تیجاس طیارے، سموسے اور بھارتی میڈیا

بھارتی ایئرفورس کافی عرصے سے مشکلات کا شکار ہے‘ بھارتی راج نیتی‘ دفاعی معاہدوں میں کرپشن اور پروفیشنلزم کا فقدان ان مشکلات کے بڑے عوامل ہیں۔ دفاعی معاہدوں میں کرپشن اس قدر زیادہ ہے کہ ناکارہ اور ایسے جہاز اڑانے کے لیے پائلٹوں کو دیے جاتے ہیں جو مختلف فنی خرابیوں کا شکار ہونے کے باعث دورانِ پرواز کریش کرجاتے ہیں۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر ''تیجاس سموسہ‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ مگ طیاروں کے پے درپے حادثات کے بعد بھارتی فضائیہ کو اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ نئے طیارے فضائی بیڑے میں شامل ہوں، تیجاس اسی مقصد کے لیے حاصل کیے گئے ہیں؛ تاہم ان کا ڈیزائن کچھ عجیب سا ہے اور اسی وجہ سے اکثر سوشل میڈیا صارفین ان طیاروں کو'' سموسے‘‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ مجھ سمیت کچھ لوگ اس کو 'اڑتی چمگادڑ‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ طیارہ نہ صرف بدصورت ہے بلکہ تکنیکی طور پر بھی بہت سی خامیوں کا شکار ہے۔
گزشتہ سال بھارتی لوک سبھا کے دو ممبران نے بھارتی فضائیہ کے حکام سے ایک سوال پوچھا‘ جس کا سرکاری سطح پر 18 مارچ 2020ء کو جواب دیا گیا۔ سوال تھا کہ گزشتہ تین سالوں میں بھارتی ایئرفورس کے کتنے طیارے کریش ہوئے ہیں؟ واضح رہے کہ بھارتی فضائیہ کے طیارے مسلسل حادثات کا شکار ہو کر تباہ ہو رہے ہیں اور اکثر پائلٹ بھی ان حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 27 فروری 2019ء کو پاک بھارت فضائی معرکے میں پاک ایئر فورس کے شاہینوں نے بھارت کے دو جیٹ تباہ کئے تھے اور اسی روز مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ایک جنگی ہیلی کاپٹر بھی کریش کرگیا تھا۔ اس کے بعد سے بھارتی عوام اور ایئرفورس میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے اور بھارتی حکومت پر دبائو ہے کہ نئے طیارے بھارتی ایئرفورس کا حصہ بنائے جائیں۔ لوک سبھا ممبران کے سوال کے جواب میں جو ڈیٹا سرکار کی جانب سے پیش کیا گیا اس کے مطابق‘ اگر بھارت میں ہونے والے انڈین ایئرفورس کے فائٹر جیٹس کے حادثات کا جائزہ لیں تو 2016ء سے 2017ء کے دوران 3 مگ، 1ایس یو تھرٹی اور 2 جیگوار طیارے تباہ ہوئے۔ 2017ء سے 2018ء کے دوران 1مگ اور 1ایس یو تھرٹی کریش ہوا۔ 2018ء سے 2019ء کے دوران سب سے زیادہ مگ طیاروں کے حادثات پیش آئے اور 5 مگ تباہ ہوئے، اس کے علاوہ 2 جیگواراور 1 ایس یو تھرٹی کو بھی حادثہ پیش آیا۔ کل ملا کرتین سالوں میں 17 لڑاکا طیارے حادثات کا شکار ہوئے‘ ان کے علاوہ 4جنگی ہیلی کاپٹر،2 ٹرانسپورٹ فلیٹ اور 5 ٹرینی طیاے بھی حادثا ت کا شکار ہو کر تباہ ہوئے، ان حادثات میں مالی کے علاوہ جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ بھارت کے مگ طیاروں کو ''اڑتے ہوئے تابوت‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ روسی ساختہ مگ طیاروں کے حادثات میں اب تک 170 بھارتی پائلٹس ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس پر عامر خان نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس میں مگ طیاروں کے کریش اور ان کے سودے میں ہونے والی کرپشن کو اجاگر کیا گیا تھا۔ 2003ء سے 2013ء تک‘ 38 مگ طیارے کریش ہوئے۔ 2021ء کا جائزہ لیں تو اس سال کے آغاز میں ہی‘ 6 جنوری کو ایک مگ کریش ہوا‘ پھر 17 مارچ کو،پھر 21 مئی ، اس کے بعد 25 اگست کو ایک مگ گر کر تباہ ہوا۔ اکثر انکوائری کے بعد پائلٹ کو حادثے کا ذمہ دار قراد دے دیا جاتا ہے‘ اس پر کئی پائلٹوں کے لواحقین نے احتجاج بھی کیا کہ کس طرح ایک ایسے طیارے کے حادثے پر پائلٹ کو ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے جو مسلسل کریش ہو رہا ہے؟
بھارتی حکومت نے اسی باعث فرانس سے رافیل طیارے لیے لیکن رافیل بھی انڈین ایئر فورس کی استعدادِ کار میں اضافہ نہیں کرسکے کیونکہ بھارتیوں کو اس کو آپریشنل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دوسری طرف تیجاس طیاروں کی بات کریں تو سوشل میڈیا پر جس طیارے کو‘ اس کی بناوٹ کے سبب سموسہ کہا جا رہا ہے‘ ایک سنگل انجن کم وزن جنگی جہاز ہے۔ اس جہاز کو بھارت کی ایئروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی اور ہندوستان ایئروناٹکس لمیٹڈ نے تیار کیا ہے۔ اس پر تین دہائیاں پہلے کام شروع ہوا تھا اور 2015ء میں پہلا جہاز بھارتی ایئرفورس کے حوالے کیا گیا، یعنی اس جہاز کو تیار کرنے میں بھارت کو 32 سال لگے۔ ہندوستانی ایئر فورس کا 45 سکواڈرن اس کو استعمال کررہا ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس 22 تیجاس ہیں جبکہ 83 مزید طیاروں کا آرڈر دے رکھا ہے۔ یہ بھی مودی سرکار کے دبائو کی وجہ سے ہوا کیونکہ تیجاس اتنے کارآمد طیارے نہیں ہیں۔
یہاں پر یہ بات واضح ہے کہ تیجاس اور جے ایف 17 تھنڈر کا کوئی مقابلہ نہیں ہے کیونکہ جے ایف 17 ایک دہائی سے آپریشنل ہے اور کومبیٹ کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ میانمار اور نائیجیریا اس کو خرید چکے ہیں اور یہ طیارے اب ان کی ایئرفورس کا حصہ ہیں۔ جے ایف 17 تھنڈر نے دہشت گردی کے خلاف میں جنگ میں حصہ لیا جبکہ 27 فروری کے آپریشن سویفٹ ریٹوٹ میں بھی یہ حصہ لے چکے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ملٹی رول کومبیٹ ایئر کرافٹ ہے۔ ایئر ٹو سی، ایئر ٹو ایئر اور ایئر ٹو لینڈ جے ایف 17 تھنڈر کی صلاحیتیں سب کے سامنے ہیں۔ دئبی میں ایئر شو جاری ہے‘ جس میں بھارت اپنے 4 تیجاس طیاروں کے ساتھ شریک ہے اور پاکستان اپنے سپر مشاق طیاروں کے ساتھ اس میں شرکت کر رہا ہے۔ پاکستان کے سپر مشاق کے خریداروں میں زمبابوے‘ ترکی‘ ایران‘ نائیجیریا‘ قطر‘عراق اور آذربائیجان شامل ہیں۔ ترکی نے بھی اس حوالے سے 50 طیاروں کا آرڈر دیا ہے۔ یہ طیارے پاکستان ایئروناٹیکل کمپلیکس میں تیار ہوتے ہیں اور ان طیاروں کی خریداری میں بہت سے ممالک دلچسپی لے رہے ہیں۔ پاکستان ایئرفورس کے عملے نے خیر سگالی کے طور پردبئی ایئر شو میں انڈین تیجاس کا معائنہ کیا جس کو انڈین میڈیا نے غیر ضروری طور پر ایشو بنا کر پیش کیا۔ پاکستان کے پاس ایف 16، جے ایف 17 تھنڈر اور میراج جیسے آزمودہ طیارے موجود ہیں اور اب پاکستان جلد J10 سی طیارے بھی چین سے خریدے گا، ایسے میں تیجاس جیسے کمتر جہاز کو پاکستان کیوں اہمیت دینے لگا؟ دفاعی شوز ہوں یا نمائش‘ شرکا ایک دوسرے کے جہاز کا معائنہ کرتے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔ اس میں کوئی شبہے والی بات نہیں کہ تیجاس نسبتاً کمتر جہاز ہیں۔ پاکستان سٹریٹیجک فورم کے مطابق‘ دبئی ایئر شو میں شریک جہازوں نے فارمیشن میں ڈیمو نہیں دیا‘ صرف سولو فلائی کیا۔ انہیں فضا سے فضا اور نہ ہی فضا سے زمین یا سمندر میں ٹیسٹ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایکسٹرنل فیول ٹینک لگے ہوئے ہیں۔ رانا صہیب ایک پاکستانی فوٹو گرافر ہیں‘ جو دبئی ایئر شو کور کررہے ہیں‘ انہوں نے تیجاس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جس پر کئی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے اس جہاز کا مذاق اڑانا شروع کر دیا جس پر بھارتی میڈیا سیخ پا ہوگیا۔
اگر دیکھا جائے تو تیجاس کا انجن امریکی، ایوونکس ریڈار اسرائیلی اور ہتھیار فرانسیسی اور روسی ساختہ ہیں‘ لہٰذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ طیارہ بھارتی کیسے ہوگیا؟ اسکا ایئر فریم تک فرنچ کمپنی نے بنایا ہے۔ اس کے باوجود اس جہاز کو لے کر بھارت کی اتنی خوشی فہمی سمجھ سے باہر ہے۔ کسی بھی جنگی طیارے کیلئے سب سے اہم چیز اس برآمد اور اس کے متوقع خریدار ہوتے ہیں۔ بھارت کیسے اس کو دنیا کو بیچ سکتا ہے کیونکہ جن ممالک کی ٹیکنالوجی اس میں استعمال ہوئی ہے‘ وہ اس کو کسی اور ملک کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ابھی تک مارکیٹ میں تیجاس کا کوئی خریدار بھی موجود نہیں ہے‘ نہ ہی یہ کومبیٹ میں آزمایا گیا ہے۔ 27 فروری کوبھی بھارت نے تیجاس کا استعمال نہیں کیا تھا۔ عالمی ایوی ایشن ماہرین کے مطابق تیجاس میں بہت سی خامیاں ہیں، نیز یہ نان سٹیلتھ 4 جنریشن فائٹر ہے جبکہ دنیا اس وقت 4.5 اور 5 جنریشن طیاروں کی طرف گامزن ہے۔ اگر تیجاس دس‘ پندرہ سال قبل آتے تو شاید ان کی کچھ افادیت ہوتی لیکن ان کی تیاری اور سروس میں شمولیت اب لیٹ ہوگئی ہے، دنیا ٹیکنالوجی میں بہت آگے چلی گئی۔ دوسری طرف رافیل کے معاہدوں میں جتنے گھپلے سامنے آ رہے ہیں‘ ان پر سب زبانین گنگ ہیں۔ تیجاس میں کتنی کرپشن ہوئی ہے‘ جلد ہی یہ بھی پتا چل جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں