میں اُن لوگوں میں شامل ہوں جو ہر معاملے میں ضرورت سے زیادہ احتیاط برتنے کے قائل ہیں اور صفائی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب چین میں کورونا وائرس کے کیس سامنے آنا شروع ہوئے تو میں نے جنوری 2020ء میں روزنامہ دنیا میں اس حوالے سے آرٹیکل لکھا جس میں قارئین کو اس وبا کے حوالے سے آگاہی فراہم کی۔ اُس وقت بہت سے لوگوں نے مجھے سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجے جس میں انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ بیماری پاکستان میں نہیں آئے گی لیکن چند دنوں میں ہی یہ بیماری عالمگیر وبا بن گئی اور پاکستان میں بھی اس کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہو گئے۔ میں نے اس دوران بہت احتیاط برتی اور احباب کو بھی اس بات کی تلقین کی کہ تمام ایس او پیز پر عمل کریں۔ اس دوران بہت سے پیارے اس بیماری کی وجہ سے جہانی فانی سے کوچ کر گئے اور بہت سے لوگ معاشی طور پر تباہ ہوگئے۔ کورونا وبا کے بڑے پیمانے پر پھیلائو کو روکنے کیلئے لگائے جانے والے لاک ڈؤان کے دوران ایک عجیب سی خاموشی اور درد تھا جو ہم نے محسوس کیا۔ پاکستان کا شعبۂ صحت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھا اور اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ اس دوران طبی عملے نے کم سہولیات میں زیادہ کام کیا اور بہت سے لوگ اس بیماری سے شفایاب ہوئے۔ جس وقت اس بیماری سے بچائو کی ویکسین مارکیٹ میں آئی تو سب نے تھوڑا ریلیف محسوس کیا۔ میں نے خود بھی ویکسین لگوائی اور دوسروں کو بھی ویکسین لگوانے کی ترغیب دی۔ میں نے اس ویکسین کی ڈبل ڈوز لگوائی اور بوسٹرز بھی۔ اسی ویکسین اور ایس او پیز پر مکمل عمل کرنے سے 2020ء اور 2021ء میں تو میں اس بیماری سے محفوظ رہی لیکن 2022ء میں شاید میں بھی تھوڑی غیر محتاط ہو گئی۔ ماسک کا استعمال تھوڑا کم کردیا۔ لگایا بھی ہوتا تو اکثر گرمی کی وجہ سے اتار کر بیگ میں رکھ دیتی۔
گزشتہ ماہ میری بڑی بہن شدید علیل اور ہسپتال میں داخل تھیں۔ بڑی بہن ماں کا روپ ہوتی ہے اس لیے میں نے سوچا کہ میں ہسپتال میں ان کے ساتھ رہوں گی اور ان کا خیال رکھوں گی۔ ہسپتال میں پہلے روز تو میں نے سارا دن ماسک پہنے رکھا لیکن دوسرے روز میں وقتاً فوقتاً اپنا ماسک اتارتی رہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری بہن کی سرجری کامیاب رہی لیکن بیک وقت ہم دونوں کو بخار ہوگیا۔ ہم حیران تھیں کہ ہمیں بخار کس وجہ سے ہوا۔ جسم میں درد، تیز بخار اور کپکپی کی علامات عموماً ڈینگی کی ہوتی ہیں اس لیے میں نے اپنی بہن سے کہا کہ شاید ہمیں ڈینگی ہوگیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے ہمارے کورونا اور ڈینگی دونوں کے ٹیسٹ کروائے۔ رپورٹس میں ڈینگی منفی اور کورونا مثبت آگیا۔ ہمارے لیے یہ صورتحال بہت تشویشناک تھی کیونکہ بہن کی ابھی ابھی سرجری ہوئی تھی۔ ہمارے والدین بھی ضعیف ہیں۔ ہم پریشان تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ پھر ہم دونوں بہنوں نے خود کو قرنطینہ کر لیا اور پندرہ دن تک کسی سے ملاقات نہیں جب تک کہ کورونا منفی نہیں ہوگیا۔ ہمارا علاج گھر پر ہی ہوا اور اس دوران ہم ڈاکٹرز اور نرسز سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے عملے کی طرف سے گھر پر فراہم کیے گئے علاج میں ڈرپس، انجیکیشن، ادویات اور نبیلائزیشن شامل تھی۔ ہر دن کورونا کی علامات الگ ہوتی تھیں۔ علاج کے دوران بخار، گلے میں تکلیف، ناک بند ہونے، پیٹ درد اور پھر جسم میں درد جیسی علامات ظاہر ہوتی رہیں۔ تاہم میرے چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑا اور میں بیماری کے دوران ہر طرح کا کھانا کھاتی رہی۔
اس بیماری میں دو تین دیسی ٹوٹکے بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ پہلا تو یہ کہ اس بیماری میں جتنی اچھی خوارک استعمال کی جائے اتنی جلدی یہ بیماری ٹھیک ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے دیسی مرغ کی یخنی کا استعمال جاری رکھا۔ دیگچی والی بھاپ میں اگر دو تین لونگ ڈال دیے جائیں تو یہ بھی بڑی مفید ہے۔ قرنطینہ کے دوران سونے‘ جاگنے اور بھوک لگنے کا دورانیہ ڈسٹرب ہو جاتا ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ آرام کریں اور اچھی غذا کھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر مکمل عمل کریں۔ اس بیماری کا علاج، ادویات، انجیکشن اور ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں۔ جن کا بل لاکھوں میں چلا جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ محکمۂ صحت اس طرف توجہ کیوں نہیں دے رہا۔ کچھ نجی ہسپتال اور لیبارٹریز 7500 روپے میں کورونا کا ٹیسٹ کر رہے ہیں جوکہ قابلِ قبول امر نہیں ہے۔ ایسے ملک میں جہاں غریب انسان اپنا سستا اور معیاری علاج بھی نہیں کروا سکتا وہاں وہ معیاری غذا کیسے افورڈ کرے گا۔ جبکہ اس بیماری سے صحت یاب ہونے کے لیے معیاری علاج اور غذا دونوں بہت ضروری ہیں۔
تقریباً پندرہ روز بعد میرا اور بہن کا کورونا منفی ہوگیا لیکن ہم احتیاطاً مزید 5 روز تک قرطینہ میں رہیں اور 5روز بعد اپنے اہل و عیال سے ملیں۔ میری بہن اس دوران اپنے بچوں اور پودوں کو بہت مس کررہی تھی۔ اس لیے وہ فوراً اپنے گھر چلی گئی اور میں چونکہ اپنے کام کو بہت مس کررہی تھی تو میں نے اپنا کام شروع کیا۔ پر ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کورونا سے ریکوری اس وبا میں مبتلا رہنے سے بھی زیادہ تکیلف دہ مرحلہ ہے۔ اس میں انسان ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ پسینہ بہت آتا ہے۔ نیند میں کمی ہو جاتی ہے۔ سانس پھولنے لگتا ہے۔ بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دوائیوں کے مستقل استعمال کی وجہ سے معدے میں گرمی ہو جاتی ہے اور چہرے پر دانے نکل آتے ہیں۔ ہم دونوں اب بھی ریکوری کے مرحلے میں ہیں حالانکہ ہم دونوں نے دوبارہ ویکسین بھی لگوائی ہے‘ سب ٹیسٹ بھی کلیئر ہوگئے ہیں لیکن درد اور نقاہت اب بھی موجود ہے اور سانس پھول جاتا ہے۔
یہ بیماری چونکہ انسان کے مختلف اعضا پر حملہ آور ہوتی ہے اس لیے کورونا ٹیسٹ منفی ہونے کے کچھ عرصے بعد اپنے باقی سارے ٹیسٹ بھی کروائیں اور اس بات کی مکمل جانچ کریں کہ کیا آپ کا دل، گردے، جگر اور پھپھڑے تو اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ بہت سے لوگوں کو اس بیماری سے ریکور ہونے کے بعد کوئی مسائل پیش نہیں آتے لیکن بعض ریکوری کے بعد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ میں نے جب ٹویٹر پر اس بارے میں لوگوں سے پوچھا تو بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ ان کو کورونا سے ریکور ہونے میں ایک سے دو ماہ لگے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کو کورونا سے ریکور ہونے کے بعد کمزوری ہوگئی۔ کسی نے کہا کہ اس کی بینائی اور سماعت پر اثر پڑا۔ کچھ کے مطابق ان کو شوگر ہوگئی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ سینے کے امراض میں مبتلا ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے گردوں کے امراض کی شکایت کی۔ کچھ افراد نے کہا کہ ان کو اب بھی سانس کے امراض کا سامنا ہے۔ کچھ پیٹ درد، گلے کی خرابی اب بھی بار بار محسوس کرتے ہیں۔ کچھ نے اس چیز کی شکایت کی کہ وہ کچھ بھی یکسوئی سے نہیں کر پا رہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ پھلوں، سبزیوں، مچھلی اور خشک میوہ جات کے استعمال سے انہوں نے اپنی صحت بحال کی۔
کورونا ایک تکلیف دہ اور جان لیوا بیماری ہے۔ اس لیے اس سے بچیں۔ ویکسین لگوائیں۔ ماسک پہنیں۔ میں ہسپتال میں قیام کے دوران اس بیماری میں مبتلا ہوئی تھی اس لیے ہسپتال میں بھی ماسک، شو کور اور ہاتھوں پر دستانے پہن کر جائیں۔ یہ بیماری اب بھی موجود ہے۔ اس لیے پُرہجوم جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں۔ اس وبا سے صحت یاب ہونے والے افراد مکمل صحت یابی کے بعد شکرانے کے نوافل پڑھیں کہ اللہ نے آپ کو نئی زندگی دی ہے۔ اب میں دوبارہ بوسٹر ڈوز لگواؤں گی کیونکہ یہ تکلیف دہ بیماری ہے اور اس کے بار بار ہونے کا امکان موجود ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ خود کو اور دوسروں کو اس بیماری سے محفوظ رکھیں۔