پاکستان میں اس وقت ایسی گرمی پڑرہی ہے کہ شاید اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ حبس اور لُونے ہر کسی کو بے حال کردیا ہے۔ چرند‘ پرند اور انسان‘ سبھی گرمی سے نڈھال نظر آرہے ہیں۔ رہی سہی کسربدترین لوڈشیڈنگ نے پوری کردی ہے۔ اب تو ہم سب گزشتہ کئی برسوں سے لوڈشیڈنگ کو بھول چکے تھے‘ جنریٹرز اور یو پی ایس گرد تلے کہیں دب گئے تھے۔ اب جب دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دوبارہ شروع ہوئی ہے تو الیکٹریشنز کی چاندی ہوگئی ہے اور عوام کا دلیوالیہ نکل گیا ہے۔ خیر یہ مشینیں بھی کب تک ساتھ دیتی ہیں‘ جس قدر طویل لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے‘ چند ہی گھنٹوں میں یو پی ایس جواب دے جاتے ہیں اور ہم اندھیرے اور گرمی میں مچھروں کے رحم و کرم پر چلے جاتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ جو 'ورک فرام ہوم‘ کرتے ہیں‘ ان کے لیے تو اور بھی مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں۔ اگر ٹی وی بند ہوجائے‘ انٹرنیٹ بند ہوجائے تو سارا کام رک جاتا ہے۔ پھر فون پر مہنگا ڈیٹا کنکشن کھول کر کام کرنا پڑتا ہے اور بھاری رقم موبائل کمپنیوں کے اکائونٹ میں چلی جاتی ہے۔ ہم عوام کا ہے کون؟ صرف اللہ تعالیٰ کا سہارا ہے۔ زندگی تو ٹیکس دیتے ہوئے ہی گزر جاتی ہے اور سہولتوں کے نام پر ہمیں صرف وعدے اور میٹھی گولیاں ملتی ہیں۔
سیاسی اشرافیہ کے بچے جس عمر میں فلیٹس‘ فیکٹریوں کے مالک بن جاتے ہیں‘ ہم اس عمر میں ریاضی کے تھیورم (Theorem) سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر پاکستانی اشرافیہ اتنی ہی ذہین ہے تو اپنے بزنس والا فارمولا پاکستان کی معیشت پر استعمال کیوں نہیں کرتی؟ ان کے نجی بزنس دن دگنی‘ رات چوگنی ترقی کررہے ہیں‘ ان کے بچے لڑکپن میں جائیدادیں خرید رہے ہیں‘ ان کی دولت کا گراف اوپر سے اوپر جا رہا ہے مگر عوام غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔ اب مہنگائی کا ایک طوفان ان پر مسلط کردیا گیا ہے جو ان کی بساط سے بھی باہر ہے۔ اب عوام کو بیک وقت بہت سے محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔ سب سے پہلے مہنگائی ان کو ستا رہی ہے‘ پھر لوڈشیڈنگ‘ بھاری یوٹیلیٹی بلز، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافہ اور اشیائے خور ونوش کی روز بروز بڑھتی قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔
ان سب مسائل کا حل تو ریاست نے نکالنا ہے لیکن موسم کی شدت کو کم کرنے کے لیے ہم عوام بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہیٹ ویو اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے ہم سب کو درخت لگانا ہوں گے اور بہت درخت لگانا ہوں گے۔درخت درجہ حرارت کم کرنے کے کام آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے فائدے ہیں۔ یہ ماحول کو صاف رکھتے ہیں، ہمیں پھل دیتے ہیں۔ ان کا تنا‘ چھال‘ شاخیں‘ پتے‘ جڑیں‘ غرض ہر چیز انسانوں کے کام آتی ہے مگر ہمارے ملک میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ درخت کاٹے جارہے ہیں اور ہر روز کاٹے جارہے ہیں۔ ایک پودے کو درخت بننے میں کئی سال لگتے ہیں مگر اس کو کاٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ یہ زیادتی سرکاری سطح پر بھی ہورہی ہے اور عوام بھی اس کام میں پیش پیش ہیں۔ ڈی چوک میں شیلنگ کے دوران کسی نے افواہ پھیلا دی کہ کسی چیز کو آگ لگا دو تو آنسو گیس کااثر زائل ہوجائے گا‘ لوگوں کو کچھ اور نہیں ملا تو انہوں نے درختوں کو آگ لگا دی۔ اسی طرح اوکاڑہ میں مسلم لیگ نواز کے جلسے میں پنڈال کو بڑا کرنے کے لیے گرائونڈ میں موجود درخت کاٹ دیے گئے۔ یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں اس قیمتی قدرتی اثاثے کی قدر نہیں کی جاتی۔ اگر پڑھے لکھے لوگوں کا اس ملک میں یہ حال ہے تو کیا امید رکھیں ان لوگوں سے جو ناخواندہ ہیں۔ ایک ٹک ٹاکر جنگل میں آگ لگا کر ٹک ٹاک بنا رہی تھی تو دوسری طرف ایک نوجوان مارگلہ ہلز پر آگ لگا کر وڈیو ریکارڈ کر رہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ''آگ لگانا‘‘ ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ ایک دوسرے کی زندگیوں میںبھی ہم آگ لگا رہے ہیں اور درختوں‘ جنگلات کو بھی جلا رہے ہیں۔ اب ایک اور واردات ہونے جارہی ہے جس سے ماحول کو مزید نقصان پہنچے گا۔
اسلام آباد میں 10 ایونیو بننے جارہی ہے جس کی زد میں بہت سی گرین بیلٹس اور درخت آجائیں گے۔ اس کے ساتھ مارگلہ ایونیو کے تحت بھی مزید درخت کاٹ دیے جائیں گے۔ جی ٹی روڈ پھر ڈی 12 ،شاہ اللہ دتہ اور مارگلہ سے گزرتے ہوئے یہ روڈ بارہ کہو تک جائے گی۔اس میں مارگلہ نیشنل پارک کی حدود بھی آئیں گی۔ ہمیں اتنی سڑکوں کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا اسلام آباد میں رہائش اور پانی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے جو ہمیں سڑکوں کاجنگل چاہئے؟ 10 ایونیو آئی جے پرنسپل روڈ سے سری نگر ہائی وے کے ساتھ جی ٹین اور ایف ٹین کی طرف تعمیر ہوگی اور اس کی تعمیر میں ایک ہزار سے زائد درخت کاٹ دیے جائیں گے جن کی مارکنگ شروع کردی گئی ہے۔ اس سڑک کی زد میں چھ پارکس اور کھیل کے میدان بھی آرہے ہیں۔ ڈھائی سو کے قریب پائن ٹری کاٹے جائیں گے‘ ایف نائن پارک کا کچھ حصہ بھی اس میں آئے گا۔ اس ایونیو کی تعمیر میں کچی بستی کے گھر بھی متاثر ہوں گے‘ اس کے ساتھ نرسریاں‘ قبرستان، جی نائن کا سستا بازار اور دو کرکٹ گرائونڈز اور ایک فٹ بال میدان بھی اس کی زد میں آرہے ہیں۔
ایک طرف مارگلہ ایونیو کے لیے درخت کاٹے جائیں گے تو دوسری طرف 10 ایونیو کے لیے درختوں کا قتل عام ہوگا۔ اس اقدام سے اسلام آباد کا درجہ حرارت مزید بڑھ جائے گا۔ مجھے تو ابھی تک یہی سمجھ نہیں آرہا کہ 10 ایونیو کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ میں خود اسلام آباد کی رہائشی ہوں اور اس سارے ایریا کو بخوبی جانتی ہوں۔ کم ازکم ایف ٹین اور جی ٹین میں کسی نئی سڑک کی ضرورت نہیں۔ ایچ نائن میں رمشا کالونی‘ جہاں مسیحی افراد کثیر تعداد میں آباد ہیں‘ وہ کہاں جائیں گے؟ اس پروجیکٹ کے زد میں 1400 گھر آرہے ہیں جن میں زیادہ تر غریب مسیحی آباد ہیں۔ مجھے ایک ہزار سے زائد درختوں کے کاٹے جانے اور 1400 خاندانوںکے بے گھر ہونے کادرد محسوس ہورہا ہے۔ پھر جی نائن‘ جی ٹین سے پارکس‘ گرائونڈز‘ واکنگ ٹریکس ‘ویمن پارک اور واٹر پلانٹ ختم ہوجائیں گے۔ ایک بار حکومت سوچ لے کہ کیا کرنا ہے۔ عوام کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور صاف پانی چاہیے۔ اس کے بعد پارکس‘ سبزہ اور خوشگوار موسم چاہیے۔ ایسے ہی اسلام آباد سے سارے درخت کاٹ دیے گئے تو اسلام آباد اور سبی کے درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اس وقت بھی طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام تنگ ہیں‘ لوگ نزدیکی پارکس میں درختوں کی چھائوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے پارکوں میں کھیل لیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں رہیں گے تو عوام کہاں جائیں گے؟ اس وقت پانی کی قلت‘ گرمی اور لوڈشیڈنگ نے عوام کا برا حال کردیا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے‘ اوپر سے اسلام آباد کا حسن بھی اس سے چھینا جا رہا ہے۔ قومیں سڑکوں کی تعمیر سے ترقی نہیں کرتیں کہ فلاں جگہ فلائی اوور بنالینے سے شہر جدید ہوجائے گا‘ ایسا نہیں ہوتا۔ جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں‘ لائٹ گئی ہوئی ہے، یوپی ایس‘ انٹرنیٹ اور کیبل بندہوچکے ہیں اور میں خود پسینے میں شرابور ہوں۔ایسے ماحول میں کیسے ترقی ہو سکتی ہے؟ بجلی ہی نہیں ہو گی تو انڈسٹری کیسے چلے گی؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام آبادسمیت پورے پاکستان میں وسیع پیمانے پر شجر کاری کی جائے، بڑے درختوں کو کاٹا نہ جائے بلکہ اگر کوئی ضروری تعمیراتی کام ہو تو انہیں کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔ جتنا ہوسکے نئے درخت لگائیں۔ پائن ٹری ماحول کو ٹھنڈا کرتے ہیں‘ ان کو زیادہ سے زیادہ لگایا جانا چاہئے تاکہ ہیٹ ویو کا دیرپا حل نکالا جا سکے۔ تمام شہروں میں ماحول کے موافق درخت لگائے جائیں۔ بلاوجہ شہروں کو کنکریٹ کا جنگل مت بنائیں۔ ہمیں پھولوں‘ پودوں‘ درختوں اور جنگلات کی بھی ضرورت ہے۔ پرندوں کے گانے کانوں میں رس گھولیں‘ شور اور دھویں سے پاک ماحول ہو اور ہم بیماریوں اور آلودگی سے محفوظ رہیں۔ جولائی‘ اگست شجرکاری کیلئے بہترین وقت ہے‘ اس لیے درخت لگائیں اور گرمی کو دور بھگائیں۔