطف اٹھایا جا سکتا ہے اور یہ پیغام پوری طرح آپ کو سمجھ آ سکتا ہے۔ علامہ اقبال کا کلام سربلندی کا پیغام تھا‘ وہ چاہتے تھے کہ نئی نسل اپنے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا تعین کرے۔
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
انہوں نے نوجوانوں کو شاہین قرار دیا کہ وہ مسلسل سفر میں رہتا ہے‘ بہادر ہے‘ ڈرتا نہیں‘ بلند پرواز کرتا ہے۔ وہ چاہتے تھے:
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہینوں بچوں کر بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
وہ چاہتے تھے کہ مسلمان خود دار اور محنت کش ہوں اور اپنے ارادے شاہین کی طرح بلند رکھیں۔اس وقت نوجوانوں کوعلامہ قبال کے کلام پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف شعر ٹویٹ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا‘ ہمیں ان کے کلام پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ہمیں صداقت‘ عدالت‘ شجاعت سے کام لینا ہو گا تبھی ہم دنیا کی امامت کرسکیں گے۔ جب ہم شعورکی گرہوں کوکھولیں گے تبھی ہم جاگیں گے اور اپنا نصب العین طے کرسکیں گے۔ اقبال کے کلام کی آفاقیت ہر نسل کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ نوجوان ان کے کلام اور فلسفے سے ہر طرح کی رہنمائی لے سکتے ہیں ۔معاشرے میں برداشت‘ رواداری اور محبت پیدا کرنے کیلئے ہمیں شاعرِ مشرق کا کلام عام کرنا ہوگا۔ ان کے یومِ ولادت پر یہ دعا ہے کہ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے اور جنت میں ان کے درجات بلند کرے اور نوجوان نسل کو یہ توفیق دے کہ وہ ان کے کلام سے مستفیض ہوسکے۔