مون سون رین ایمرجنسی

اس وقت پورے ملک میں مون سون جاری ہے اور شدید بارشوں کے سلسلے نے نظامِ زندگی کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔ ملک بھر میں بہت سے نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے ہیں اور سڑکوں پر سیلاب کی سی صورتحال ہے۔ بہت سے لوگوں کے گھروں‘ دکانوں اور تجارتی مراکز میں پانی داخل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ طویل لوڈشیڈنگ نے بھی شہریوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ بجلی کی آنکھ مچولی سے برقی آلات جل رہے ہیں تو گھریلو کاموں میں بھی تعطل آیا ہوا ہے۔ گاڑیوں میں پانی بھرنے کی وجہ سے وہ بھی خراب ہوکر بند پڑی ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے پانی نکالنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ نکاسیٔ آب کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ یہ اب ہر سال کی روایت بن چکی ہے اور شاید آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ عوام شاید کسی کی ترجیح میں ہیں ہی نہیں۔ بس سب کو اپنی اپنی کرسی کی پڑی ہوئی ہے اور اَنائوں کی جنگ چل رہی ہے۔ عوام ہر طرف سے پس رہے ہیں۔ بارشوں کا سلسلہ بہت شدید ہے اور گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ اس دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ڈوبنے اور کرنٹ لگنے کے بھی درجنوں واقعات پیش آئے ہیں۔ چھتیں گرنے کے حادثات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے لوگ جلدی امراض اور ہیضے کی وبا کا شکار بھی ہورہے ہیں۔ بارش سیلاب کا روپ اختیار کرکے تباہی مچاتی جا رہی ہے۔ اربن فلڈنگ ہمیشہ زیادہ تباہی لاتی ہے۔ بارش کی وجہ سے جوسیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ اس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، زمین کا کٹائو ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عمارتوں‘ شاہراہوں اور پلوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ پہاڑوں میں لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ گدلا پانی صاف پانی میں مکس ہو جاتا ہے جس سے آبی مخلوق بھی متاثر ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ساون آتا تھا تو باغوں میں جھولے ڈال دیے جاتے تھے‘ مزیدار پکوان تیار کیے جاتے تھے‘ خوشی کے گیت گائے جاتے تھے۔ ایسا لگتا ہے وہ صدیوں پہلے کی باتیں تھیں۔ اب ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ شہری بالٹیاں اٹھا کر پانی نکال رہے ہوتے ہیں۔ کوئی بجلی کی بندش کا جگاڑ کررہا ہوتا ہے۔ کوئی اپنی گاڑی کو پانی کی ریلے سے بچا رہا ہوتا ہے تو کوئی پہلی منزل پر سامان منتقل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس سب میں ساون گزر جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اب بارش سے ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ اس دوران ٹریفک حادثات‘ کرنٹ لگنے اور ڈوب کر جاں بحق ہونے کے واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بارش‘ طوفان‘ سیلاب یا دیگر قدرتی آفات پر ہمارا کچھ اختیار نہیں ہے؛ تاہم کچھ پیشگی انتظامات کرکے ہم ان کا خطرہ کم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاسی اور انتظامی سطح پر صرف باتیں ہوتی ہیں اور جب بارشیں شروع ہوتی ہیں تو تمام دعووں کو ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورا ملک بارش میں ڈوبا ہوا ہے اور رین ایمرجنسی قائم کرنے کے بجائے وفاقی حکومت پنجاب حکومت بچانے میں مصروف ہے۔ سندھ بالخصوص پورا کراچی ڈوبا ہوا ہے اور صوبائی حکومت سیاسی جھمیلوں میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ کے پی اور بلوچستان کی حکومتیں بھی اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ عوام بارش میں تڑپ رہے ہیں‘ کسی کا گھر تباہ ہوا تو کسی کی دکان۔ کسی کی گاڑی خراب ہوئی تو کسی کی موٹر سائیکل‘ لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ کسی کا کوئی پیارا ڈوب گیا تو کسی کو کرنٹ لگ گیا لیکن امداد تو دور کی بات‘ حکومتیں اس طرف دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کر رہیں۔ سب کے لیے ضروری یہ ہے کہ پنجاب کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے گا۔
وفاقی حکومت اور پنجاب کی انتظامیہ اس وقت حکومت سازی کے چکر میں الجھی ہوئی ہیں اور عوام کی کوئی پروا ہی نہیں۔ سوموار کو کراچی میں 24 گھٹنے مسلسل بارش ہوتی رہی۔ اس وقت بھی اکثر سڑکیں دریا کا منظر پیش کررہی ہیں۔ لوگ بنا بجلی کے گھروں میں قید ہیں۔ ان کے گھروں کی نچلی منزل پانی سے بھر چکی ہے۔ بیشتر علاقوں میں برقی آلات خراب ہوگئے ہیں مگر حکومت کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں۔ کچھ سڑکیں دریا کا منظر پیش کر رہی ہیں تو کوئی علاقہ کچرے اور کیچڑ سے بھر گیا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی میں موتی بازار پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ تاجروں کا کروڑوں کا نقصان ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے اردو بازار میں آگ لگنے سے تاجروں کے کروڑوں کے اثاثے جل گئے تھے لیکن ان کی کوئی امداد نہیں کی گئی۔ اب رہی سہی کسر پانی نے پوری کردی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی ہم خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں تو کبھی بارشوں میں ڈوب جاتے ہیں؟ ملک میں چھوٹے ڈیمز نہیں ہیں‘ اس لیے ہم پانی سٹور نہیں کر پاتے۔ یہ قیمتی پانی بحیرہ عرب میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ بہت سے ندی‘ نالوں اور دریائوں کی گزرگاہوں پر عمارتیں بن گئی ہیں۔ پانی کو جگہ نہیں ملتی اور وہ آبادیوں میں گھس جاتا ہے۔ نالوں کے اوپر رہائشی منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ندی‘ نالوں اور گٹروں میں کچرا پھینکا جاتا ہے اس لیے بھی نکاسیٔ آب کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ جب انتظامیہ مون سون کی تیاری نہیں کرے گی تو عوام کا یہی حال ہوگا۔
ہم ایک ایٹمی ریاست ہیں لیکن ہمارے پاس نکاسیٔ آب کا مؤثر نظام نہیں ہے۔ ڈیمز نہیں ہیں‘ چھوٹے آبی ذخائر نہیں ہیں۔ شہروں میں گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے پانی کا بہائو رک جاتا ہے۔ اب ہر طرف سیلابی پانی ہے اور سیاسی قیادت غائب ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے علاوہ میں نے کسی صوبے میں اعلیٰ قیادت کو سڑکوں پر نہیں دیکھا۔ باقی وزرائے اعلیٰ کہاں ہیں۔ عوام کی داد رسی کون کرے گا؟ اسلام آباد میں سینی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ بارش میں بھی کام کررہا تھا‘ نالوں اور گٹروں کو صاف کررہا تھا اور چوبیس گھنٹے کی بارش کے باوجود شہر کسی ناخوشگوار حادثے سے محفوظ رہا۔ جس طرح سی ڈی اے اور ایم سی آئی کام کرتے ہیں‘ باقی شہروں میں انتظامیہ کام کیوں نہیں کرتی؟ اب پانی کیچڑ کی شکل میں گھروں‘ دکانوں کے باہر موجود ہے۔ گھروں میں پانی گھس جانے سے مالی نقصان تو ہوا ہی ہے لیکن اب اسہال‘ ہیضہ اور جلدی امراض بھی پھیل جائیں گے۔ صرف کراچی اور راولپنڈی نہیں‘ بلوچستان اور کے پی میں بھی بارشوں سے بہت نقصان ہوا ہے۔ بارش کے حوالے سے ہر پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم ٹویٹر اور فیس بک پر سب اچھا کی گردان میں مصروف ہے۔ حقیقت میں کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ بس فوٹو شوٹس ہوتے ہیں‘ بیان جاری ہوتے ہیں اور سب چین کی نیند سونے لگتے ہیں۔ شہر کنکریٹ کے جنگل بن گئے ہیں‘ درخت کاٹ دیے گئے ہیں‘ نکاسیٔ آب کا کوئی نیا نظام نہیں۔ ندی‘ نالوں پر آبادیاں بن جائیں تو پانی کہاں جائے گا؟ نالوں میں اتنا کچرا ہے کہ وہ کچرا کنڈی لگنے لگتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کو چاہیے کہ بار بار موسم کا حال عوام کو بتائے تاکہ لوگ موسم برسات میں غیر ضروری سفر نہ کریں۔ اس طرح کے موسم میں عام تعطیلات ہونی چاہئیں اور تفریح گاہیں بند کردینی چاہئیں تاکہ عوام غیر ضروری گھروں سے نہ نکلیں۔ ندی نالے صاف کیے جائیں اور ان کے اردگرد سے ناجائز تجاوزات ختم کی جائیں۔ آج تک کراچی کے گجر نالے اور پنڈی کے نالہ لئی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ شاید یہ کسی کی ترجیح ہی نہیں۔ عوام کو چاہیے کہ موسم برسات میں برقی آلات اور کھمبوں سے دور رہیں۔ اپنے گھر کے پرنالوں کی صفائی کرائیں اور اگر پانی آنے کا خدشہ ہو تو گرائونڈ فلور سے قیمتی اشیا پہلی منزل پر شفٹ کر لیں۔ ادویات اور اشیائے خورونوش کا ذخیرہ کر لیں اور خود کو پانی کی پھسلن سے بھی بچائیں۔ بارش کے دوران اکثر بل بورڈز اور درخت گر جاتے ہیں لہٰذا اس دوران سفر سے گریز کریں۔ حکومت اگر نئی نالیاں‘ گٹر‘ نکاسیٔ آب کا نظام اور گرین بیلٹس نہیں بنا سکتی تو کم از کم نالوں کو ہی صاف کرا دے۔ وہاں سے آبادیوں کو کسی اور جگہ منتقل کر دے۔ اس وقت ملک کے کچھ حصوں میں پانی کھڑا ہے جبکہ بارش بھی مسلسل ہورہی ہے۔ آدھے ملک میں شہری متواتر بارش کی وجہ سے بجلی سے محروم ہیں مگر حکمران اتحاد کو سیاست ہی سے فرصت نہیں۔ عوام کی کسی کو پروا نہیں۔ این ڈی ایم اے کہاں ہے‘ عوام کی مدد کون کرے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں