پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس

چین ہمارا دوست ہمسایہ ملک ہے۔ یہ دنیا کی عظیم طاقتوں میں سے ایک ہے۔ چین نے اپنی دفاعی قوت پر بہت توجہ دی ہے اوروہ دن دور نہیں جب چین ہی دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کہلائے گا۔ چین کی ایئر فورس‘ جس کا نام پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس ہے‘ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہے۔ پی ایل اے اے ایف کا قیام 1949ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کو بنے ہوئے اب تقریباً 72 سال ہوگئے ہیں۔ اس کے فرائض میں ایریل وار فیئر، ایئر بورن وارفیئر اور ایئر ڈیفنس شامل ہیں۔ چین کی ایئر فورس کا حجم اور بجٹ بہت بڑا ہے‘ تقریباً تین لاکھ 95 ہزار افراد اس میں شامل ہیں اور ان کے فلیٹ میں 3370 طیارے شامل ہیں جن میں 1500 فائٹر جیٹ اور 450 بمبار اٹیک جہاز ہیں جبکہ 150 سٹیلتھ جہاز ہیں۔ اس کا ہیڈ کوارٹر بیجنگ میں ہے۔ فوجی مشقوں کے علاوہ چین کی ایئر فورس کورین جنگ، ویتنام جنگ، سینو ویتنامیز جنگ اور بھارت کے ساتھ لداخ کے تنازع پر جنگ میں حصہ لے چکی ہے۔
اگر ہم اس کے فضائی بیڑے کی بات کریں تو چین کا فضائی بیڑہ دنیا کے چند بڑے بیڑوں میں شمار ہوتا ہے جس میں فائٹر جیٹ، ہیلی کاپٹر، ٹرانسپورٹ بیڑہ، ٹینکر ٹیک اور یوٹیلٹی ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔ الیکٹرانک وار فیئر جہازوں میں شنیائی وائی 8 شامل ہیں۔ ٹینکر طیاروں میں یان ایچ وائی 6، ٹرانسپورٹ بیڑے میں یان 2 آئی 20، ایلوڑن 762، شین یائی وائی 9، یان وائی 7 اور یان ایم اے 60 شامل ہیں۔ ٹیرینی ایئر کرافٹ میں ہنگدو جے ایل 8، گوزہو جیایل 9، ہنگدو جے ایل 10 اور شین ینگ جے 6 شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ڈرون بھی اس فورس کا حصہ ہیں۔ سب سے پہلے ہم فائٹر جیٹس کی بات کرتے ہیں۔ چنگدو جے 20، چنگدو جے 7، چنگدو جے 10، شینیانگ جے 8، شینیانگ جے 11، شینیانگ جے 16، ایس یو 27، ایس یو30 ایم کے کے اور ایس یو 35 ایس شامل ہیں۔ چنگدو جے 7 چینی ساختہ طیارہ ہے جس نے پہلی اڑان 1996ء میں بھری تھی۔ یہ مکمل طورپر آپریشنل طیارہ ہے جس کو استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، کوریا، میانمار، ایران اور زمبابوے سمیت کئی دیگر شامل ہیں؛ البتہ 2013ء کے بعد سے اس کی پروڈکشن روک دی گئی ہے۔ اب پاکستان اور چین کے اشتراک سے تیار ہونے والا طیارہ جے ایف 17 تھنڈر زیادہ ایکسورٹ ہورہا ہے۔ یہ طیارہ دونوں ممالک نے مل کر تیار کیا ہے اور یہ سب سے زیادہ سیل ہورہا ہے، اس کے خریداروں میں نائیجیریا اور میانمار شامل ہیں جبکہ دیگر کئی ممالک بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ چنگدو جے 7 طیارے پچاس سال سے زائد سروس کا حصہ رہے اور ان طیاروں کی کل تعداد 2400 سے زائد ہے۔ ان طیاروں کی خصوصیات کی بات کریں تو یہ سنگل سیٹ طیارہ ہے جس کی لمبائی 48 فٹ 10 انچ ہے، اس کا گروس ویٹ 7540 کلو گرام ہے، اس کی سپیڈ 2200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس کی کومبیٹ رینج 850 کلومیٹر ہے، اس پر 2 ملٹی پلائی 30 ایم ایم ٹائپ تیس‘ ایک کینن نصب ہے۔ یہ 500 کے جی تک ان گائیڈڈ بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں آر ایف آئی اے آر ریڈار نصب ہے۔
چنگدو جے 10 جدید طیاروں میں شامل ہوتا ہے، یہ ملٹی رول فائٹر جنگی جہاز ہے، اس نے اپنی پہلی اڑان 1998ء میں بھری تھی اور 2005 سے یہ چینی فضائی بیڑے کا حصہ ہے۔ اس کو وائی گریس ڈریگن بھی کہا جاتا ہے۔ اس طیارے کو چنگدو ایئر کرافٹ انڈسٹری گروپ نے تیار کیا ہے اور اب تک تیار کئے جانے والے طیاروں کی تعداد 468 ہے۔ پاکستان ایئرفورس بھی ان طیاروں کی خریداری کی خواہاں ہے۔ اس کے مختلف ویری اینٹ ہیں‘ جن میں 10 اے، 10 ایس، 10 بی اور 10 سی وغیرہ شامل ہیں۔ ان طیاروں کو چین کی ایئرفورس اور نیوی استعمال کررہی ہے۔ پاکستان کی دلچسپی جے 10 سی میں ہے۔ اگر اس طیارے کی خصوصیات کی بات کریں تو اس کی لمبائی 52 فٹ 7 انچ ہے، ونگ سپین 30 فٹ 4 انچ، گروس ویٹ 10500کلو گرام ہے۔ اگر میزائلوں کی بات کریں تو فضا سے زمین کیلئے پی ایل 10، پی ایل 15، کے ڈی 88 ا ور وائے جے 91 شامل ہیں۔ اگر بموں کی بات کریں تو لیزر گائیڈڈ بم ایل ٹی 2، گلائیڈ بم اور سیٹلائٹ گائیڈڈ بم، اَن گائیڈڈ 250 کے جی اور 500 کے جی اس میں شامل ہیں۔ یہ طیارے پاک فضائیہ کے بیڑے میں شامل ہوکر ہمارے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیں گے۔ یہ طیارہ ایف سولہ اور رافیل کے ہم پلہ ہیں۔
شینیانگ 8 بھی چینی ساختہ طیارہ ہے‘ اس طیارے کو پی ایل اے ایئرفورس اور پی ایل اے نیول فورس استعمال کررہی ہیں۔ اس کے مختلف ویری اینٹ ہیں جن میں جے 8، جے 8 بی، جے 8 سی، جے 8 ڈی، جے 8ایف وغیرہ شامل ہیں۔ شینیانگ جے 11 ایئر کرافٹ شینیانگ کارپوریشن نے بنایا ہے۔ اس طیارے کے ویری اینٹ میں جے 11، جے 11 بی، جے 11 بی ایس، جے 11 بی ایچ وغیرہ شامل ہیں۔ اس پر پی ایل 12، پی ایل 9، پی ایل 8 میزائل نصب ہیں اوربم کلسٹر ہیں۔ اگر ہم شینیانگ جے 16 کی بات کریں تو یہ فائٹر جیٹ 2015ء سے چین کے بیڑے کا حصہ ہیں اس کے دو ویری اینٹ ہیں جے 16 اور جے 16 ڈی۔ اس پر پی ایل 10، پی ایل 15 اور پی ایل 21 میزائل نصب ہیں۔ اینٹی شپ میزائلز میں کے ڈی 88 اور وائے جے 83 کے شامل ہیں۔ چنگدو مایٹی ڈریگن جے 20‘ 2011ء سے چینی ایئر فورس کا حصہ ہے اور یہ 5 جنریشن سٹیلتھ فائٹر جیٹ ہے۔ ان طیاروں کی تعداد 24 سے زائد ہے اور ان کو چنگدوایئرسپیس کارپوریشن نے بنایا ہے۔اس کے دو ویری اینٹ ہیں‘ جے 20 ۱ے اورجے 20 ایس۔ اگر ہم ان کی خصوصیات کی بات کریں تو ان کی سپیڈ میک 2 اعشاریہ صفر ہے۔ رینج 5500 کلومیٹر فیول کپیسٹی 12 ہزار کے جی ہے۔ اس پر پی ایل 10، پی ایل 12، پی ایل 15، پی ایل 21 اور اینٹی ریڈی ایشن میزائل (اے آر ایم) نصب ہیں۔ اس پر کے ایل جی ریڈار نصب ہے، یہ 5 جنریشن طیارہ ہے۔ اس کے علاوہ چین کے فضائی بیڑے میں سو 27،سو 30اورسو 35بھی شامل ہیں۔ جنگی جہازوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں جن میں ایس اے 321 سپر فری لون، ہربن جی نائن، ہربن زی 19، ہربن زی 20 شامل ہیں۔ اگر ہم بات کریں چین کے ٹینکر طیاروں کے حوالے سے جو ری فیولنگ کا کام کرتے ہیں تو ان میں ایچ 6 یو اور 2-78 شامل ہیں جو فضا سے فضا میں ری فلنگ کرسکتے ہیں۔ جے 6 کو ریٹائرڈ کرکے ڈرون میں تبدیل کردیا گیا ہے جو کسی جنگی صورتحال میں جہاز کی طرح حملے میں استعمال ہو سکتا ہے۔ ڈرون کا نام جے سی ہے۔ پی ایل اے ایئر فورس کی بڑی قوت ا س کے ڈرونز ہیں۔ اس کے ساتھ اس کی راکٹ فورس بھی کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔
چین کی فضائیہ دنیا کی بڑی ایئر فورس میں سے ایک ہے اور چین اپنی دفاعی قوت میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ لداخ میں بھی ہم چین کی عسکری فضائی قوت کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت چین اورتائیوان کے مابین کشیدگی ہے اور صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ واضح کیا ہے کہ تائیوان چین کا حصہ بن کررہے گا۔28نومبر کو پی ایل اے کے 27 جہاز تائیوان کی حدود میں داخل ہوئے جن میں جے 10، جے 11، جے 16 شامل تھے اور ان کے ساتھ کے جے 500 ، اے ای ڈبلیو اینڈ سی، اے نائن ای ڈبلیو، ایچ 6اور وائے 20 ری فیولنگ جہاز شامل تھے۔ یہ بات تائیوان کی ڈیفنس منسٹری نے رپورٹ کی ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کی سرحدوں پر کشیدگی عروج پر ہے۔ چینی جنگی جہاز مسلسل تائیوان کی طرف پرواز کررہے ہیں۔ چین کچھ مہینوں سے مسلسل تائیوان کے اردگرد اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ تائیوان ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے جسے چین اپنے ملک سے الگ ہو جانے والا ایک صوبہ قرار دیتا ہے جو بالآخر چین کا حصہ بن جائے گا؛ تاہم تائیوان اس سے انکار کرتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھاجائے تو 1683ء سے 1895ء تک دو صدیوں سے زائد عرصہ تک تائیوان چینی زیرِ انتظام ہی رہا۔ چین کا جارحانہ انداز یہ بتا رہا ہے کہ اگر معاملات مزید کشیدہ ہوئے تو لداخ کی طرح تائیوان میں بھی وہ معرکہ سرکرجائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں