جس وقت ٹی وی پر یہ خبر سنی کہ پاکستان میں پہلا کورونا کا کیس آگیا ہے تو مجھے ایسا لگنے لگا کہ مجھے بھی نزلہ اور کھانسی ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ میرا وہم تھا کیونکہ جیسے جیسے ٹی وی پر کورونا کی علامتیں بتا رہے تھے‘مجھے محسوس ہونے لگ گیا کہ یہ مجھ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ خیر‘ میں نے اس خیال کو جھٹک دیا اور توجہ اپنے کام پر لگا دی‘ اس کے بعد سے اب تک مجھے جتنی بار بھی بخار ہوا‘ میں نے ہربار کورونا کا ٹیسٹ لازمی کرایا کیونکہ ہر بخار کے بعد یہ وہم ہوتا تھا کہ مجھے کورونا ہوگیا ہے۔ اب کیا کیا جا سکتا ہے ‘ کچھ چیزیں ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتیں‘ ہم اپنے ڈر‘ خوف اور احتیاط کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ سب کرتے ہیں؛ تاہم بیماری سے ڈرنا فطری ہے، اس کو ڈپریشن نہیں کہا جا سکتا، البتہ یہ حالت ''مائلڈانزائٹی‘‘ ضرور گردانی جائے گی۔ میری ایک سہیلی نے فیس بک پر سٹیٹس لگا رکھا تھا کہ اب تو تھکاوٹ بھی ہو یہی خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں کورونا تو نہیں ہوگیا؛ تاہم ان خیالات سے اگر معمولاتِ زندگی متاثر ہونے لگیں تو یہ کورونا انزائٹی اور کورونا ڈپریشن کی علامات ہیں جن سے اس وقت بہت سے لوگ گزر رہے ہیں۔
ایک وبائی بیماری ہم سب پر مسلط ہوگئی اور جانے کا نام نہیں لے رہی۔ اس نے ہم سب کو نفسیاتی‘ جسمانی اور معاشی طور پر متاثر کیا ہے۔ کوئی بیمار ہوا‘ کسی نے تکلیف کاٹی تو کوئی آئی سی یو تک پہنچ گیا‘کسی نے اپنے پیاروں کو کھو دیا تو کوئی معاشی طور پر سڑکوں پر آگیا‘ کسی کے پیارے آج تک بیمار ہیں تو کوئی نوکری ختم ہونے کے بعد آج بھی روزگار کی تلاش میں ہے۔اسی وجہ سے سب انسان پریشان ہیں اور اب ہم سب بھی ذہنی دبائو محسوس کر رہے ہیں۔ دو سال ہوگئے ہیں مگر یہ بیماری جانے کا نام نہیں لے رہی‘ ہر چند ماہ بعد اس کا ایک نیا ویری اینٹ آجاتا ہے۔ ہر دو ہفتے بعد بخار کھانسی ہونا تو معمول کی بات بن گئی ہے۔ بہت سے لوگ شکایت کررہے ہیں کہ کورونا ہونے کے بعد وہ متعدد امراض کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں نقاہت محسوس ہوتی ہے‘ ذراسا چلنے پر سانس پھول جاتا ہے اور ان کے پھیپھڑے بھی خاصے متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ ابھی تک کورونا کے بعد ہونے والی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہیں۔ میرے ایک واقف کار کے دونوں گردے کورونا کے بعد ناکارہ ہوگئے اور وہ اب ڈائیلیسز پر ہیں۔ ایک اور جاننے والے کورونا کے بعد فالج کا شکار ہوگئے اور اب چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔
جب ایک انسان کسی دوسرے کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں بیماری کا ڈربیٹھ جاتا ہے‘ اس کو لگتا ہے کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا‘ اس کو خود میں بھی وہی علامات محسوس ہونے لگتی ہیں جو وہ دوسروں میں دیکھتا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ اس کو بھی کورونا ہوگیا اور وہ اس کا وقت پورا ہو گیا ہے‘ یہ سب کووِڈ انزائٹی کی علامات ہیں۔ اس کی دیگر علامات یہ ہیں کہ کووڈ کا سوچ کر ڈر لگتا ہے‘ انسان بے چین ہو جاتا ہے‘ ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہونے لگتے ہیں‘ خوف سے پسینہ آتا ہے‘ کبھی کبھار انسان سو بھی نہیں پاتا۔ بار بار وبا کے بارے میں سوچنا‘ غیر ضروری طور پر محتاط رہنا‘باہر کم جانا اور لوگوں سے دور رہنا وغیرہ بھی کووڈ انزائٹی کی علامات ہیں۔ کچھ لوگوں کو چھینک بھی آئے یا بخار ہوجائے تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں کہ ان کو کووِڈ ہو گیا ہے۔ یہ بے وجہ کا خوف انزائٹی کی علامت ہے۔ ہاتھ پائوں کا سن ہونا‘ جسم کا بے جان ہونا‘ دل کی دھڑکن تیز ہونا‘ سانس لینے میں دشواری وغیرہ بھی اس کی علامات ہیں۔اسی طرح کووِڈ ڈپریشن ہے‘ جو لوگ بیمار ہوئے‘ جو لوگ اس دوران قرنطینہ میں رہے یا جن کے پیارے اس بیماری کی وجہ دنیا سے چلے گئے‘ ان میں سے اکثر کووِڈ ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ‘ جن کو خود یہ بیماری تو نہیں ہوئی لیکن وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کا کھانا کھانے کا دل نہیں کرتا‘ کپڑے بدلنے کا دل نہیں‘ وہ تنہائی پسند ہو گئے ہیں‘ زندگی سے مایوس ہیں‘ کورونا سے خوف زدہ ہیں اور روزمرہ کے معمولاتِ زندگی ادا کرنے سے قاصر ہیں‘ یہ سب کورونا ڈپریشن کا شکار ہیں۔ کیا حکومت اس طرف توجہ دے رہی ہے کہ کورونا کے نہ صرف معاشی اثرات ہیں بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات بھی ہیں جو لوگوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ سب سے پہلے اللہ پر توکل کریں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا‘ اللہ جہاں قہار وجبار ہے‘ وہاں رحمن‘ رحیم اور کریم بھی ہے۔ اس پر ایمان اور بھروسہ رکھیں۔اس کے علاوہ اپنے معمولات میں واک کو شامل کریں‘ یوگا کریں‘ پنج وقتہ نماز پڑھیں۔ اگر افاقہ نہ ہو تو اس کے بعد ڈاکٹری علاج پر توجہ دیں۔ ان بیماریوں کا علاج سائیکاٹرسٹ اور سائیکولوجسٹ کرتے ہیں۔ ادویات اور تھراپی سے اس کا علاج کیا جاتا ہے اور انسان بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے۔اگرچہ کچھ کیسز میں تھوڑا وقت لگتا ہے لیکن انسان جلد ہی دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جیسے ہم بخار‘ نزلہ اور دیگر بیماریوں کا علاج کرتے ہیں‘ اسی طرح ہمیں ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاج پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اس قسم کی صورتحال میں ڈاکٹر سے مشورہ کرکے دوائی کھائیں‘ تھراپی کرائیں، قرآنِ مجید کی تلاوت باقاعدگی سے سنیں، متوازن غذا کھائیں اور ہلکی پھلکی واک کریں۔ انزائٹی اور ڈپریشن سے ڈیل کرنے کے طریقے سیکھیں اور اپنے گھروالوں اور دوستوں وغیرہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں۔ اس کے علاوہ سانس کی مشق بھی کریں‘ گہرے گہرے سانس لیں اور اپنے اردگرد نعمتوں کو دیکھیں‘ سبزے کی طرف دیکھیں‘ آسمان کی طرف نظر اٹھائیں‘ سورج کی روشنی میں بیٹھیں‘ پرندوں کو دیکھیں۔ اگر آپ کو منفی سوچیں اور خیالات پریشان کرتے ہیں تو دل کو سمجھائیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں‘ ایسے خیالات کو جھٹکنے اور دبانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے خیالات کے ساتھ معمولاتِ زندگی سرانجام دیں۔ اپنی پریشانی کو دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ ضرور شیئر کیا کریں‘ خود کو کاموں میں مصروف رکھیں‘مصروفیت بہت سی منفی سوچوں کو زائل کر دیتی ہے۔ بہت سے لوگ نفسیاتی امراض کی وجہ سے سینے میں جلن، معدے میں تکلیف اور تیزابیت کی شکایت بھی کرتے ہیں‘ اس کے لیے ڈاکٹر سے دوائی لیں اور متوازن غذا کھائیں۔ کچھ لوگ اعصابی دبائو اور پٹھوں میں کھچائو محسوس کرتے ہیں‘ ان کو مالش اور گرم پانی سے غسل افاقہ دے گا۔ پانی زیادہ پئیں اور خود پر توجہ دیں۔ علاوہ ازیں ان لوگوں کی طرف دیکھیں جنہوں نے بہادری سے اس بیماری کا مقابلہ کیا۔ کورونا سے بچائو کے لیے ماسک پہنیں‘ بار بار ہاتھ دھوئیں اور چھ فٹ کے فاصلے سے لوگوں سے ملیں۔ چپ نہ بیٹھیں بلکہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہیں۔ اپنے خوف کے بارے میں بات کریں اور یاد رکھیں آپ اکیلے نہیں ہیں! ڈپریشن سے مقابلہ کرنے کیلئے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ادویات بھی لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روز نہائیں‘ اچھے کپڑے پہنیں‘ سانس کی مشق کریں‘ تمباکو نوشی اور ایسی منفی چیزوں سے پرہیز کریں‘ آرام کریں اور کورونا ویکسین اور بوسٹر شاٹ ضرور لگوائیں۔
کووِڈ انزائٹی اور کووِڈ ڈپریشن ایک حقیقت ہیں‘ بہت سے لوگ اس کرب سے گزر رہے ہیں‘ ا ن کو مدد کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کو پاگل پن قراد دے کر ان پر بات نہیں کی جاتی۔ کوئی نفسیاتی دبائو یا بیماری کا شکار ہوجائے تو اس کو جھاڑ پھونک والوں کے پاس لیجایا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو ڈاکٹرکی اسی طرح ضرورت ہے جیسے بخار یا دیگر کسی مرض میں ہوتی ہے۔ نفسیاتی امراض کیلئے ہمیں ڈاکٹر سے ہی ملنا ہوگا۔ اس عالمی وبا کے دوران نہ صرف جسمانی صحت کا خیال رکھیں بلکہ نفسیاتی صحت کا بھی خاص خیال رکھیں کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ کورونا کے دوران انزائٹی‘ ڈپریشن اور خودکشی کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے‘ گھریلو لڑائی‘ جھگڑوں اور طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ اس لیے ہمیں ان محرکات پر کام کرنا ہوگا جن کی وجہ سے انسان پریشانی کا شکار ہیں۔ ان عوامل کو ختم کرنے پر کام کرنا ہوگا جس کی وجہ سے لوگ ڈپریشن اور انزائٹی کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ارد گرد کے لوگوں کا خیال کریں۔امید پر دنیا قائم ہے ان شاء اللہ بہت جلد دنیا سے کورونا کا خاتمہ ہوجائے گا‘ تب تک ایس او پیز پر عمل کریں اور انسدادِ کورونا ویکسین ضرور لگوائیں۔