جنگلات کو آگ مت لگائیں!

آج کل ٹک ٹاک پر ایک گانا بہت مشہور ہے‘ ہر کوئی اس پر وڈیو بنارہا ہے‘ کچھ افراد اس کو خود گانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ گانا ہے: اَگّ لاواں مجبوری نوں‘ آن جان دی پسوڑی نوں۔ یہ گانا ایک مشروب ساز کمپنی کے میوزک سٹوڈیو سے لانچ کیا گیا ہے جہاں سے اچھی موسیقی تخلیق ہو رہی ہے۔دنیا بھر میں یہ گانے پسند کیے جارہے ہیں؛ تاہم پسوڑی گانے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ یہ گانا علی سیٹھی اور نئی گلوکارہ شے گل نے گایا ہے۔ گانا اچھا ہے لیکن اس میں مجبوریوں کو آگ لگانے کو کہا گیا ہے‘ جنگلات کو نہیں، مگر ہمارے ہاں ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک خاتون ٹک ٹاکر کی ایک وڈیو زیرِ گردش ہے‘ وہ ایک حسین سفید لباس میں اپنے لمبے گھنے بال لہراتے ہوئے آتی ہے۔ بیک گرائونڈ میں یہ گانا چل رہا ہے: اَگ لاوں مجبوری نوں اور پیچھے جنگل میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ٹک ٹاک بنانے کے لیے اس نے جنگل میں آگ لگائی۔ یہ وڈیو اس کے انسٹاگرام اورٹک ٹاک اکائونٹس سے شیئر کی گئی تھی۔ وہ ٹاک ٹاکر ایک سیلون اور کپڑوں کے برانڈز چلاتی ہے‘ لاکھوں افراد اس کے مداح اور فالورز ہیں۔ اس کے خلاف تھانہ کوہسارمیں شعبہ ماحولیات سی ڈی اے کی مدعیت میں درخواست جمع کرائی جاچکی ہے۔ حکام کے مطابق ٹک ٹاکر نے اپنی وڈیو بنانے کیلئے آگ لگائی جس کی وجہ سے ماحولیات کو نقصان پہنچا۔ گزشتہ چند دنوں میں مارگلہ ہلز میں آتشزدگی کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں جن سے ایک وسیع رقبے پر پودوں،گھاس اور چرند پرند کو نقصان پہنچا ہے۔
ٹک ٹاکر نے اس کے جواب میں ایک وڈیو اَپ لوڈ کی ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنگل میں آگ پہلے سے لگی ہوئی تھی اور وہ آگ دیکھ کر شوٹ کرنے پہنچ گئی؛ تاہم یہ وڈیو اس نے اب اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے ڈیلیٹ کردی ہے۔ اس کے خلاف عوام میں غم و غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ لوگ اس کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس نے محض اپنے وڈیو شوٹ کے لیے جنگل میں آگ لگائی جس سے ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا‘ ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مارگلہ ہلز کی ایک اور وڈیو بھی منظرِ عام پر آئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ چھوٹے بچے جنگل میں آگ لگا کر ہنس رہے اور وڈیو بنارہے ہیں۔ یہ کم عمر لڑکے ہیں‘ ان کی بھی شناخت کرکے ان کو سزا دی جانی چاہیے۔ نوعمر لڑکے جیل میں تو نہیں جا سکتے لیکن ان لڑکوں سے کمیونٹی سروس کرائی جانی چاہئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس نے ایبٹ آباد میں ایسی ہی ایک وڈیو پر ایکشن لیتے ہوئے ایک نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔ ملک کے باقی صوبوں سے بھی ایسی کچھ وڈیوز سامنے آئی ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ نئی نسل لائکس کی بھوک میں کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ہے۔ پہاڑوں پر‘ جنگلات کو آگ لگانا کون سا فن یا ایڈونچر ہے‘ یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔کسی کا ٹک ٹاک‘ کسی کا بون فائر، کسی کا باربی کیو‘ کسی کا جلتا سگریٹ‘ کسی کی چائے پکانے کی کوشش یا کسی کی شرارت پورے جنگل کو جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ گرمی کے موسم میں جنگلات میں آگ لگنے کا زیادہ چانس ہوتا ہے‘ اس لیے سیاحوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ زیادہ تر آگ لگنے کے واقعات سگریٹ اور باربی کیو کی وجہ سے ہوتے ہیں‘ اس لیے جنگلات میں یہ سب مت کریں۔ کھانا ہوٹل میں کھائیں‘ خود سے جنگلات میں کھانا بنانے کی کوشش مت کریں۔ کچھ شوقین سیاح لڑکے‘ لڑکیاں پہاڑوں پر یا جنگلات میں گھاس پھونس اور لکڑیاں جمع کرکے چائے بنانے لگ جاتے ہیں‘ اس سے بھی آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ گھر سے تھرماس میں چائے لے کر جائیں یا راستے میں کسی کھوکھے سے چائے پی لیں‘ جنگل میں یہ والے ایڈونچر مت کریں۔ جنگل میں آگ لگنے سے نہ صرف درخت ‘پھول‘ پودے تباہ ہوتے ہیں بلکہ قیمتی جڑی بوٹیوں‘ حشرات الارض‘ جانوروں اور پرندوں کی نسلوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آگ کی وجہ سے ماحولیات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا ہے اور ماحول میں آلودگی پھیلتی ہے جبکہ علاقے کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس جگہ آگ لگتی ہے وہاں زمین کی زرخیزی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
مارگلہ ہلز ہجرتی پرندوں کا مسکن ہے‘ اگر وہاں آگ لگے تو پرندوں کی افزائش متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے سیاحوں کو پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ کسی حال میں ایسی کوئی تفریح نہیں کریں گے جس میں آگ لگائی جائے۔ مارگلہ ہلز پر بہت سے چھوٹے‘ بڑے ہوٹلز موجود ہیں‘ وہاں سے کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ اگر گھر کا کھانا ساتھ لے کرجانا ہے تو ایسی چیزیں لے کر جائیں جنہیں پکانے یا گرم کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے؛ جیسے سینڈوچ‘ شوارما وغیرہ۔ اس کے علاوہ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد سارا کچرا جمع کریں اور اپنے ساتھ واپس لے کر آئیں‘ یا وہاں کچرا دان موجود ہیں تو کچرا ان میں ڈالیں۔ پہاڑوں میں‘ جنگلات وغیرہ میں کچرا مت پھینکیں اسی طرح جلتی ہوئی ماچس کی تیلی یا سگریٹ پھینکنے سے بھی اجتناب کریں کیونکہ آپ کی ایک غلطی پورے جنگل میں آگ لگانے کا سبب بن سکتی ہے۔ سیر کے دوران جنگی حیات سے دور رہیں اور ان کو ایسی چیزیں مت دیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اس وقت مارگلہ ہلز اور مری کے پاس محدود پیمانے پر میں نے خود آگ لگی ہوئی دیکھی ہے۔انتظامیہ تو کوشش کرکے یہ آگ بجھا دیتی ہے لیکن سارا فرض انتظامیہ کا نہیں ہے ‘ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ احتیاط کریں۔ یہ جنگلات ہمارا اثاثہ ہیں‘ ان سے ہمیں بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ماحول ٹھنڈا رہتا ہے‘ آکسیجن کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہیں‘ یہ ہمیں پھل‘ نباتات اور جڑی بوٹیاں مہیا کرتے ہیں۔ پھولوں‘ پودوں‘ جانوروں‘ پرندوں اور حشرات الارض کی افزائش یہاں ہوتی ہے۔ اگر ہم نے ان کا خیال نہ کیا تو اسی طرح گرمی کا عذاب جھیلتے رہیں گے۔
اس وقت ہر شخص گرمی سے متاثر ہے‘ ہر کوئی شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ کی شکایت کررہا ہے۔ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی گاڑی کو سایہ دار درخت کے نیچے لگائیں لیکن کوئی بھی درخت لگانے یا ان کی حفاظت کرنے کو تیار نہیں۔ ہر سال نئی سڑکوں کی تعمیر کے نام پر ہزاروں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔ پہلے لاہور اور کراچی کو درختوں سے محروم کیا گیا‘ اب 'بابوکریسی‘ اسلام آباد کا وہی حال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک نیا ترقیاتی منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس سے اسلام آباد میں درختوں کا قتلِ عام ہو گا۔ اگلے کسی کالم میں اس کی ساری تفصیلات فراہم کروں گی۔ ہمیں ایسے تعمیراتی منصوبے نہیں چاہئیں‘ ہمیں درخت چاہئیں۔ اس وقت درجہ حرارت بہت زیادہ ہوگیا ہے‘ اس لیے ہمیں پرانے درختوں کی حفاظت کرنا ہوگی اور نئے درخت لگانا ہوں گے۔ایک درخت کاٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں لیکن ایک پودے کو درخت بننے میں کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ اس لیے میں بار بار کہتی ہوں کہ اگر ماحول کو صاف رکھنا ہے‘ ٹھنڈا رکھنا ہے تو درخت لگائے جائیں؛ تاہم ماحولیات کا تحفظ یہاں کسی کی ترجیح ہی نہیں‘ کوئی جنگلات کو آگ لگا رہا ہے تو کوئی درختوں کو کاٹ رہا ہے۔ ایسے اقدامات درجہ حرارت اورہیٹ ویو میں مزید اضافہ کریں گے۔ مجھے آج بھی یادہے کہ اسلام آباد میں مئی اتنا گرم نہیں ہوتا تھا‘ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37ڈگری تک جاتا تھا اور اس بار درجہ حرارت 42ڈگری تک چلا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام آباد میں بے دریغ درخت کاٹے گئے ہیں‘ یہاں آبادی اور ٹریفک میں بے ہنگم اضافہ ہوا ہے اس لیے درجہ حرارت بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ماحولیات پر توجہ دیں اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کریں۔ جن افراد کی جنگلات کو آگ لگانے کی وڈیوز آئی ہیں‘ ان سے کہا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں پورا سال درخت لگائیں اور ان کی حفاظت کریں‘ اگر ایسا نہ ہو تو ان کوبھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ جنگلات انسانی بقا کے لیے لازم ہیں‘ ہمیں ان کے رقبے کو وسیع کرنا ہوگا اور زیادہ سے زیادہ شجرکاری کرنا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں