دسمبر کی بیس تاریخ کو دنیا بھر میں انسانی یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے‘ اس دن کو منانے کا مقصد مل جل کر کام کرنا اور غربت و افلاس کا خاتمہ کرنا ہے۔ کسی بھی بڑے مقصد کے حصول کے لیے سب سے ضروری متحد ہونا ہے۔ بنی نوع انسان کیلئے ہر کام میں اتحاد کا ہونا اولین شرط ہے۔ اسی لیے اس دن کو یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا جا سکے کہ متحد ہوکر ہم کتنے محاذوں پر کام کرسکتے ہیں۔ انسانیت مل جل کر وہ کچھ کرسکتی ہے جس کا کسی نے گمان بھی نہیں کیا ہوگا۔ ایک پرانی حکایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے بیٹوں کو ایک لکڑیوں کا گٹھا توڑنے کا کہا مگر وہ اسے نہیں توڑ سکے، پھر جب اس نے انہیں ایک ایک لکڑی دے کر توڑنے کا کہا تو سب نے وہ لکڑی آسانی سے توڑ دی۔ اس طرح وہ شخص اپنے بیٹوں کو اتفاق میں برکت کا سبق دیتا ہے کہ اکیلے رہنا خطرے کی بات ہے اور مل جل کر رہنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ بطورِ ریاست اور خطہ تو شاید ہی دنیا کبھی ہنسی خوشی مل کررہی ہو لیکن کچھ چیزوں پر اتفاق بہت ضروری ہے۔
وہ عوامل جن میں اس وقت مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے؛ وہ ہیں امن وامان، جنگ کا خاتمہ، مہاجرین کی مدد، ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدام ، کورونا پر قابو پانا اور غربت کا خاتمہ‘ ان عوامل پر ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہم ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کریں گے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے پوری دنیا کے مستقبل کو خطرات لاحق ہیں۔ اگر ماحول میں بہتری نہ آئی تو دنیا کو‘ بالخصوص انسانی زندگی کو ایسے خطرات لاحق ہوجائیں گے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ماحول اورہوا میں آلودگی ہوگی تو ہم متعدد بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ حال ہی میں میرے ایک واقف کار کی موت پھیپھڑوں کے سرطان سے ہوئی ہے، انہوں نے کبھی پان‘ گٹکا یا سگریٹ کا استعمال نہیں کیا تھا؛ تاہم وہ لاہور کی جس فضا میں سانس لے رہے تھے‘ وہ آلودہ تھی اور اب بھی ہے۔ ان کا یوں چلے جانا ان کے بچوں کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے۔ سموگ کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے حکام کو مل کر بیٹھنا ہوگا کیونکہ اس خطے میں ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی رہتی ہے۔ ان کے مستقبل کیلئے پاکستان اور بھارت کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ عوام کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔ یہ ایک ایسا اَن دیکھا دشمن ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھا رہا ہے اور انسان اس کی بات ہی نہیں کررہے۔ اس وقت دہلی اور لاہور سموگ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک اس معاملے پر ایک ساتھ نہیں بیٹھ رہے۔ عوام اس وقت شدید تکلیف کا شکار ہیں‘ سموگ گھروں کے اندر تک آجاتی ہے اور سانس لینے میں تکلیف کا باعث بنتی ہے‘ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور گلے اور پھیپھڑوں کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ لاہور میں کچھ دن سکول بند کیے گئے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اس کا حل ہے انسان دوست سرگرمیاں ہیں، کہ ہم نئے پودے لگائیں ‘درخت نہ کاٹیں اور فضا میں زہریلی گیسز کا اخراج کم سے کم کریں۔
اگر بات کریں کورونا کی‘ تو یہ ایسی وبا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب تک 53 لاکھ سے زائد زندگیاں یہ وبا نگل چکی ہے۔ گزشتہ روز بھی روس میں ہزار سے زائد افراد کورونا کے باعث ہلاک ہوئے‘ کئی ممالک اور خطے اب بھی اس وبا کی زد میں ہیں، اس لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے کورونا ایس او پیز پر عمل کرنا ضروری ہے‘ پھر ویکسین لگوانا اور اس میں مبتلا افراد کی ایس او پیز کے تحت مدد کرنا‘ ان کا مکمل خیال رکھنا‘ ان کو جذباتی‘ نفسیاتی اور معاشی طور پر امداد دینا۔ اس معاملے پر بھی عالمی یکجہتی کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے اس وبا پر قابو پایا جائے اور کس طرح ان ممالک کی مدد کی جائے جو پسماندہ اور ترقی پذیر ہیں۔ اس وبا نے انسان کو انسان سے الگ کردیا‘ معاشی سرگرمیوں کا پہیہ رک گیا اور ہر جگہ اس نے شدید خوف پھیلا دیا۔ تمام ممالک کوآپس کی دشمنیوں کو بھلا کر‘ بنی نوع انسان کیلئے کام کرنا ہوگا۔ یہ وبا بہت مہلک ہے اور پوری دنیا کیلئے خطرہ ہے اس لیے عالمی یومِ انسانی یکجہتی کے موقع پر اس بات کا ارادہ کرنا ہو گا کہ اس سیارے کی مخلوقات کی زندگیوں اور صحت کیلئے مل کر کام کیا جائے گا۔ ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو ویکسین مفت فراہم کریں اور ادویات کیلئے امداد دیں تاکہ وبا میں مبتلا ممالک بھی کورونا کے خلاف مؤثر جنگ لڑسکیں۔
اگر بات کریں غربت کی‘ تو یہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، پوری دنیا میں کروڑوں افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ کتنے ہی لوگ کھلے آسمان تلے اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ کچرے سے کھاناچن کر کھاتے ہیں اور کتنوں کے بدن پر پورے کپڑے نہیں ہیں۔ ان سب کے لیے دنیا کے اُس طبقے کو کام کرنا ہوگا جو قدرے خوشحال ہے۔ ہمیں اس غریب طبقے کیلئے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے جسے تین وقت کا پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہو پاتا۔ پاکستان میں حکومت نے لنگرخانے اور احساس پروگرام شروع کررکھا ہے‘ پناہ گاہیں بھی بنائی گئی ہیں لیکن یہ سب عارضی حل ہیں۔ غربت کا مستقل حل یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کو عام کیا جائے اور لوگوں کو ان کو پیروں پر کھڑا کیا جائے۔
امن و امان کے حوالے سے بھی باہمی طور پر کام کرنا ہو گا۔ جنگوں اور تنازعات نے عالمی امن کو بہت نقصان پہنچایا ہے‘ لاکھوں لوگ بے دخل اور بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان مہاجرین کیلئے زندگی بہت مشکل ہے اور یہ بہت مصائب کا سامنا کرتے ہیں۔ کتنے ہی بچے باردوی سرنگوں کے دھماکوں میں اپنے ہاتھ‘ پائوں گنوا بیٹھے اور کتنے ہی سمندر کی ظالم لہروں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جب ترکی کے ساحل سے ایلان کردی کی ننھی لاش ملی تھی تو ہر حساس شخص ہل کر رہ گیا تھا۔ بہت سے ممالک نے مہاجرین پر اپنے دروازے کھول دیے تھے؛ تاہم نہ تو جنگیں رکیں اور نہ ہی مہاجرین کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی کا خاتمہ ہو سکا ۔ کاش !یہ جنگیں ختم ہوجائیں اور دنیا بھر میں امن ہوجائے۔ میں تو اس بات پر بھی حیران تھی کہ کورونا کی وبا کے دوران بھی آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جنگ شروع ہو گئی۔ آرمینیا کو یہ تک خیال نہیں آیا کہ اس وقت کورونا کی وبا جاری ہے؛ تاہم جنگ میں اس نے منہ کی کھائی اور آذربائیجان نے اپنا خوب دفاع کیا اور کاراباخ کا مقبوضہ علاقہ واپس لے لیا۔
اس وقت عالمی یکجہتی کا ایک ثبوت اسلام آباد میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہوا‘ جس میں تمام اسلامی ممالک کے نمائندے شریک تھے۔ پاکستان نے اس اہم اجلاس کی میزبانی کی جس میں تقریباً 20 ممالک کے وزرائے خارجہ اور 10 نائب وزرائے خارجہ سمیت دیگر وفود شامل تھے۔ عالمی یومِ یکجہتی کے مثال اس اجلاس کا ایجنڈا‘ افغانستان کی موجودہ صورتحال ہے۔ اس وقت افغانستان کو مالی امداد اور عالمی ہمدردی کی ضرورت ہے، وہاں کے عوام خوراک اور ادویات کی کمی کا سامنا کررہے ہیں۔ بچے‘ خواتین اور بزرگ خاص طور پر ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اس کے علاوہ کانفرنس کے ایجنڈے پر کشمیر اور اسلاموفوبیا کے مسائل بھی تھے۔ پاکستان نے اس عالمی فورم کی میزبانی بخوبی نبھائی ہے‘ اسلام آباد کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا۔ تمام مہمانوں نے پاکستان کی میزبانی کو سراہا۔ کانفرنس میں شریک تمام ممالک اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ افغانستان کے انسانی بحران پر قابو پایا جائے۔ ابھی تک دنیا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان میں مستحکم حکومت ہی دنیا کے امن کیلئے ضروری ہے۔ عالمی امداد سے افغانستان کے حالات کی سنگینی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان دنیا میں امن کا خواہاں ہے اس کا منہ بولتا ثبوت او آئی سی کانفرنس ہے۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور وہاں کے عوام خوشحال ہوں۔ دنیا کو اس وقت تمام درپیش مسائل کا مل کر سامنا کرنا ہو گا، تبھی ہم دنیا کو آنے والی نسلوں کیلئے ایک اچھی رہنے کی جگہ بنا سکتے ہیں۔