بلوچستان کے مسائل کا حل کیا؟

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اس صوبے کی تاریخی‘ سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے بہت اہمیت ہے۔ اس کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد ہے۔ یہ صوبہ معدنیات سے مالا مال ہے‘ کوئلے، کاپر، آئرن ،کرومائٹ، سونے، لیڈ، زنک، ایلومینیم، لائم سٹون، ماربل اور گندھک سمیت اس صوبے میں بیشمار معدنیات پوشیدہ ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اتنے بڑے ذخائر دنیا میں کم ہی موجود ہیں۔ پاکستان کی حال ہی میں بہت بڑی جیت ہوئی ہے اور ریکوڈک کیس میں حکومت اور ٹیتھیان کمپنی کے مابین اتفاق ہو گیا ہے۔ یوں پاکستان کو اب 10 ارب ڈالر ادا نہیں کرنا پڑیں گے۔ ریکوڈک کے مقام پر سونے کے یہ ذخائر‘ بعض رپورٹس کے مطابق‘ دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں۔اسی طرح گوادر کا ساحل بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان نے چین سے مل کر سی پیک کا منصوبہ اسی مقصد کے لیے شروع کیا تھا تاکہ چین اور پاکستان مل کر صوبہ بلوچستان کو خوشحال بنائیں۔اس کے علاوہ بلوچستان سے قدرتی گیس بھی نکلتی ہے۔ سٹریٹیجک اعتبار سے بھی بلوچستان خاصی اہمیت کا حامل ہے‘ اسی لیے بھارت سمیت کچھ ممالک یہاں بدامنی کے خواہاں ہیں۔
ماضی میں اس صوبے میں کچھ مقامی سردار ہر ممکن حد تک لوٹ کھسوٹ میں ملوث رہے۔ کچھ سیاستدانوں نے بھی یہاں کے عوام کو دھوکا دیا۔ اس صوبے کے وسائل کو لوٹ کر ان کے بچے آج یورپ اور امریکا میں عیش کررہے ہیں اور بھارت سے بھاری فنڈنگ لے کر بلوچستان کے ''حقوق‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ یہ سب ایک منظم سازش ہے جو بھارت نے پاکستان کے خلاف تیار کی کہ جیسے ہی ہم مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں تو بھارت بلوچستان کا نام نہاد ایشو شروع کردے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقوامِ متحدہ نے قراردادیں منظور کر رکھی ہیں اور یہ ایک عالمی تنازع ہے جبکہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے۔ کشمیری عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں جبکہ بلوچستان کے عوام پاکستان سے پیار کرنے والے ہیں۔
بلوچستان کے جغرافیے کو دیکھیں تو یہ بہت دلچسپ ہے۔ یہاں پر صحرا ‘خشک اور چٹیل پہاڑ اور ساحلی پٹی‘ سب موجود ہیں۔ یہاں سردی بھی سخت پڑتی ہے اور گرمی بھی شدید ہوتی ہے۔ اگر ہم بلوچستان کی قومیتوں کی بات کریں تو یہاں بلوچ‘ براہوی‘ پشتون ‘ ہزارہ اور دیگر قومیت کے لوگ بھی آباد ہیں۔ یہاں پر رہنے والے ہزارہ مختلف شعبوں میں پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کررہے ہیں۔ یہ بہت پرامن قوم ہے لیکن گزشتہ کافی عرصے سے یہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔اگر ہم بلوچستان کی آبادی دیکھیں تو اس صوبے کی کل آبادی سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ صوبے کی لگ بھگ ستر فیصد آبادی ژوب‘ نصیر آباد اور سبی میں رہتی ہے۔ اگر ہم یہاں کی معیشت کی بات کریں تو یہاں کی آبادی جفاکش ہے۔ عوام کی کثیر تعداد تجارت، کان کنی، گلہ بانی، قالین بافی اور ڈرائی فروٹ کے بزنس کے ساتھ وابستہ ہے۔ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ایرانی پراڈکٹس کی بڑی مارکیٹیں بھی موجود ہیں۔ ایران سے سمگل شدہ پٹرول اور کوکنگ آئل بلوچستان میں عام ملتا ہے۔ یہ سب بند ہونا چاہیے۔ غیر قانونی طریقے سے پٹرول کی تجارت خطرناک ہے اور کسی سانحے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
کچھ دن پہلے تربت اور پنجگور میں دہشت گردوں نے حملے کیے جس کے بعد فوجی آپریشن ہوا جس میں 20 دہشت گرد مارے گئے۔دہشت گرد ایف سی کے کیمپ کے اندر داخل ہونا چاہتے تھے مگر ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی گئی اور آرمی کی طرف سے بھرپور جواب دیا گیا۔ دہشت گرد قریبی مارکیٹ میں گھس گئے۔ آخری دہشت گرد کی تلاش تک یہ آپریشن جاری رہا ۔ دہشت گردوں سے جو اسلحہ ملا اس میں رائفل ،آر پی جی سات ،نائن ایم ایم پستول وغیرہ شامل تھے۔ یہ اسلحہ امریکی ساختہ تھا جو شاید انخلا کے وقت امریکی فوج یہاں چھوڑ گئی تھی۔ اس کے ساتھ موبائل اور سیٹلائٹ فون بھی ریکور ہوئے۔ دہشت گردوں کے پا س ہینڈ گرنیڈ اور ڈھائی کلو دھماکہ خیز مواد بھی موجود تھا۔ دورانِ تفتیش یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دہشت گرد بات چیت کے لیے ایک ہمسایہ ملک کا موبائل نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ سمگلنگ کا پیسہ اور 'را‘ کی فنڈنگ یہاں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو سپورٹ فراہم کرتی ہے۔ کچھ دہشت گرد دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں جبکہ کچھ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرکے آتے ہیں۔ اسی طرح ان کے کچھ ہینڈلرز یہاں موجود ہیں ۔ غریب‘ ناخواندہ اور کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر بلوچستان کے حالات کی بات کریں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو فنڈ ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص ہوتا ہے‘ وہ کہاں جاتا ہے؟ بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی اچھی سہولتیں کیوں دستیاب نہیں ہیں؟ اگر وہاں نوکریوں کے زیادہ مواقع ہوں‘ وہاں کھیلوں کے میدان ہوں تو کوئی بھی ہمارے نوجوانوں کو بہکا نہیں سکے گا۔ نصاب کو جدید بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔جنوبی بلوچستان میں موجود سمگلرز‘ جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے ہینڈلرزمعصوم نوجوانوں کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد بھی صوبے کے امن و امان میں خلل ڈال رہے ہیں۔ ان کو را ، افغان ایجنسی این ڈی ایس بھرپور سپورٹ کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ کیچ‘ پنجگور اور نوشکی میں بھی اس وقت آپریشن ردالفساد کے طرز پر ایک فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔ 2017ء سے اب تک یہاں دہشت گردی کے 64 حملے ہوچکے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ یہاں مزید سکیورٹی فورسز کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جدید حربی ساز و سامان سے لیس کیا جانا چاہئے۔ مغربی سرحد پر باڑ لگائی جانی چاہئے اور سرحدوں پر سرگرم ہنڈی مافیا کی بھی سرکوبی کی جائے تاکہ دہشت گردوں تک پیسہ اور اسلحہ نہ پہنچ سکے۔ اب تک بلوچستان میں 86 ہائی پروفائل دہشت گرد مارے جا چکے ہیں‘ بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی یہیں سے پکڑا گیا تھا جس کے بعد یہاں کے حالات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جون 2019ء میں بلوچستان میں دہشت گردی کے 30 واقعات پیش آئے جبکہ جون 2020ء میں صرف ایک دہشت گرد حملہ ہوئی؛ تاہم 2021ء میں ان حملوں میں پھر تیزی آگئی۔
دہشت گردوں کے کچھ ہمدرد سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔ ان پر سائبر قوانین کا اطلاق کیا جائے۔ان کے حق میں آرٹیکلز‘ ٹویٹس اور ٹرینڈز کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، سوشل میڈیاپر اس کی کوئی فوٹیج یا تصویر نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے ہی کوئی دہشت گردی کا حملہ ہوتا ہے‘ بھارتی صحافی اور پاکستان سے مفرور خودساختہ بلاگرز فوری طور پر کالعدم تنظیموں کی ویڈیوز شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت کو تمام سوشل میڈیا فورمز پر آواز بلند کرنی چاہیے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ صوبے میں لوگوں کو تمام بنیادی سہولتیں روٹی‘ کپڑا‘ مکان دیں، ان کو تعلیم‘ صحت اور کھیل کی اچھی سہولتیں مہیا کریں اور روزگار دیں۔ عوامی نمائندے عوام میں جائیں اور ان کا دل جیتیں‘ ان کے کام کریں۔بارڈر پر غیر قانونی آمدورفت کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ حکومت اور آرمی مل کرہی سکتی ہیں۔ یہاں کے بیروزگار نوجوانوں کو ایف سی اورسکیورٹی فورسز میں بھرتی کیا جائے‘ سول سروس میں بلوچستان کی اسامیوں میں اضافہ کیاجائے۔ اس کے ساتھ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ قائم کیے جائیں تاکہ عوام خوشحال ہوں۔ عوام کو خوشحال بنائیں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کریں‘ یہی بلوچستان کے مسائل کا حل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں