میں جب بھی پشاور گئی تو وجہ سانحات کی کوریج تھی ۔سیلاب‘ دھماکے اور اے پی ایس پر حملہ وہ وجہ بنے جن کی وجہ سے میں نے پھولوں کے شہر کوغم زدہ دیکھا۔ بچپن کے بعد جب پشاورگئی تو اس شہر پر ایک عجیب سی اداسی دیکھی۔ زندہ لوگوں کے ٹوٹے ہوئے دل دیکھے ‘روحیں گھائل تھیں۔ اپنے پیاروں کو اچانک کھو دینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے‘ اس پر صبر نہیں آتا۔میں جہاں جہاں گئی ہر چوک پر ایک سانحے یا شہدا کی یادگار تھی۔ جہاں پھول ہونے چاہئیں وہاں دکھ درد اور آنسو تھے۔ اس شہر کے لوگ بہت مضبوط ہیں‘ظلم کے اتنے پہاڑ ان پر ٹوٹے پھر بھی مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں۔ سب سے مسکرا کر ملتے ہیں اور میزبانی کے ماہر ہیں۔جس شہر میں اتنی دہشت گردی ہوئی‘ اتنے دھماکے ہوئے ‘ جہاں اتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں وہاں لوگوں کی نفسیات پر کیا اثر پڑا ہوگا؟ لیکن یہ لوگ پھر بھی ہر چیز سے مقابلہ کررہے ہیں۔
اس شہر نے فراخ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کے لیے دروازے کھولے ان کو گلے سے لگایا ‘ان کو رہائش اور روزگار مہیا کیا۔ اس شہر کی سب سے اچھی بات ہی یہ ہے کہ یہ لسانیات اور فرقہ واریت سے کوسوں دور ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی اور جفاکش تو ہے ہی لیکن ان میں پڑھنے کی لگن بھی بہت ہے۔ پشاور نے پاکستان کو اعلیٰ پائے کے ڈاکٹرز دیے۔ اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی‘ یہاں اتنے دھماکے ہوئے کہ ایک نسل ختم ہوگئی اور ایک نسل یتیم ہوگئی۔ اکثریت ہو یا اقلیت‘ مسلمان ہوں عیسائی یا سکھ کوئی بھی دہشت گردی سے نہیں بچ سکا۔
اگر ہم کچھ سانحات پر نظر ڈالیں تو دیکھ کر اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 2007ء میں پشاور کے ایک ہوٹل پر خودکش حملہ ہوا جس میں 24 لوگ جان سے گئے۔2008 ء میں قیوم سٹیڈیم میں خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ اس سانحے میں چار افراد جاں بحق اور تیرہ زخمی ہوئے۔ اس کے بعد دسمبر 2008ء میں پشاور کے ایک بازار میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے ‘ پہلے دھماکے میں 27 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دوسرے میں 21 ۔ گیارہ مارچ 2009 ء کو اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور پر حملہ ہوا۔ نمک منڈی میں ہونے والے اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے مگرچھ افراد شہید ہوگئے۔یہ ایک سال میں اے این پی پر ساتواں حملہ تھا۔22 مئی 2009 ء کو پشاور میں سینما روڈ پر حملہ ہوا جس میں دس افراد جاں بحق اور 75 زخمی ہوئے۔ 13 نومبر 2009 ء کو پشاور میں حساس ادارے کے ایک دفتر پر حملہ ہوا جس میں 17 افراد جان سے گئے اور ساٹھ زخمی ہوئے۔پھر گیارہ نومبر 2009 ء کوبارہ لوگ پشاور کینٹ میں دہشت گری کا نشانہ بنے۔ 19 نومبر ایک بار پھر پشاور نشانہ بنا اور دو حملے ہوئے‘ ایک جوڈیشل کمپلکس میں ہوا‘ جس میں 22 افراد اپنی جان سے گئے جبکہ دوسرا مسجد اور پولیس اسٹیشن میں ہواس میں بھی 22افراد جان سے گئے۔ 22 دسمبر 2009 ء کو پشاور پریس کلب پر حملہ ہوا اور تین افراد جان کی بازی ہار گئے اور 24 زخمی ہوئے۔24دسمبر کو ایک بار پھر پشاور خون میں نہا گیا اور چار افراد جاں بحق ہو گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
پھر 2010ء جنوری میں پولیس پر خودکش حملہ ہوا اور سینکڑوں پولیس والے اس میں زخمی ہوگئے۔24 فروری کو پشاور میں راکٹ حملہ ہوا جس میں چارافراد جان کی بازی ہار گئے۔ 11 مارچ کو پھر پشاور میں دہشت گردی ہوئی اور پانچ افراد جان سے گئے۔17 مارچ کو پھر حملہ ہوا اور پانچ سکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔آٹھ اپریل کو دہشت گردوں نے پشاور میں لڑکیوں کے تین سکولوں کا نشانہ بنایا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔19 اپریل کو پھر پشاور دھماکوں سے گونج اٹھا اور23 افراد مارے گئے۔ پھر مارکیٹ میں دھماکہ ہوا اور 22 افراد جاں بحق ہوگئے اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔جولائی میں پھر پشاور دہشت گردی کی زد میں آگیا‘ گیارہ لوگ جان سے گئے جن میں چار سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ 24جولائی کو ایک سیاسی شخصیت پر خودکش حملہ ہوا۔ چار اگست کو پشاور میں پولیس پر حملہ ہوا اور پانچ افراد شہید ہو گئے۔دسمبر میں پشاور میں سکول بس پر حملہ ہوا اور ایک تیرہ سال کے بچے سمیت دو افراد جان کی بازی ہار گئے۔جون2011 ء کوخیبر مارکیٹ میں دھماکہ ہوا اور34 شہری جان سے گئے اور سو زخمی ہوگئے۔ 13 ستمبر کو پشاور میں ایک سکول بس پر فائرنگ ہوئی اور چار بچوں سمیت بس کا ڈائیور جان کی بازی ہار گیا۔ دو دسمبر کو پھر پشاور میں مارکیٹ میں دھماکہ ہوا‘ متعدد لوگ زخمی ہوگئے۔
2012 ء کی بات کریں تو ایک گاڑی پر حملہ ہوا جس میں بارہ لوگ جان سے چلے گئے۔24فروری کو چیک پوسٹ پر حملہ ہوااور چار افرادشہیدہوگئے۔15 مارچ اور20 مارچ کو پھر پشاور میں دھماکے ہوئے‘ پہلا حملہ خودکش تھا‘ دونوں میں پولیس اہلکار شہید ہوئے اور دس افراد زخمی ہوئے۔23مارچ کو پشاور پھر خون میں نہلا دیاگیا‘ خودکش حملہ آور نے مسجد میں خود کو اڑا دیا جس میں تیرہ افراد شہید ہوگئے۔ آٹھ جون کو سرکاری بس پر حملہ ہوا اور نو ملازمین جان سے چلے گئے۔ 21 جون کو مزار پر حملہ ہوا اور تین افراد جاں بحق ہوگئے۔اگست میں پھر پشاور میں بازار پر حملہ ہوا اور گیارہ افراد جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ستمبر میں بم ڈسپوزل کے اعلیٰ رکن بم دھاکے میں شہید ہوگئے۔ 20 اکتوبر کو پشاور میں دو دھماکے ہوئے تاہم جانی نقصان نہیں ہوا۔15دسمبر کو پشاور ائیرپورٹ کے پاس راکٹ حملہ ہوا جس میں پانچ افراد جان سے گئے۔ 22دسمبر کو بشیر بلور نے قصہ خوانی بازار کے دھماکے میں جام شہادت نوش کیا اور ان کے ساتھ آٹھ افراد مارے گئے۔2013 ء میں فروری میں حملے میں سینئر حکومتی اہلکار سمیت پانچ افراد دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔مارچ میں مسجد میں دھماکہ ہوا اور چار افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہوگئے۔18مارچ کو کورٹ روم پشاور میں دھماکہ ہواجہاں چار افراد جاں بحق اور47 زخمی ہوگئے۔ 29مارچ کوایف سی پر حملہ ہوا 12 افراد جان سے گئے اور 28افراد زخمی ہوئے۔ اپریل میں سات لوگ جان سے گئے جب دہشت گردوں نے بجلی کے دفتر پر حملہ کیا۔22 ستمبر کو پشاور میں دو خودکش حملے ہوئے جن میں 78 افراد جاں بحق ہوئے اور 130 زخمی ہوئے۔29 ستمبر 2013ء کار میں دھماکہ ہوا 19 افراد جان کی بازی ہار گئے۔29 ستمبر کو قصہ خوانی بازار میں دھماکہ ہوا اور 41افراد جان سے گئے ۔
2013 ء آیا تو ہمارے دشمن دشمنی کی ہر حد پار کرگئے اور ہمارے بچوں کو نشانہ بنایا۔ 149 افراد سانحہ اے پی ایس میں لقمۂ اجل بن گئے جن میں بچوں کی بڑی تعداد تھی۔پھر اس قوم نے بدلہ لینے کی ٹھان لی اور چن چن کر دہشت گردوں کو مارا گیا۔ ضربِ عضب ہوا اور اس کے بعد آپریشن ردالفساد تو دہشت گردی کا گراف نیچے آیا۔اس کے بعد جب پاک افغان سرحد پر باڑ لگنا شروع ہوئی توحالات ٹھیک ہوگئے اور زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں‘ مگر2022ء میں ایک بار پھر ملک میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔لاہور میں بی ایل اے کا حملہ‘ بلوچستان میں مجید بریگیڈ کا حملہ اور اب پشاور میں داعش کا حملہ اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ ان کے ہمارے ملک میں سہولت کار اور ہینڈلر ابھی موجودہیں۔دل پارہ پارہ ہوگیا جب نمازیوں کو خون میں لت پت دیکھا۔ایک پارہ چنار کا چھوٹا سا بچہ فہیم بھی شہیدہوگیا۔ آج اطلاع آئی کہ اس کے والد عتیق بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔سائرن ‘خون‘ لوگوں کی آہ و پکار میں ایک بار پھر اسی پشاور میں چلی گئی جہاں ہرطرف شہدا کی یادگار ہیں‘ جہاں ہرچوک میں ایک سانحے کی یاد ہے۔ایک بار پھر ہمارے قلب پر حملہ ہوا ہے۔ دل رو رہا ہے ‘نمازیوں کے چہرے نظروں کے سامنے سے نہیں ہٹ رہے ۔لواحقین کا نوحہ کیسے لکھوں‘ میرے پاس الفاظ نہیں۔ حکومت اس سانحے پر انکوائری کرائے کہ کیسے دہشت گرد مسجد تک پہنچا۔ حکومت ان کے آلہ کاروں اور ہینڈلرز کو گرفتار کرے۔ اس کے ساتھ شہدا کے ورثا اور زخمیوں کو مالی معاونت کرے۔ کون ہیں جو اس ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے ہیں‘ ان کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔