ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے‘ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں‘ کم ہے۔ اس میں ہمارے آبائو اجداد کی بہت سی قربانیاں شامل ہیں۔ ہمارے بڑوں نے آزادی کی تحریک میں اپنا حصہ ڈالا‘ ہمت اور بہادری دکھائی اور اس سامراج سے آزادی حاصل کرلی جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں مرد و خواتین اور بزرگوں اور بچوں‘ سب نے مل کر جدوجہد کی اور اپنے لیے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔ بظاہر یہ امر ناممکن تھا لیکن آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا اور اگست 1947ء میں پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔
میری دادی مرحومہ بتاتی تھیں کہ پاکستان آتے وقت انہوں نے زیورات اور قیمتی کاغذات وغیرہ گھر کی ایک دیوار میں دفن کر دیے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ ہم کچھ بھی ساتھ نہیں لائے اور نہ ہی کوئی کلیم داخل کیا۔ اس وقت ہر طرف دنگے اور فسادات ہو رہے تھے اور ہمیں اپنے آزاد وطن میں جانے کی جلدی تھی۔وہ بتاتی تھیں کہ تمہارے ایک تایا اور پھوپھو ان ہنگاموں میں جانبر نہیں ہوسکے اور کم عمری میں ہی فوت ہوگئے۔ان کے کتنے ہی رشتہ دار بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔تقسیم کی کہانیاں سناتے ہوئے وہ اکثر رو پڑتی تھیں اور وہ تکلیف ان کے چہرے پر عیاں دکھائی دیتی تھی۔ ہم بچے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ان کے آنسو صاف کرتے تھے۔وہ بتاتی تھیں کہ کس طرح انہوں نے پاکستان آکر دوبارہ سے زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کی بہت خواہش رہی کہ وہ ایک بار پھر ہوشیار پور‘ جالندھر‘ پٹیالہ اور لدھیانہ کو دیکھ سکیں۔ اپنے آبائی گھر جاسکیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ میرے دادا نے یہاں دوبارہ سے اپنے کام کا آغاز کیا اور جلد ہی اپنا کاروبار کھڑا کر لیا۔ میرے والد پاکستان میں ہی پیدا ہوئے۔ دادا اور دادی کو آزادی کی بہت قدر تھی۔ جشنِ آزادی کے موقع پر ایسا اہتمام ہوتا کہ لگتا تھا جیسے عید ہے۔
میری دادی مرحومہ اس موقع پر سفید لباس پہنتی تھیں، خاص طور پر غرارہ اور گوٹے والا دوپٹہ۔ وہ خود میٹھا بناتیں اور ساری گلی میں تقسیم کرتیں۔ پوری گلی برقی قمقموں‘ جھنڈیوں اور جھنڈوں سے مزین ہوتی اور ہر سال گلی میں تمام بڑے ہم بچوں کے لیے کوئز اور ملی نغموں کا مقابلہ کراتے جس میں سب بچوں کو انعام بھی دیا جاتا۔ آج ان میں سے کتنے ہی لوگ زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی روایتوں کو ہم آگے لے کر چل رہے ہیں۔ اب شاید وہ سفید غرارے، شیر خرما اور لئی لگا کر جھنڈیاں تو نہیں لگائی جاتیں لیکن سٹیکرز‘ پہلے سے تیار شدہ جھنڈیوں، پٹاخوں، باجوں اور گاڑیوں میں ملی نغموں نے ان کی جگہ لے لی ہے؛ تاہم آزادی کا جشن ادب کے ساتھ اس طرح منایا جانا چاہئے کہ جس سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ آزادی کا مطلب سڑکوں پر باجے بجانا نہیں ہے، اس کا مطلب ون ویلنگ یا اوور سپیڈنگ کرنا بھی نہیں ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہے کہ اپنا محاسبہ کیا جائے کہ ہم نے آزادی کیوں حاصل کی تھی۔کیا ہم اپنی آزادی کا ٹھیک استعمال کررہے ہیں۔ آزادی کا مطلب ہے کہ ہم سب اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کریں، اس آزادی کو مزید مستحکم بنانے کے لیے کام کریں۔ اس ملک کو عالم اسلام کا قلعہ اور ترقی یافتہ ملک بنا دیں۔ ہم اپنے قدموں پر کھڑے ہوں‘ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمیں آئی ایم ایف کے قرضوں کا محتاج نہ ہونا پڑے۔
اس وقت ہم بحیثیت قوم بہت سے بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سرفہرست مہنگائی ہے۔ عوام اس وقت غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں۔ آٹا‘ چینی‘ تیل‘ پھل‘ سبزیاں اور گوشت سمیت سب چیزیں ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں۔رہی سہی کسر پٹرول اور بجلی و گیس کے بلوں نے پوری کردی ہے۔ جمہوریت اس ملک میں کمزور ہے اور آج تک کسی ایک وزیراعظم کو بھی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی جس کی وجہ سے معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ کورونا کی وجہ سے بھی معیشت اور معاشرت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے، تعلیم کا معیار خاصا پست ہے جبکہ مواقع بھی کم ہیں اور انصاف کی عدم فراہمی بھی عام ہے۔ بڑے کیسز میں نامزد افراد کو اقتدار مل جاتا ہے اور ایک غریب ڈرائیور کی بیوی اور دس ماہ کی بچی کو ناحق جیل کاٹنا پڑتی ہے۔ مہنگائی ، معیشت کی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام میں عوام ہر طرح سے پس رہے ہیں۔ غریب عوام اچھی تعلیم‘ اچھی خوارک اور سر پر چھت سے بھی محروم ہیں جبکہ اشرافیہ کے چھوٹے بچے بھی اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ان سے سوال کرنے کی جرأت پر بھی عوام پر ایف آئی آرز ہوجاتی ہیں۔ملک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا یہ حال ہے کہ سوال کرنے والوں پر پرچے کرا دیے جاتے ہیں۔ غداری کے سرٹیفکیٹ برسر عام تقسیم ہو رہے ہیں جبکہ سیاسی اشرافیہ کو ہر گناہ معاف ہے۔ روٹی چور کو جوتے پڑتے ہیں اور اربوں کی چوری والے پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں نئی نسل باہر سے ملک جانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس ملک کے اقتدار پر بیٹھے افراد کے بچے اور اثاثے‘ سبھی کچھ باہر ہے۔ جب جس کا دل کرتا ہے‘ سڑکوں کو بند کروادیتا ہے، جس کا دل کرتا ہے صحافیوں اور میڈیا چینلز پر مقدمات درج کرا دیتا ہے، کوئی انسانی حقوق پر بات کرنے والوں کے خلاف محاذ کھول لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے! ہم سب اس ملک میں برابر کے شہری ہیں۔ آزادی کا یہ مطلب تو نہیں ہے۔آزاد وطن کا مطلب ہے کہ اس ملک میں انصاف کا بول بولا ہو۔ ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہوں۔ انصاف ہر شخص کے لیے یکساں ہو، تمام شہری برابر ہوں، اظہارِ رائے کی آزادی ہو ، کرپشن کا خاتمہ ہو، کوئی بھی شخص بھوکا نہ سوئے، غربت کی وجہ سے کوئی بھی شہری خودکشی نہ کرے۔ ہمیں اپنے ملک میں مساوات اور رواداری قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ امن و امان اور سبزانقلاب کی ضرورت ہے۔ کھیلوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
خدارا اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کی جنگوں کی نذر مت کریں۔ان کو کھیلوں‘ تعلیم اور ہنر کی طرف لائیں تاکہ وہ باعزت روزگار کما سکیں۔ ہمارے ملک میں غربت بہت ہے لہٰذا تعلیم کے ساتھ ووکیشنل ٹریننگ پر بھی توجہ دیں۔ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں‘ وہ اس ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہیں۔ ان کو سوشل میڈیا ٹرولر بنانے کے بجائے ہمیں انہیں ڈاکٹر‘ انجینئر اور سپورٹس مین بنانا ہے تاکہ وہ ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔ ہمارے ساتھ آزادی پانے والے‘ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک ترقی کے سفر میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں‘ پھر ہم پیچھے کیوں ہیں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں کرپشن بہت ہے‘ موروثیت عام ہے‘ ٹیلنٹ کا حق مارا جاتا ہے اس لیے نوجوان بددل ہوکر باہر چلے جاتے ہیں۔ خدارا اس برین ڈرین کوروکیں۔ یہ نوجوان ہی ہمارا سرمایہ ہیں۔ ان کو ملک کی ترقی میں کھپائیں۔ اس کے لیے انصاف کا نظام قائم کرنا ہو گا۔ جب نوجوان دیکھتے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کو این آر او مل جاتا ہے اور غریب ڈرائیور کی بیوی کو بے وجہ جیل بھیج دیا جاتا ہے تو وہ اس نظام سے بددل ہوجاتے ہیں۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اس بددلی سے بچانا ہوگا۔ اپنی انا کی منشا کے مطابق فیصلے مت کریں‘ وہ فیصلے کریں جو اس ملک اور نئی نسل کے مفاد میں ہوں۔ انائوں کی جنگ میں پاکستان کو مت نقصان پہنچائیں۔ ہم سب آئینِ پاکستان کے تابع ہیں۔ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ سیاسی اشرافیہ پہلے خود آئین و قانون پر عمل کرے‘ پھر عوام بھی اس کی تقلید کرنے لگیں گے۔
آزادی کا مطلب کیا ہے ؟کرپشن سے آزادی! غربت سے آزادی! جرائم سے آزادی! مساوات کی آزادی! اظہار کی آزادی۔ ہم تبھی حقیقی معنوں میں آزاد ہوں گے جب ملک میں مساوات اور انصاف کا بول بالا ہو گا۔ یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے‘ یہاں اسلام اور جمہوریت کا بول بالا ہونا چاہیے تاکہ ہمارے اسلاف عالم برزخ میں پُرسکون رہیں کہ ان کی قربانیاں ضائع نہیں گئیں۔