سوگ کا سماں

حساس دل والے اس وقت حالتِ سوگ میں ہیں۔ محرم الحرام کے پہلے دس دِنوں کی ہر ساعت قیمتی ہے۔ اس میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض افراد عاشورہ پر روزہ رکھنے کو بھی کافی بابرکت خیال کرتے ہیں۔ یکم محرم کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور نو‘ دس محرم کو معرکۂ جرات میدانِ کربلا میں برپا ہوا جس میں خانوادۂ رسول کے افراد نے نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جامِ شہادت نوش کیا۔ آلِ رسول کا غم ہر سال دل کو غمگین کردیتا ہے اور ان کی قربانی اور ایثار مسلمانوں کو حوصلہ دیتے ہیں کہ کلمۂ حق کیسے بیان کرنا اور باطل کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ ان دنوں میں جتنے بھی نیک اعمال کیے جائیں‘ کم ہیں۔ کوشش کریں کہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کو راضی کریں‘ نیکی کے کام کریں۔ تاریخ اسلام میں محرم الحرام کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اپنے لیے‘ سب کے لیے بالخصوص پاکستان کے لیے خصوصی دعا کریں۔
اس وقت پاکستان میں جہاں عزادار اپنے دکھ کا اظہار کررہے ہیں‘ پیاسوں کو پانی پلارہے ہیں‘ نیاز تقسیم کررہے ہیں وہیں دوسری طرف سیلاب میں ڈوبے ہوئے عوام غم اور رنج میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ننھی بچی کی لاش پانی سے ملی ہے جس کا گول مٹول چہرہ مٹی سے اَٹا ہوا تھا۔ اس کا سرخ لباس بھیگا ہوا تھا۔ سفید دودھیا ہاتھ اوپر کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ہاتھ بلند کر کے اللہ سے انصاف مانگ رہی ہو۔ حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی لاپرواہیوں کی معافی مانگی چاہیے۔ جو ملک کا حاکم ہوتا ہے‘ وہ تمام لوگوں کو جواب دہ اور ان کا خدمت گار ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حکمران بننے کے بعد عوام سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کو دھکے دیے جاتے ہیں۔ اس ننھی بچی کا پھول سا چہرہ اور اوپر کو اٹھا ہوا ہاتھ میری نظروں کے سامنے سے جا نہیں رہا۔ اس نے ضرور خدا تعالیٰ سے سب کی شکایت کی ہوگی۔ اس بچی کی لاش دیکھ کر شام کے ایلان کردی کی یاد تازہ ہو گئی۔ جب ترکی کے ساحل سے ننھے ایلان کی اوندھی پڑی لاش ملی تھی تو نہ صرف ترکی بلکہ پورا یورپ ہل کر رہ گیا تھا اور شامی مہاجرین کے لیے قوانین میں نرمی کر دی گئی تھی۔
ایلان کردی شام سے تعلق رکھنے والا ایک ڈھائی‘ تین سالہ بچہ تھا۔ اس کا خاندان جنگ کی وجہ سے کسی محفوظ جگہ پر جانا چاہتا تھا۔ ایک چھوٹی سی کشتی میں یورپ جاتے ہوئے کشتی طوفان کی زد میں آ گئی۔ ان مہاجرین کو یورپ لے جانے والے انسانی سمگلر فوراً کشتی سے چھلانگیں لگا کر فرار ہو گئے۔
بعد ازاں یہ کشتی الٹ گئی اور اس میں سوار سبھی 12 مسافر ڈوب گئے۔ ایلان کے والد کو بچا لیا گیا مگر ایلان کی والدہ اور بڑا بھائی دیگر مسافروں سمیت ڈوب گئے۔ ایلان کی لاش بہتی ہوئی ترکی کے ساحل بودرم پر آگئی۔ اس ننھے بچے کی لاش کی تصویر سے پوری دنیا میں کہرام مچ گیا اور شام کا انسانی بحران دنیا کے سامنے مزید نمایاں ہوا۔ بعد ازاں ایک بحری جہاز‘ جو سمندر میں لوگوں کو ریسکیوکرتا ہے‘ ایلان کردی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ ترکی کی حکومت نے زندہ بچ جانے والے اس کے والد کی مدد کی اور عراق نے اس کے والد کو اپنے ملک کی شہریت دی۔ بعد ازاں ترکی نے اس سانحے کے ذمہ دار تین انسانی سمگروں کو 125 سال قید کی سزا سنائی۔ ہمارے ملک میں مگر اس بچی کی لاش دیکھ کر کسی سیاستدان کا دل نہیں پگھلا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ بچی سندھ سے تھی‘ کوئی کہہ رہا پنجاب سے اور کوئی اس کا تعلق کے پی سے بتا رہا تھا۔ سبھی ایک دوسرے کی حکومتوں کو الزام دے رہے تھے۔ کیا اتنا تعارف کافی نہیں کہ وہ ایک انسان تھی‘ وہ بچی پاکستانی تھی‘ کیا یہ شناخت کافی نہیں؟ ننھی سارہ پشاور سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ اپنے گھر کے قریب کینال میں گری تھی اور بعد ازاں اس کی لاش دریائے کابل سے ملی۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے اس بچی کے خاندان کیلئے کچھ نہیں کیا۔ سچ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر بھی صارفین ایک دوسرے سے الجھتے رہے اور مخالف سیاسی پارٹیوں پر الزام لگاتے رہے۔ اس وقت ملک میں تمام سیاسی پارٹیاں برسر اقتدار ہیں؛ کوئی وفاق میں تو کوئی صوبے میں۔ پھر عوام کیوں سیلاب سے مر رہے ہیں؟
اس وقت سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ہے۔ عوام کے گھر‘ مال مویشی اور املاک پانی میں بہہ گئے ہیں۔ سینکڑوں افراد بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ پانی‘ مٹی اور گارے میں لتھڑے پڑے ہیں۔ ان کے پاس کھانا‘ صاف پانی اور کپڑے نہیں ہیں۔ سر چھپانے کے لیے چھت نہیں ہے۔ پانی کے ریلے آئے اور ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی بہاکر لے گئے۔ عوام ایک طرف بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور دوسری طرف وبائی امراض اور بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پانی کی خوفناک لہروں نے ان سے سب کچھ چھین لیا۔ کاش اس ملک میں ڈیمز ہوتے‘ چھوٹے بڑے پانی کے ذخیرے ہوتے‘ پھر یہ پانی‘ جو اللہ کی نعمت ہے‘ کبھی انسانوں کیلئے زحمت نہ بنتا۔ گرمی میں ہم خشک سالی‘ سردی میں پانی کی کمی اور مون سون میں سیلابوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم واٹر مینجمنٹ سے نابلد ہیں۔ اس ملک میں ڈیم کے نام پر صرف سیاست کی جاتی ہے‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج عوام سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس وقت ساری حکومت فارن فنڈنگ کیس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ سرخیاں چل رہی ہے‘ وزرا کی پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں مگر سیلاب متاثرین کسی کو نظر نہیں آرہے۔
پاک فوج نے سیلاب زدگان کی مدد شروع کی اور ریسکیو ریلیف آپریشن کا آغاز کیا۔ نیوی‘ ایئر فورس اور آرمی کے دستوں نے ان آپریشنز میں حصہ لیا۔ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی خود بھی امدادی سرگرمیوں کا معائنہ کررہے تھے۔ ان کے ہیلی کاپٹر کو لسبیلہ میں حادثہ پیش آیا اور انہوں نے فرض کی راہ میں جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے ساتھ سوار ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد حنیف، 12 کور کے بریگیڈیئر محمد خالد، نائیک مدثر فیاض کے علاوہ ہیلی کاپٹر کے پائلٹس میجر سعید احمد اور میجر طلحہ منان نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ اس خبر سے ہر حساس دل مزید دکھی ہوگیا۔ جو ہیلی کاپٹر کریش ہوا‘اس نے شام چھ بجے فیصل ایئر بیس پر لینڈ ہونا تھا لیکن جب یہ وہاں نہیں پہنچا تو اس کی تلاش شروع کردی گئی۔ یہ ایک یوروکاپٹر تھا جو ایک محفوظ ہیلی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم حادثات کے خدشات کو کم کر سکتے ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے۔ کسی بھی انسانی غلطی یا فنی خرابی سے حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ ان حادثات کو روک سکے۔ موسم جیسا اہم ترین عامل بھی اکثر حادثات کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔ بادلوں‘ دھند‘ بارشوں اور طوفانوں کی وجہ سے جہاز اور ہیلی کاپٹر کسی چٹان یا پہاڑ وغیرہ سے ٹکرا جاتے ہیں۔ حالیہ سانحہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پیش آیا کیونکہ موسم ابر آلود تھا اور خراب موسم کی وجہ سے حدِ نگاہ خاصی کم ہو گئی تھی۔ امدادی سرگرمیوں میں کام کرنے والے اہلکاروں کو اپنی حفاظت بھی یقینی بنانی چاہیے۔ اس وقت جب سیلاب زدگان ہماری مدد کے منتظر ہیں‘ یہ حادثہ ہمیں مزید غمگین کرگیا؛ تاہم یہ تمام افراد سیلاب زدہ بلوچ عوام کی مدد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے‘ یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ مسلح افواج جس طرح سے عوام کی مدد کررہی ہیں‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے عوام کی مدد کرنی چاہیے۔
این ڈی ایم اے کہاں ہے؟ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں؟ بلوچستان میں کیا کوئی ریسکیو یا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نہیں ہے جو عوام کی مدد کرے؟ اس مشکل وقت میں بلوچستان حکومت کہاں ہے؟ جو کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے‘ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ جب عوام سوگ میں تھے‘ سیاست دان مقدمہ بازی‘ بیانات اور پریس کانفرنسز کرنے میں مصروف تھے۔ کاش کبھی ہمیں بھی ایسے حکمران ملیں جو عوام کا درد رکھتے ہوں۔ تمام سرگرمیاں معطل کرکے سیاسی قیادت کو اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں