میں نے ایک جمہوری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میر ے والدین انتخابی عمل میں ہمیں ہمیشہ ساتھ لے کرجاتے تاکہ ہمیں جمہوریت اور انتخابی عمل کا کچھ علم ہو سکے۔کچھ مرحوم بھٹو کے جیالے تو کچھ مرحوم صدر ضیاء الحق کو اپنا لیڈر مانتے تھے‘ اس لیے ووٹ نواز شریف کو جاتا یا پھر بے نظیربھٹو کو ملتا۔ خاندان میں کچھ لوگ جماعت اسلامی تو کچھ ایم کیوایم کو ووٹ دیتے تھے مگر سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے آپس میں لڑتے نہیں تھے۔ میرے ماموں بابر مرحوم بہت بڑے جیالے تھے‘ جب میں بہت چھوٹی تھی تو انہوں نے مجھے ''جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ سکھا دیا۔ میرے دادا‘ جو ضیاء الحق کو شہید کہا کرتے تھے‘ ان سے بہت خفا ہوئے۔ میں اپنے بے بی کورٹ یا میز پر کھڑے ہوکر بے ربط سے دو جملوں کی تقریر کرکے آخر میں جئے بھٹو کا نعرہ لگادیتی۔ سارا خاندان بہت خوش ہوتا۔ ماموں کے لیڈر بھٹو اور بینظیر تھے اور دادا ابو کے لیڈر ضیاء الحق اور نواز شریف۔ ایک ہی گھر میں چار‘ پانچ لوگ الگ الگ جماعتوں کو ووٹ دیتے اور ہم بچے ہر جماعت کا بیچ؍ سٹیکر حاصل کرکے خوش ہوتے۔ اسی سبب مجھ میں تاریخ اور سیاست کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔
جب میں سکول میں تھی تو پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت برطرف کردی۔ میں اپنی کلاس کی واحد بچی تھی جو سارا دن خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ میری میڈم ریحانہ کیانی‘جو اس وقت نوجوان تھیں اور اب ماشاء اللہ ان کے بچے کالج‘ یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں‘ مجھے پیار سے چپ کراتی رہیں۔ انہیں پتا تھا کہ میں کیوں رو رہی ہوں۔ ہم سب فری پریڈ میں میڈم ریحانہ سے سورتیں حفظ کرتے تھے‘ خطاطی سیکھتے تھے‘ مضمون نویسی کرتے تھے اور ان سے بہت ساری باتیں کرتے تھے۔ یہ ان کی ڈیوٹی نہیں تھی لیکن وہ اپنے طاب علموں کی کردار سازی کی خواہاں تھیں۔ وہ ہماری کلاس انچارج بھی تھیں اور ہمیں انگریزی اور ریاضی پڑھاتی تھیں۔ وہ میرے لیے ایک ٹیچر بھی تھیں‘ بہن بھی تھیں اور دوست بھی۔ وہ اس بات سے واقف تھیں کہ میں اخبارات کا مطالعہ کرتی ہوں‘ میری لکھی کہانیاں بچوں کے صفحات پر شائع ہوتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا: میڈم! کیوں کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی؟ یہ دیکھیں مطالعہ پاکستان کی کتاب‘ کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ اب یہ پرویز مشرف بھی ضیا ء الحق کی طرح حکمرانی کریں گے۔ میڈم مجھے تسلی دیتی رہیں۔ میں سکول سے کالج میں آگئی ‘ تب بھی پرویز مشرف ملک کے حکمران تھے۔ اس وقت وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھے لیکن جب انسان میں شعور آتا ہے تو وہ دوسروں کی اچھائیوں اور برائیوں‘ دونوں پر غور کرتا ہے ۔پرویز مشرف ایک لبرل انسان تھے۔ ان کے دور میں اتنی مہنگائی نہیں تھی۔ انہوں نے نجی میڈیا کو کام کرنے کا موقع دیا۔ بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے۔ اس دور میں خواتین کو سیاست میں نمایاں نمائندگی دی گئی؛ تاہم دہشت گردی ، افغان جنگ ، آئین شکنی ، لوگوں کو امریکا کے حوالے کرنے سمیت ایک لمبی فہرست ان کے کھاتے میں شامل ہے۔
مجھے لگتا تھا کہ جمہوریت ہی اس ملک کی بقا ہے مگر جب جمہوریت آئی تو میں حیران رہ گئی کیونکہ جمہوری حکمران بھی اندر سے آمر ہی تھے۔ میں سمجھتی تھی کہ سیاستدان جمہوریت کی قدر کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مجھے لگتا تھا آمر شخص عوامی نہیں ہوتا جبکہ جمہوری وزیراعظم عوامی ہوتا ہے لیکن یہاں تو کوئی غریب کارکن ''جمہوری افراد‘‘ کے پا س پھٹک بھی نہیں سکتا۔ ان کے گارڈز عوام کو دھکے مار کر پرے کر دیتے ہیں۔ اسی طرح تمام اہم سیاسی عہدے سیاسی خاندان اپنے پاس رکھتے ہیں‘ کسی کارکن یا خاندان سے باہر کسی شخص کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا جاتا۔ مسلم لیگ‘ پی ٹی آئی اور اب پی ڈی ایم حکومت کے دوران مہنگائی میں وہ اضافہ ہوا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ دوسرا‘ ایک دوسرے سے لڑائیوں نے جمہوریت اور پارلیمان دونوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جو جماعتیں خود کو جمہوری کہتی ہیں‘ ان کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ عمران خان کی چلتی حکومت کا تختہ الٹ دیں؟ اوپر سے والد اور بیٹے کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتخب کرواکر موروثیت کی ایک نئی مثال قائم کی گئی۔ سیاستدان کیوں جمہوریت اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں؟ تسلسل سے ایک حکومت اور وزیراعظم کو کام کیوں نہیں کرنے دیا جاتا؟عمران خان کے گھر جانے کے بعد وہ سیاسی بحران شروع ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر پنجاب بری طرح اس بحران سے متاثر ہوا۔ہر روز تبادلے‘ نئی تقرریاں۔ اور تو اور حمزہ شہباز کو ایک ہوٹل میں وزیراعلیٰ منتخب کیاگیا۔ وہ تمام لوگ جو جمہوریت سے محبت کرتے تھے‘ اس جمہوری تماشے پر حیران تھے کہ پارلیمان کو بے توقیر کیا جارہا ہے۔ رجیم چینج کے بعد سے سیاسی اور معاشی بحران تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ وزیراعظم شہاز شریف اور حمزہ شہباز عوامی امنگوں سے نہیں بلکہ راج نیتی کی چالوں کی وجہ سے منتخب ہوئے۔ اسی لیے اب حمزہ شہباز کو گھر بھیج دیا گیا ہے کیونکہ ان کے پاس مینڈیٹ نہیں تھا۔ چودھری پرویز الٰہی‘ جن کو زیادہ ووٹ ملے تھے‘ اب وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔ صد شکر کہ ایک سیاسی بحران ختم ہوا‘ اب امید کی جا سکتی ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت‘ جس کو اصل میں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے‘ عوام کی فلاح کے لیے کام کرے گی۔ بہت دن سے صوبہ بدانتظامی کا شکار تھا‘ اب ایک دن بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
سیاسی جھمیلوں میں ریاستی اداروں کو بھی رگیدا جا رہا ہے۔ پی ٹی وی ریاست کا ایک ادارہ ہے مگر مجال ہے کہ ''حکومت نامہ ‘‘کے علاوہ وہاں کچھ اور نشر ہوتا ہو۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقریبِ حلف برداری نشر نہ کرکے پی ڈی ایم اور پی ٹی وی نے نئی بدترین مثال قائم کی ہے۔ کس نے مشورہ دیا تھا ان کو کہ ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اب ان کے چہروں پر اقتدار کی کوئی خوشی نہیں‘ ہر وقت دھونس‘ دھمکی اور غصے سے بھرے بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔ پہلے پریس کانفرنس میں الزامات لگائے جاتے ہیں اور پھر لڑائی سوشل میڈیا پر پہنچ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مسلم لیگ نواز کو زبردستی حکومت میں لایا گیا ہو۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں حکومت میں ہونے کے باوجود وہ سیٹیں نہیں نکال سکی اور عوام نے اپنا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں سنایا مگر یہ پھر بھی سازش سے باز نہیں آئے اور ایوان میں عوام کا مینڈیٹ بدلنے کی ناکام کوشش کی۔ شکر ہے کہ اس ملک کی عدلیہ انصاف کر رہی ہے اور غیر منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔
ان سب سازشوں اور چالوں سے پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ نواز کو کیا ملا؟ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت تو وہیں ہے‘ اس کو شاید دوبارہ بھی سندھ میں ووٹ مل جائیں لیکن مسلم لیگ نواز کے ہاتھ سے تختِ لاہور نکل گیا ہے۔اب سبھی تجزیہ کار کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے اب مسلم لیگ (ش) نکلے گی کیونکہ ن گروپ حکومت میں آنے کے حق میں نہیں تھا۔ اگر پی ٹی آئی سندھ میں بھی متحرک ہوگئی تو یقینا پی پی پی کے ووٹ بینک میں بھی ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کا ووٹ پی ٹی آئی کے حق میں جائے گا کیونکہ کرپشن اور موروثیت کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوان ایسے لوگوں کو حکمران دیکھنا چاہتے ہیں جو کرپشن نہ کرتے ہیں اور عوام کے لیے کام کریں۔ اس جمہوری تماشے نے عوام کو مزید جمہوریت پسند اور متحرک کردیا ہے۔ اب وہ اپنے ووٹ اور مینڈیٹ پر ڈاکا نہیں پڑنے دیں گے۔ جس دن مسلم لیگ نواز نے یومِ یکجہتی منایا اور اللہ رکھا پانی پوری نے ''یادگار‘‘ پرفارمنس دی‘ اس دن لاہور کا لبرٹی چوک خالی تھا۔ جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو جشن کرنے والے لبرٹی چوک کیا‘ ملک کے ہر شہر میں باہر نکلے۔ اب باقی جماعتیں یہ سوچیں کہ اس وقت عوام ان کو لے کر متنفر کیوں ہیں۔ ان وجوہات کو تلاش کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں اور اپنی پارٹیوں میں جمہوری اوصاف پیدا کریں۔ اپنی شکست کو تسلیم کریں اور تمام اداروں کا احترام کریں۔ اس کے ساتھ عوام یہ بھی مطالبہ کررہے کہ رجیم چینج سے متعلق مراسلے کی تحقیقات کی جائیں تاکہ حقیقت سامنے آ سکے کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ ایک چلتی حکومت گھر چلی گئی اور ایسی جماعتیں اتحاد بنا کر حکومت میں آگئیں جو کبھی ایک دوسرے کی اتحادی نہیں رہیں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اس سارے جمہوری تماشے میں سب سے زیادہ نقصان میں مسلم لیگ (ن) رہی ہے اور تحریک انصاف ایک فاتح بن کر ابھری ہے۔