عوام کیا چاہتے ہیں؟

سوشل میڈیا پر ایک مقابلہ چل رہا ہے کہ کس کا لیڈر زیادہ حسین اور ہینڈسم ہے۔ یہ مقابلہ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے درمیان زور و شور سے جاری ہے۔ اس میں ان کی سوشل میڈیا ٹیمیں اور سیاست دان مل کر حصہ لے رہے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے‘ اسی مہینے کی بات کرلیتے ہیں۔ مریم نواز کی تصاویر آئیں جوکہ ان کی نجی تصاویر تھیں ‘ان کے بیٹے کی شادی میں لی گئی تھیں اور خود اُن کے فوٹوگرافرز‘ ڈیزائنر ز نے یہ تصاویر ان کی مرضی سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں۔ ان کے پبلک ہونے میں شریف خاندان کا منشا شامل تھی۔ مسلم لیگ نواز کی قائد مریم نواز ہر دن بہت خوبصورت نظر آئیں‘ ان کے مہنگے ملبوسات‘ قیمتی زیورات‘ سب نے ان کی تصاویر کو سراہا۔ تاہم بعض لوگوں نے ان سے سوال بھی کئے کہ ان کا اور ان کے شوہر کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ اور وہ دلہن سے زیادہ تیار کیوں ہیں؟ میرے خیال میں تیار ہونا ان کا حق ہے‘ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔
جب ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئیں تو تحریک انصاف بھی کیوں پیچھے رہتی‘ وہ بھی عمران خان صاحب کی نئی تصاویر کے ساتھ مقابلے پر آگئی۔ ہر طرف خان صاحب کی تصاویر پوسٹ ہونے لگیں۔ عمران خان سکردو ائیرپورٹ کے افتتاح کے لئے گئے‘ ان کے اس خصوصی دورے پر ان کی بہت اچھی تصاویر آئیں اور ان کے کوٹ کے بھی چرچے ہوئے۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے تو ازراہِ مذاق لکھا کہ وزیراعظم کو نیا کوٹ مبارک ہو۔ وزیراعظم عمران لباس کے معاملے میں سادہ بندے ہیں‘ کپڑے پرانے بھی پہن لیتے ہیں اور کتنی بار لوگوں نے ان کے کپڑوں پر سوراخ بھی دیکھے۔ وہ مہنگے برینڈز کے دلدادہ نہیں ہیں تاہم مریم نواز کے تو جوتے ہی لاکھوں سے شروع ہوتے ہیں تو کپڑوں اور جیولری کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مقابلہ شروع ہوگیا کہ کون زیادہ ہینڈسم ہے اور کون زیادہ خوبصورت ہے۔ میں تو یہ کہوں گی کہ اس سب کو چھوڑیں ‘دونوں کے فوٹوگرافر بہت اچھے ہیں۔ فوٹوگرافرز ہی اب تک کی تاریخ میں بہت اچھا اور معیاری کام کررہے ہیں۔ دوسرا عوام کو بھی اس بحث سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ کون حسین ہے کون نہیں‘ وہ ان لیڈرز سے مقابلہ حسن و وجاہت کی توقع نہیں رکھتے‘ وہ ان سے قومی خدمت کی توقع رکھتے ہیں۔اچھا لگنا اور ان کا لباس ان کا ذاتی معاملہ ہے ‘تاہم یہ دونوں پیچ تھری کی سیلبرٹی نہیں ہیں ہمارے سیاست دان ہیں۔ پتہ نہیں کس نے یہ تھیوری بنائی ہے کہ روز نئی تصویر اپ لوڈ کرو اور شہزادہ شہزادی کے القاب پاؤ۔ یہ چیز عوام میں ان کو مقبول نہیںبناتی۔یہ انتہائی غلط روش ہے۔
ضرور کریں خرچا فیشن پر لیکن عام عوام کا دل نہ دکھائیں۔ ان سے اپنی نجی زندگی چھپا کر رکھیں۔ جن کے پاس روٹی کھانے کے پیسے نہیں‘ جن کے پاس نوکریاں نہیں‘ جن کی بیٹیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ گھروں میں بیٹھی رہ گئیں کیا وہ یہ سب دیکھ کر خوش ہوتے ہوں گے؟ نہیں ان کا دل دکھتا ہوگا۔ ہماری اشرافیہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر امیر اور سیاستدان پیدا ہوتی ہے اور جو یہاں غریب ہیں وہ نسل در نسل غریب ہیں اور رہیں گے۔اس لئے شاید سیاست دانوں اور ان کے بچوں کو جن کو ورثے میں سب کچھ ملتا ہے ‘ان کو عوام کی تکلیف اور غریبی کے مسائل کا احساس نہیں۔ ایک کروڑ کی گاڑی ‘ ایک لاکھ کا جوتا ‘ دو لاکھ کا موبائل‘ چالیس لاکھ کی گھڑی‘ بارہ لاکھ کی شال‘ آٹھ کروڑ کا ڈائمنڈ کا سیٹ‘ کیا ایسی آسائشوں میں آپ غریبوں کی مشکلات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔جس نے کبھی غربت نہ دیکھی ہو وہ کیا غریبوں کا احساس کرے گا؟ مہنگی گاڑی کے کالے شیشوں سے نہ عوام نظر آتے ہیں نہ ہی ان کے مسائل اور نہ ہی ان کی غربت اشرافیہ کو نظر آتی ہے۔
عوام بہت سی مشکلات کا شکار ہیں ۔ایک ڈاکٹر کے کلینک کے باہر کاؤنٹر پرایک نرس دعا کررہی تھی یا اللہ بارش نہ ہو‘ میں نے کہا: بارش نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب میں سموگ اتنی بڑھ گئی ہے‘ خشک سردی کی وجہ سے ہر کوئی بیمار ہے‘ وہ کہنے لگی: میرے کچن اور باتھ روم پر ٹین کی چھت ہے ‘بارش میں اس سے پانی کمرے میں آجاتا ہے اور چونکہ میرے بچوں کے پاس بیڈ نہیں تو سارے گدے گیلے ہوجاتے ہیں۔ مجھے اتنا دکھ ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اس کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے لوگوں کی عمریں گزرجاتی ہیں۔
اس ہفتے پورے ہوٹلز بک ہیں کیونکہ برف باری ہونی ہے‘ کسی جگہ پر آپ کو بکنگ نہیں ملے گی‘ تاہم امرا کی دنیا اور ہے اور غربا کی دنیا کچھ اور ہے۔ امرا نے اپنا ویک اینڈ دبئی‘ لندن یا شمالی علاقہ جات میں پلان کرلیا ہے اور غریب عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ کچی چھت سے رستے پانی کو کیسے روکنا ہے۔ سردی سے خود کو اور بچوں کو کیسے بچانا ہے۔کسی کی چھت ٹین کی ہے تو کسی کی چھت گھاس پھونس سے بنی ہے‘ کسی نے اینٹوں پر پلستر کررکھا ہے۔ وہ سب تو اس سوچ میں ہیں کہ سردی سے کیسے بچنا ہے۔ اسی طرح غریبوں کا مسئلہ روٹی ہے۔ ان کو دو وقت کا کھانا چاہیے‘ انہیں ہیش ٹیگ ویڈنگز سے کیا لینا دینا ۔ان کو خوبصورت اپوزیشن لیڈر یا ہینڈسم وزیراعظم کا کیا کرنا ہے۔ کبھی آٹا مہنگا ‘کبھی چینی مہنگی‘ کبھی تیل مہنگا ‘کبھی پیٹرول مہنگا۔ غریب عوام کہاں جائیں‘ کیا کریں؟ ان کے لیے تو روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اشیا ئے خورونوش مہنگی ہوگئی ہیں اور قوتِ خرید زیادہ نہیں ہوئی ۔ اس لئے عوام کے لیے روٹی‘ سبزی‘ پھل خریدنا مشکل ہوگیا ہے۔دوسری طرف رہی سہی کسر پیٹرول اور سوئی گیس نے پوری کردی ہے۔ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ لوگوں کے بنتے ہوئے مکان رک گئے ہیں کہ تعمیرات پر بہت خرچہ آرہا ہے۔ گھرپرلگانے والی چیزوں کی قیمت دگنا ہوگئی ہے اور اب لوگوں کی قوت خرید سے یہ چیزیں باہر نکل گئی ہیں۔ میں ایک نئی سوسائٹی دیکھ رہی تھی‘ قیمتیں سن کر گھر جانے کا فیصلہ کیونکہ ایک کروڑ کا پلاٹ بجٹ سے باہر تھا‘ وہ بھی صرف آٹھ مرلہ۔ وہاں میں نے مزدوروں‘ ٹھیکیداروں سے بات کی‘ انہوں نے کہا کہ پراپرٹی اور تعمیرات کا بزنس بہت سلو ہوگیا ہے۔ لوگ حالات ٹھیک ہونے کے منتظر ہیں ‘اس کے بعد شاید مارکیٹ میں پیسے آئیں۔ ابھی تو بہت نقصان ہوا ہے۔مزدور کہنے لگے: روٹی‘ پیٹرول ‘گیس‘ بجلی مہنگی ہوگئی ہے‘ بس ہماری مزدوری نہیں بڑھی۔ ہم کہاں جائیں کام کا مندا ہے اور خرچے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔
نوجوان نسل بہت مجبور ہے ان کو نوکریاں نہیں مل رہیں‘ ان کے پاس سفارش نہیں ہے‘ ان کے پاس رشوت دینے کے پیسے نہیں ہیں‘ وہ ٹیکسی چلا رہے یا بیرے بن گئے ہیں۔ اب تو یہ ہورہا ہے کہ طالب علم گھر سے گاڑی میں بریانی بناکر لاتے ہیں اور کسی بازارمیں بیچنا شروع کردیتے ہیں۔دوسری طرف حکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ سب ٹھیک ہے اور انہوں نے لاکھوں لوگوں کو نوکریاں دی ہیں‘ وہ اب گھر بھی دیں گے اوراحساس پروگرام کی پناہ گاہیں اور لنگر خانے عوام کی فلاح کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ تاہم سفید پوش طبقہ سسک رہا ہے ‘ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں‘ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے‘ فریاد نہیں کرسکتے‘ وہ مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔
یہ سال بھی ختم ہونے کو آیا‘ مگر عوام کے دکھ درد کا خاتمہ کون کرے گا‘ اگر حکومت اپوزیشن کو تصویری مقابلے سے فرصت مل گئی تو کچھ عوام کا بھی سوچ لیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں