سانحہ اے پی ایس ایک ایسا سانحہ ہے جس کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔اس سانحے کے ہولناکی آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ جب بچے اور اساتذہ سکول گئے اور واپس نہیں آئے۔16 دسمبر کا دن پاکستان پر بھاری ہے بچے اور اساتذہ 16 دسمبر کو اے پی ایس ورسک روڈ پشاورپہنچے‘ معمول کا دن شروع ہوا لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ دہشت گردوں کا حملہ ہوجائے گا۔اس دن پشاور میں بہت ٹھنڈ تھی‘ ہر طرف دھند کا راج تھا لیکن بچے اور اساتذہ اس لئے سکول میں حاضر تھے کیونکہ پرچے چیک ہورہے تھے اور نمبر بتائے جارہے تھے۔آٹھویں‘ نویں اور دسویں جماعت کے طالب علموں کو ہال میں بلایا گیا اور ان کو آرمی میڈیکل کور کے اہلکار ابتدائی طبی امداد کی تربیت دے رہے تھے۔بچوں کے ساتھ اساتذہ بھی ہال میں موجود تھے۔ عقبی دیوار سے سیڑھی لگا کر دہشت گرد سکول میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔انہوں نے سٹاف رو مز اور کمپیوٹر لیب پر حملہ کیا جہاں ابتدائی طبی امداد کی تربیت ہورہی تھی‘ وہاں میڈم بینش ‘ میڈم حفصہ ‘ میڈم سحر افشاں ‘ میڈم ہاجرہ ‘ سر محمد سعید اور میڈم صوفیہ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہاں پر ٹیچر صائمہ طارق کا ذکرکرنا ضروری ہے جو بریگیڈئیر طارق کی بیوی تھیں اور حاملہ تھیں۔ ان کو شناخت کے بعد دہشت گردوں نے زندہ جلا دیا تھا۔سپاہی نوید اقبال اور نائیک ندیم الر حمن کو بھی ہال میں نشانہ بنایا گیا‘ وہ طبی امداد کی ٹریننگ دے رہے تھے اور نہتے تھے۔یہاں پر آٹھویں‘ نویں اور دسویں کلاس کے طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین غازیوں کے مطابق اساتذہ نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے کیونکہ فائرنگ بہت شدید تھی۔ سر نواب‘ میڈم فرحت اور میڈم شہناز کو پہلی منزل پر نشانہ بنایا گیا۔میڈم سعدیہ گل اور ایڈمن سٹاف کو ایڈمن بلاک میں نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گرد اتنے سفاک تھے کہ انہوں نے چار سال کی خولہ کو بھی نہیں چھوڑا‘ اس کو بھی شہید کردیا‘ اس کے والد پر بھی گولیاں برسائی گئیں تاہم ان کی جان بچ گئی‘ وہ اے پی ایس میں استاد ہیں۔
122بچوں سمیت 12اساتذہ ‘دس ایڈمن سٹاف اور تین آرمی کے اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ لانس نائیک محمد الطاف جو اس دن ڈیوٹی پر نہیں تھے وہ قریب سے گزر رہے تھے کہ گولیوں کی آواز سن کر وہ سکول کی جانب گئے‘ انہوں نے نہتے بچوں کو بچانے کی کوشش کی مگر وہ بھی گولیوں کی زد میں آگئے اور جام شہادت نوش کرگئے۔ پندرہ منٹ کے بعد آرمی کا آپریشن ہوا اور بہت سے طالب علموں اور اساتذہ کی جان بچالی گئی۔ اے پی ایس میں جونیئر ونگ‘ ہائی سکول اور کالج تھا‘ بہت بڑے پیمانے پر آپریشن ہوا اور طالب علموں اساتذہ کی جان بچائی گئی۔یہاں یہ دیکھ کر سب دنگ تھے کہ جونیئر بلاک کے بچے بالکل محفوظ رہے۔اللہ نے ان کو محفوظ رکھا۔ دہشت گرد جدید اسلحے سے لیس تھے‘ انہوں نے جگہ جگہ آئی ڈیز لگا دی تھیں‘ ان کو صاف کرنے میں بہت وقت لگا۔ایس ایس جی کمانڈوز نے 900 افراد کو بحفاظت نکالا۔تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا‘ عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں نے صاف لباس اور نئے جوگرز پہن رکھے تھے۔ان کے پاس جدید اسلحہ اورکھانے پینے کا سامان تھا ‘وہ محاصرہ کرنا چاہتے تھے۔
سکول خون سے لت پت تھا‘ دیواروں میں دھماکے اور گولیوں سے سوراخ ہوگئے اور سی ایم ایچ کے فرش پر شہدا کے جسد پڑے تھے۔ایک قیامت تھی جو ہم پر گزر گئی۔اس وقت پاک فوج سامنے آئی اور لواحقین کی داد رسی کی۔وفاقی حکومت میں اس وقت نواز شریف تھے‘ انہوں نے اس طرح داد رسی نہیں کی جس طرح سے ان کو کرنی چاہیے تھی۔ مجھے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مایوس کیا۔ اے پی ایس میں صرف فوجیوں کے نہیں سویلنز کے بچے بھی پڑھتے ہیں۔ یہ حملہ صرف فوج پر نہیں پاکستان پر حملہ تھا۔ جس وقت میں سانحہ آرمی پبلک سکول پر کتاب لکھ رہی تھی اس وقت شہدا کے لواحقین نے مجھے بتایا کہ اس وقت کے کورکمانڈر ہدایت الرحمن نے ہماری بہت مدد کی‘ ہمارے آنسو صاف کئے اور ہمیں تسلی دی۔ وہ سب سے پہلے لواحقین کے پاس پہنچے۔علی شہید کی والدہ نے مجھے بتایا کہ دہشت گردوں نے راحیل شریف کا جونیئر دستہ شہید کردیا۔12 جنوری کو جب دوبارہ اے پی ایس کھلا تو سب حیران ہوگئے کہ اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف نے خود بچوں کااستقبال کیا۔اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان میں سکول نہیں کھل سکیں گے لیکن اس قوم کی بہادری قابل دید تھی۔ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پاکستان آرمی نے آپریشن ضرب عضب‘ خیبر ون اور ردالفساد کے تحت دہشت گردی کا خاتمہ کیا اور پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع ہوا۔سرحد پر باڑ اس لئے لگائی گئی کیونکہ اے پی ایس پر حملہ افغانستان سے ہوا تھا۔
11 فروری 2015ء کو پشاور اے پی ایس میں ملوث 12 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔حملے میں ملوث چھ دہشت گرد‘ جن میں عتیق الرحمن عرف عثمان ‘کفایت اللہ عرف کیف‘ قاری سبیل عرف یحییٰ آفریدی ‘ مجیب الرحمن عرف علی اور مولوی عبد السلام کمانڈر جوکہ حضرت علی کے نام سے جانا جاتا تھا ‘ کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا اور باقی چھ دہشت گردوں کو افغانستان سے گرفتار کیا گیا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی ملا فضل اللہ نے کی تھی‘ اس کو معاونت کرنے میں ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپ ٹی ٹی پی سوات‘ طارق گیدڑ گروپ اور توحید و الجہاد شامل تھے ۔ اورنگزیب عرف عمر خلیفہ عرف نارائے نے اس حملے کی تیاری کی۔ مولوی عبد السلام عرف حضرت علی نے اس منصوبے کیلئے اخراجات مہیا کے اور سبیل عرف یحییٰ نے دہشت گردوں کو پشاور سکول پہنچایا۔مولوی عبد السلام عرف حضرت علی ‘سبیل اورمجیب کو دو دسمبر 2015 ء کو پھانسی دی گئی۔ رضوان کو 24 مئی2017 کو پھانسی دی گئی۔
انسانی جان کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن اس سانحے کے متاثرین کی حکومت پاکستان اور پاکستان آرمی نے داد رسی کی‘ جس میں ان کو ڈی ایچ اے میں پلاٹ ‘ عمرہ پیکیج ‘ فری میڈیکل ‘ باہر کے ملک میں علاج کی سہولت اور اے پی ایس میں ایک فرد کی تعلیم مفت کردی گئی۔ اگر سانحہ اے پی ایس میں شامل شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کی مدد کے حوالے سے ذکر کریں تو وفاقی حکومت نے شہدا کے لواحقین کو 27کروڑ 77لاکھ اور زخمیوں کو 13اعشاریہ 675ملین کی امداد دی۔ پاک آرمی نے شہدا کے لواحقین کو 57 کروڑ 57لاکھ 55 ہزار روپے اور زخمیوں کو 15 کروڑ 35 لاکھ روپے دیے۔آرمی کی گیارہ کور نے چھ کروڑ گیارہ لاکھ بارہ ہزار شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کیلئے ایک اعشاریہ 199 ملین کی امداد دی۔کل ملا کروفاقی حکومت‘ پنجاب حکومت ‘کے پی کے حکومت ‘آرمی اور الیون کور نے ایک ارب چون کروڑ چھیالیس لاکھ کی مدد کی۔
ہمارے ملک میں بہت سے سانحات اور حادثات ہوئے لیکن جس طریقے سے سانحہ اے پی ایس کے بعد لواحقین کی داد رسی کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔حکومت اب بھی والدین اور لواحقین کی استدعا سنے‘ کیونکہ ان کے غم کو بانٹنا ہمارا فرض ہے۔ ان کے نقصان کی کبھی تلافی نہیں ہوسکتی لیکن آج جو ہم سکون کی زندگی گزار رہے وہ اس قربانی کی مرہون منت ہے جو 16 دسمبر کو اے پی ایس میں دی گئی اور جو فوجیوں نے ضرب عضب‘ خیبر ون اور ردالفساد میں جنگ لڑی ان کی قربانیاں اس ملک کیلئے لازوال ہیں۔میں ایک ایسی بیوہ سے ملی جن کے فوجی شوہر ضرب عضب میں شہید ہوگئے تھے اور ان کی بیٹی ان کی شہادت کے چھ ماہ بعد پیدا ہوئی۔ کتنی ہی ماؤں نے اپنے لال اور کتنی سہاگنوں نے اپنے سہاگ قربان کئے تو اس ملک میں امن ہوا۔ اس ملک میں قربانی اور ایثار کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ تعالی تمام شہدا کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ‘جنہوں نے اپنے پیاروں کوپریڈ لین حملے میں کھویا‘ جن کے پیارے مون مارکیٹ بلاسٹ میں چل بسے‘ جن کے پیارے صفورا گوٹھ سانحے میں جان سے گئے یا جن کے جگر گوشے اے پی ایس میں لقمۂ اجل بن گئے ان تمام شہدا کو سلام۔ ان کے لواحقین کے صبر کو سلام۔