براہموس میزائل کے مِس فائر کے اثرات

دورِ جدید میں ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے دفاع کو مضبوط تر بنایا جائے۔ اسی لیے مختلف ممالک آلاتِ حرب کی طاقت سے اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھا کر رکھتے ہیں کہ ہم سے جنگ کا سوچنا بھی مت! پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تھا تو بھارت کی صورت میں اسے ایک ازلی دشمن مل گیا‘ جس نے اس کا وجود تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ہر لمحہ اسے نقصان پہنچانے والے اقدامات کرنے میں مصروف رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ابتدا ہی سے پاکستان نے اپنے دفاع پر خصوصی توجہ دی۔ میزائل‘ ٹینک‘ جہاز جیسے جدید آلاتِ حرب اپنے دفاع کا حصہ بنائے۔ 1971ء تک پاکستان ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتا رہا مگر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب اسے اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوا‘ تب اس نے اپنے ایٹمی پروگرام پر بھی خصوصی توجہ دی۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے اور اپنے آلاتِ حرب کو لے کر کسی جنگی جنون میں مبتلا نہیں۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہی ہوں‘ پاکستان نے شاہین تھری سطح سے سطح پر مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ یہ ایک کامیاب تجربہ تھا‘ میزائل نے اپنے مطلوبہ ہدف کو حاصل کیا۔ پاکستان اپنی میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو لے کر بہت حساس ہے‘ اس کے ساتھ تمام حساس تنصیبات کی حفاظت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
دوسری طرف بھارت میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ بھارت میں مگ جہاز اس طرح گرتے ہیں جیسے کاغذ کے جہاز ہوں۔ پھر اس کے فوجیوں میں خودکشی بہت عام ہوگئی ہے۔ بسا اوقات بھارتی فوجی اپنے ہی ساتھیوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ حالیہ کچھ سالوں میں بھارت میں نیوکلیائی حادثات بھی دیکھے گئے ہیں۔ وہاں ایٹم بم کی افزودگی میں استعمال ہونے والا یورینیم کھلے عام فروخت ہو رہا ہے۔ سمگلرز بلیک مارکیٹ میں یورینیم کروڑوں روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ یہ دھات کئی کلو کے حساب سے سمگلرز کے پاس موجود ہے۔ جب ان کا دل کرتا ہے‘ وہ اسے مارکیٹ میں لے آتے ہیں اور فروخت کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ بھارت میں یہ لین دین گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے لیکن یہ غیر قانونی یورینیم اب دیگر ممالک تک بھی سمگل ہورہا ہے۔ ابھی نیپال نے ایک بھارتی شہری کو گرفتار کیا ہے جس کے پاس سے یورینیم ملا۔ وہ 2اعشاریہ 8کلو گرام یورینیم نیپال سمگل کررہا تھا۔ اس نے یہ یورینیم نیپال میں بیچنا تھا؛ تاہم اس کو پہلے ہی پکڑ لیا گیا۔ سوچیں ذرا‘اگر یہ موادتخریب کاروں کے ہاتھ لگ جائے تو شاید پورا ملک تباہ کرنے کے لیے کافی ہو۔
اکتوبر 2021ء میں بھارتی ریاست جھارکنڈ میں چار کلو گرام یورینیم جرائم پیشہ افراد کے پاس سے برآمد کیا گیا تھا۔ اس سے قبل مئی 2021ء میں مہاراشٹر میں 7 کلو یورینیم سمگلروں سے پکڑا گیا تھا۔ یہ تو وہ مواد ہے جو مل گیا یا پکڑا گیا‘ اب تک کتنا فروخت ہو چکا ہے‘ کون کون خرید چکا ہے اور کن مقاصد میں استعمال ہو رہا ہے‘ یا ہو سکتا ہے‘ یہ وہ سوالات ہیں جو دنیا بھر کے امن کو لاحق خدشات میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں۔ بھارت میں دہشت گردوں‘ ہندوتوا کے پیروکاروں، منظم ایٹمی میٹریل سمگلنگ والوں کے پاس کتنا ریڈیو ایکٹو مواد موجود ہے اور یہ کتنی بڑی تباہی لاسکتا ہے‘ اس پر آئی اے ای اے اور ایف اے ٹی ایف کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ اسی طرح‘ ایسے ملک میں جہاں فوجی ذہنی کشیدگی کا شکار ہیں اور اپنے ہی ساتھیوں کو مار رہے ہیں‘ وہاں حساس تنصیبات کیسے محفوظ ہوں گی؟ بھارت کا اسلحہ‘ اس کے حساس ادارے اور اس کے میزائل محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہیں۔ اگر یہ محفوظ ہوتے تو براہموس میزائل پاکستان کی طرف مِس فائر نہیں ہوتا۔ براہموس روسی ٹیکنالوجی کا حامل میزائل ہے۔ یہ میزائل تین اقسام میں موجود ہے۔ یہ فضا سے سمندر‘ زمین سے سمندر یا سمند سے سمندر میں مار کرتا ہے۔اس میزائل کو لے کر بھارت نے بہت دعوے کیے لیکن ان دعووں کی قلعی اس وقت کھل گئی جب یہ میزائل پاکستان کی طرف مس فائر ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میزائل سسٹم میں خامیاں موجود ہیں یا میزائل سسٹم پر انتہاپسندوں کا قبضہ ہے۔ کچھ تو ہوا ہے جس کی پردہ داری ہے۔ 9 مارچ کو براہموس میزائل پاکستان میں میاں چنوں کے علاقے میں گرا جس سے کچھ مکانات شہری تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ پاکستان نے بھارت سے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ اتنی بڑی غلطی کیسے ہوئی؟ یہ ایک میزائل دونوں ایٹمی ممالک کے مابین ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا تھا۔ اگر اس پر وار ہیڈ لگا ہوتا تو میاں چنوں تو کیا‘ پاکستان اور بھارت میں بھی جتنا جانی و مالی نقصان ہوتا‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے میزائل ہر وقت ''ریڈی ٹو فائر‘‘ حالت میں رکھے جاتے ہیں؟ یہ کوئی پٹاخہ تو تھا نہیں کہ ذرا سی آگ دکھانے پر چل گیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کا میزائل سسٹم ان شرلی پٹاخوں سے بھی کم تر ہے جو دیوالی اور شب برأت پر چلائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے احتجاج کے بعد بالآخر بھارت نے اپنی خاموشی توڑی اور کہا تکنیکی خرابی کی وجہ سے میزائل فائر ہوا‘ جس کے پاکستان پر گرنے پر افسوس ہے۔اس کیلئے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ یہ عذر اور افسوس قطعی ناکافی ہیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ مل کر کمیٹی بناتا‘ پھر تحقیقات ہوتیں کہ کس طرح میزائل فائر ہوا اور کیسے پاکستان میں جا گرا‘ کس نے اس کو لانچ کیا‘ اس کا مقصد کیا تھا۔اپنے لانچ ہونے کے بعد براہموس میزائل تین منٹ تک بھارت کی ایئر سپیس میں رہا اور تین منٹ 44 سیکنڈ تک پاکستان کی ایئر سپیس میں چلتا رہا اور پھر گر کرتباہ ہوا۔ یہ 40 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا اور اس وقت ایئر سپیس میں متعدد کمرشل فلائٹس موجود تھیں۔ اگر یہ میزائل ان فلائٹس کو لگ جاتا تو بدترین فضائی حادثہ پیش آ سکتا تھا۔ پاکستان نے بھارت کے ناظم الامور کو بلا کر شدید احتجاج کیا کہ یہ بین الاقوامی سرحدی قوانین اور ایوی ایشن سیفٹی کی خلاف ورزی ہے۔ جس وقت یہ میزائل مس فائر ہوا‘ اسی وقت ہاٹ لائن پر پاکستان کو کیوں نہیں مطلع کیا گیا۔ کمرشل فلائٹس کیلئے نوٹس کیوں نہیں جاری کیا گیا۔بھارت اس تمام 'حادثے‘ کا ملبہ ایک جونیئر ایئر فورس افسر پر ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ تحقیقات میں بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ بھارت کا میزائل سسٹم یا تو محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے یاپھر اس میں فنی خرابیاں موجود ہیں۔ ابھی چند روز پہلے 'حادثاتی طور پر‘ مقبوضہ کشمیر کی ایک مسجد پر گولہ بارود داغ دیا گیا۔ یہ ہو کیا رہا ہے؟
فلپائن نے چند ماہ پہلے بھارت کے ساتھ براہموس میزائلوں کی 375 ملین ڈالر کی ڈیل فائنل کی تھی۔ وہ بھی اب تشویش کا اظہار کررہا ہے‘ اس نے بھارتی سفیر کو طلب کر کے سوال کیا ہے کہ کیا ان میزائلوں میں کوئی فنی خرابی ہے؟ اس نے بھارت سے وضاحت طلب کی ہے کہ بتایا جائے کہ ایسا کیسے ہوا؟ اب وہ اس میزائل کو لے کر تذبذب کا شکار ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ ڈیل کھٹائی کا شکار ہو جائے یہ بھارت کی اسلحہ سازی کی اب تک کی سب سے بڑی ڈیل قرار دی جا رہی تھی جو ہوا میں معلق ہو چکی ہے۔ پاکستان کے حکام کو فلپائن کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے کہ بھارت کا میزائل سسٹم ٹھیک نہیں اور نہ ہی یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح وہاں کا ایٹمی پروگرام بھی غیر محفوظ ہے اور یورینیم کھلے عام بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ بھارت ہر چھوٹی بڑی چیز کا الزام بلا سوچے سمجھے پاکستان پر لگا دیتا ہے‘ ہم اس کے میزائل کے مس فائر پر اب تک کیوں چپ ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہر سطح پر آواز اٹھائیں اور بھارت کی مجرمانہ حرکتوں کو بے نقاب کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں