2020ء اور 2021ء درد و مصائب اور وبا کے سال تھے‘ کون ہے جس نے ان سالوں میں دکھ‘ درد‘ تکلیف اور دکھ نہ دیکھا ہو۔ ہم سب ایسی اذیت سے گزرے کہ اگر لکھتے ہیں تو آنسو گرتے ہیں۔اگر ہم کاغذوں پر کالم لکھتے ہوتے تو شاید وہ بھیگ جاتے اور سیاہی پھیل جاتی۔مگر اب وقت بدل گیا ہے‘ قلم دوات اور کاغذوں کی جگہ لیپ ٹاپ نے لے لی ہے۔ وقت کا پہیہ بہت تیزی سے گھوم رہا ہے اور سال ایسے گزر ر ہے ہیں جیسے مہینے ہوں اور مہینے دِنوں کی طرح پر لگا کر اڑ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جہاں انسان ایک مشین کی طرح کام کررہا ہے۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے لوگ آپس میں بات نہیں کر پاتے اور واٹس ایپ پر میسج کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں لوگ دستر خوان کے بجائے یا ڈائنگ ٹیبل پر ساتھ مل کر کھانا کھانے کے بجائے اپنے کمروں میں الگ الگ کھانا کھا لیتے ہیں۔ وہ والدین جو جوانی میں اپنے بچوں کیلئے وقت نہیں نکال پاتے تھے‘ اب بڑھاپے میں اپنے بچوں کی طرف سے بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ سب کچھ کام اور دولت نہیں ہوتی‘ رشتے اور انسان بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ آج کے دور میں پڑوسی کو پڑوسی کا نہیں پتا‘ کسی کو بھی کسی دوسرے سے سروکار نہیں۔ کم از کم یہ تو دیکھ لیں کہ کوئی پڑوس میں بھوکا تو نہیں‘ کوئی بیماری سے تو نہیں تڑپ رہا‘ کسی کو قرض یا کوئی اور معاشی بوجھ تو نہیں نگل رہا‘ کسی کے بچے کھانے اور تعلیم سے محروم تو نہیں‘ ان کے پاس تن ڈھکنے کیلئے کپڑے ہیں یا نہیں۔ اس کا حساب ریاست کے حکمران تو شاید بعد میں دیں گے‘ پہلے سوال پڑوسیوں سے ہوگا۔ امیر پڑوسی نے غریب پڑوسی اور امیر رشتہ داروں نے غریب رشتہ داروں کو کیوں نہیں پوچھا۔ سب کو کسی کے دکھ کا تب پتا چلتا ہے جب کوئی انسان خودکشی کرکے اس دنیا کو چھوڑ جاتا ہے‘ جب تک وہ زندہ ہوتا ہے کوئی اس کو نہیں پوچھتا۔
زندگی آسان نہیں ہے‘ یہ کانٹوں کی راہ گزر ہے۔ اس پر چلتے چلتے بہت سے کنکر اور کانٹے پیروں کو لہولہان کردیتے ہیں اور منزل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، مگر ٹھہریے! تھوڑی دیر رک کر اپنے پیروں کے کانٹے نکالیں اور دوسروں کیلئے بچھائے گئے کانٹے راہ سے صاف کر دیں تو زندگی سب کیلئے آسان ہوجائے گی۔ یہ ایک عارضی زندگی ہے تو پھراس میں انسان دشمنی‘ نفرت اور حسد کو دائمی طور پر کیوں اپنا لیتا ہے۔ کیوں نفرت کو دل میں پالتا ہے‘ اس کو پروان چڑھاتا ہے اور وقت آنے پر اپنا زہر اگل دیتا ہے؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ معاف کردینے والا شخص زیادہ سکون میں رہتا ہے مگر کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کر پاتا۔ دل سے نفرت‘ حسد اور دشمنی کے کانٹے نکال دیں۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی سکھ دیں۔ کل ایک ایسی خوبصورت بات پڑھنے کو ملی جس کو پڑھ کر میں گہری سوچ میں چلی گئی۔ وہ جملہ تھا: کمزور کا نقصان نہ کرو‘ وہ آپ کی آخرت کو خطرے میں ڈال دے گا۔ یقینا مظلوم کی آہ عرشِ بریں کو ہلا دیتی ہے‘ اس لیے کبھی کسی کمزور اور مظلوم پر ظلم نہیں کریں۔ کسی کو آپ معاف کردیں‘ کوئی آپ کو معاف کردے تو دنیا امن و محبت کا گہوارہ بن جائے گی۔ اوپر والا بھی ہم پر مہربان ہوجائے گا‘ شاید یہ بیماریاں اور وبائیں بھی ختم ہو جائیں۔ جب بھی کسی جگہ پر وبا آتی ہے تو اس کے بہت سے اثرات ہوتے ہیں جیسے جسمانی‘ نفسیاتی‘ سماجی اور معاشی اثرات‘ یہ انسان کو توڑ ڈالتے ہیں۔ ایسے وقت میں علاج کے علاوہ انسانی ہمدردی بھی مرہم کی طرح کام کرتی ہے۔
میں ایک خاتون سے ملی‘ جن کا اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں اپنا گھر تھا۔ ان کے شوہر کو کورونا ہوا اور وہ کوما میں چلے گئے۔ ان کا علاج بہت مہنگا تھا، وہ جس ہسپتال میں ایڈمٹ تھے‘ وہاں روز کا خرچہ ایک لاکھ روپے تھا۔ شوہر کی بیماری کی وجہ سے ان کو اپنا گھر بیچنا پڑگیا۔ وہ کرائے کے گھر میں چلی گئیں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کے شوہر صحت یاب ہوگئے؛ تاہم وہ اب تک کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اب یہ فیملی اپنے گھر سے کرائے کے گھر پر آگئی ہے۔ کورونا نے اس کو جسمانی‘ معاشی اور نفسیاتی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہ خاتون کہتی ہیں ''میرے رشتہ دار‘ دوست احباب نے ہمارا بہت ساتھ دیا اور میرے شوہر موت کے منہ سے واپس آگئے۔ اگر ان سب لوگوں کی سپورٹ نہ ہوتی تو شاید میں بھی ختم ہوجاتی لیکن سب نے میرا بہت ساتھ دیا اور میں مضبوطی سے کھڑی رہی۔ اگر یہ سب لوگ نہ ہوتے تو گھر کا بک جانا، شوہر کا بیمار ہوجانا شاید پہلے مجھے ختم کردیتا؛ تاہم سب کی ہمدردی اور پیار نے مجھے بکھرنے نہیں دیا‘‘۔ زندگی کی یہی کہانی ہے۔ یہ غموں اور خوشیوں کو مجموعہ ہے۔ ہمیں صرف اللہ کی تقسیم پر صبر کرنا اور اس پر ہر حال میں راضی رہنا سیکھنا ہوگا۔
وہ عطا کرے تو شکر اس کا وہ نہ دے تو ملال نہیں
رب کے فیصلے کمال ہیں ان فیصلوں کو زوال نہیں
اللہ تعالیٰ کی رضا میں خوش ہوجانا اور مشکلات پر صبر کرنا مومن کی نشانی ہے۔ خدا اپنے محبوب بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔ انبیا کرام علیہم السلام کی زندگی میں دیکھیں کہ کتنے مصائب آئے۔ ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ اس کے فیصلوں کے پیچھے کیا حکمت ہے‘ ہمیں وقتی طور پر دکھ‘ رنج اور تکلیف ضرور پہنچتی ہے لیکن بعد میں یہ احساس ہوتا ہے کہ یقینا خدا تعالیٰ کا فیصلہ درست تھا مگر اس وقت ہم اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ انسان زندگی میں کسی ایک وقت اپنی محبت کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا ہے اور جب وہ مل جاتی ہے تو اس کو اتنی اذیت دیتی ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ میں اس کا بت بناکر پوجنا شروع ہوگیا تھا اور یہ شخص میرے ساتھ ایسا کررہا ہے‘ میری محبت کا جواب نفرت سے دے رہا ہے‘ مجھے دھتکار رہا ہے۔ بس ایک میرے رب کی ذات ہے‘ بس ایک سجدہ‘ دل سے نکلی ہوئی دعا اور ایک ندامت کا آنسو‘ وہ اتنا رحمن اور رحیم ہے کہ سب گناہ معاف کردے گا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی، 2021ء میں جتنے گناہ کیے‘ ان پر معافی مانگ لیں، اللہ تعالیٰ کے سامنے تنہائی میں روئیں اور توبہ کریں کہ پھر یہ گناہ سرزد نہیں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ان لوگوں سے بھی معافی مانگیں جن کے ساتھ زیادتی کی‘ جن کا دل دکھایا‘ جن کو دھوکا دیا‘ جن کو جھوٹی امید اور آس دلائی اور پھر بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا‘ جن کا مال کھایا اور جنہیں نقصان پہنچایا۔ شاید حقوق اللہ میں کوتاہی پر معافی مل جائے لیکن اللہ کی مخلوق کا دل دکھانے پر معافی تب تک نہیں ملے گی جب تک کہ بندہ خود معاف نہ کر دے ۔اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق پر رحم کریں‘ چاہے وہ انسان ہوں‘ جانور ہوں‘ پرندے ہوں‘ درخت اور پودے ہوں یا کیڑے مکوڑے اور آبی مخلوقات‘ سب کے ساتھ ہمدردی کریں اور ان پر شفقت کریں۔ میرے لیے وبا کے ان دو سالوں‘ 2020 اور 2021ء کا یہی خلاصہ ہے کہ معاف کر دو‘ سکون میں رہوگے۔ جتنی عاجزی اور انکساری پیدا کرو گے‘ خدا اتنی عزت اور شہرت سے نوازے گا۔ جتنا صدقہ و خیرات کرو گے‘ وہ آپ ہی کے کام آئے گا‘ آپ کو حسد‘ بدنظر اور آنے والے خطرات سے بچائے گا۔ کسی کی بدی یا غلط رویے کی وجہ سے اپنی اچھائی کو مت مارو‘ اپنی اچھائی سے برائی پر غالب آ جائو۔ ایک دوسرے کی مدد کرو اور لوگوں کی بات سنو‘ کبھی کسی کو تکلیف مت دو۔ مکافاتِ عمل بہت شدید ہوتا ہے‘ ہمیں اللہ سے ہر وقت یہ دعا مانگنی چاہیے کہ ہم کسی کی بدعا کی زد میں نہ آئیں‘ ہم اس کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ ہمیشہ اس کی رحمت اور نعمت کی دعا کرنی چاہیے؛ تاہم اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ کیا ہم اچھا انسان‘ اچھا مسلمان اور اچھا پاکستانی بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟
نئے سال میں نئی امنگ کے ساتھ داخل ہوں اور عہد کریں کہ میں اللہ کی رضا میں راضی رہوں گا؍ رہوں گی۔ اس کی تقسیم پر اختلاف نہیں کروں گا‘ نہ ہی کسی سے حسد و دشمنی کروں گا‘ نہ کسی کا حق ماروں گا اور نہ ہی کسی کا دل دکھائوں گا۔ ہمیں اپنے الفاظ کی کڑواہٹ سے کسی کی روح گھائل نہیں کرنی بلکہ الفاظ کی مٹھاس اورشیرینی سے کانوں میں رس گھولنا ہے اور اس معاشرے کو رہنے کے قابل بنانا ہے۔ الوداع 2021!خوش آمدید2022!