مظلوم طالبہ کے لیے انصاف

کبھی کبھی انسان ظلم کرتے ہوئے حد سے بڑھ جاتا ہے۔ مگر یہ ابدی حقیقت ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے۔ انسان ظلم کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اگر مجرم دنیا میں سزا سے بچ بھی جائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کی عدالت میں نہیں بچ سکتے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا‘ سویڈن کے ایک کارٹونسٹ لارس ولکس نے 2007ء میں گستاخانہ کارٹونز بنانے کی جسارت کی تھی۔ اس ملعون کو حکومت کی جانب سے سکیورٹی بھی فراہم کی گئی تھی؛ تاہم اللہ کی قدرت دیکھیں کہ وہ اپنی سکیورٹی کے حصار میں ہی جل کر مر گیا۔ 2021ء میں اس کی کار ایک ٹرک سے ٹکرائی اور گاڑی میں آگ لگ گئی۔ یہ سب کچھ اتنا جلد ہوا کہ کسی کو بھی گاڑی سے نکلنے کی مہلت نہ مل سکی اور ملعون شخص اپنی سکیورٹی پر مامور دو اہلکاروں سمیت جل کر خاکستر ہوگیا۔ قدرت کا اپنا نظام ہے اور قدرت کی لاٹھی تب حرکت میں آتی ہے جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ دنیا میں گناہ کرتے ہیں‘ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں‘ ان کی پکڑ چاہے دیر سے ہو لیکن ہوتی ضرور ہے۔ قدرت کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ قدرت ہر کسی کو ایک مخصوص مدت تک مہلت دیتی ہے مگر جب کسی کا وقت آتا ہے تو پھر اسے بچنے کی کوئی راہ نہیں ملتی۔ اس لیے کسی کو دکھ اور تکلیف دیتے ہوئے‘ کسی پر ظلم کرتے ہوئے یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ اللہ بہت بڑا منصف ہے‘ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور کراماً کاتبین سب کچھ لکھ رہے ہیں۔ اس لیے زمین پر موجود چھوٹے چھوٹے فرعونوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ مظلوم کی آہ سیدھی عرش تک جاتی ہے۔ زمینی فرعون یہ بھول جاتے ہیں کہ قدرت کا انتقام اپنی جگہ بنا کر رہتا ہے۔ جتنے لوگ بھی دوسرے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں‘ ان کو بلاوجہ تکلیف دیتے ہیں وہ خود بھی کچھ عرصے بعد نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔
ان دنوں ایک ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہے؛ جسٹس فار خدیجہ۔ یہ اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہے اور سب لوگ مظلوم طالبہ خدیجہ کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں جس کے ساتھ بہت بدسلوکی ہوئی ہے۔ اس کو مارا پیٹا گیا‘ اس کے بال کاٹ دیے گئے اس کو جوتے چاٹنے پر مجبور کیا گیا اور اس سارے واقعے کی وڈیو بھی بنائی گئی۔ وڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد کرنے والے اسے اپنے مہنگے برانڈز کے جوتے چاٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس وڈیو نے یہ بات بھی ثابت کر دی کہ مہنگے برانڈ لینے سے کوئی انسان مہنگا نہیں بن جاتا، نہ ہی اس میں خاندانی پن آجاتا ہے۔ یہ بات فیصل آباد کے تاجر خاندان نے پوری طرح ثابت کردی کہ آپ پیسوں سے کلاس نہیں خرید سکتے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا‘ کہاں ہوا؟ یہ سب کچھ فیصل آباد کے ایک پوش علاقے کے بنگلے میں ہوا۔ ایک مقامی بااثر تاجر کے گھر میں ہوا اور اس واقعے میں اس کا خاندان اور ملازم ملوث تھے۔ طالبہ کو پہلے اغوا کیا گیا‘ پھر تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ اس کے بال کاٹے گئے، اس کو مجبور کیا گیا کہ وہ جوتیوں کو چاٹ کر سب سے معافی مانگے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی۔
اس کا قصور کیا تھا؟ جو اطلاعات اب تک سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے بوڑھے تاجر سے شادی سے انکار کر دیا تھا‘ جس پر اس تاجر اور اس کے اہلِ خانہ نے ملازمین کے ذریعے طالبہ پر تشدد کیا۔ ملزم شیخ دانش اور اس کی بیٹی اس جرم کے مرکزی کردار ہیں اور انہوں نے طالبہ پر ظلم کیا اور اس کی وڈیو بھی بنائی۔ بتایا جاتا ہے کہ مظلوم طالبہ اور ملزم کی بیٹی‘ دونوں کالج میں کلاس فیلو تھیں۔ طالبہ اکثر اپنی کلاس فیلو کے گھر آتی تھی، اس کو دیکھ کر عمر رسیدہ تاجر نے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا مگر اس کے انکار پر وہ طیش میں آگیا اور اس نے طالبہ کو اغوا کر کے محبوس رکھا اور اس کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ طالبہ اور ملزم کی عمر میں لگ بھگ تیس سال کا فرق ہوگا۔ اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کی خواہش اور انکار پر تشدد اس چیز کا عکاس ہے کہ پیسہ انسان کو نشے میں چُور کر دیتا ہے۔ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے جب اس کے گھر چھاپہ مارا تو اس کے گھر سے اسلحہ اور بڑی مقدار میں الکوحل بھی برآمد ہوئی۔ مرکزی ملزم اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن ملزم کی بیٹی‘ جو اس واقعے کی مرکزی کردار ہے‘ کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس نے حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے؛ تاہم عدالت نے ابھی تک درخواست قبول نہیں کی اور سماعت سوموار تک ملتوی کر دی ہے۔ اب تک مرکزی ملزمہ کی عدم گرفتاری پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں ایک امیر اور بااثر تاجر کی بیٹی اور ایک ڈرائیور کی بیوی کے لیے قانون الگ الگ ہے؟ ایک ڈرائیور کی بیوی کو کسی جرم کے بغیردس ماہ کی بچی سمیت جیل بھیج دیا جاتا ہے اور امیر تاجر کی بیٹی‘ جو ایک بڑے جرم کی مرکزی کردار ہے‘ اب تک آزاد ہے۔
مظلوم طالبہ نے رشتے سے انکار کیا تو سب اس کے دشمن بن گئے۔ ایک لڑکی کو شادی اپنی پسند سے کرنے کا اختیار دینِ اسلام دیتا ہے اور اگر وہ کسی کو ناپسند کردے تو کوئی اس کو رشتے پر مجبور نہیں کرسکتا؛ تاہم ملزم دانش اور اس کی بیٹی شاید دولت کی چمک میں اتنے اندھے ہوگئے کہ واضح دینی احکام کو بھی فراموش کر بیٹھے۔ جب یہ وڈیو سوشل میڈیا پر آئی تو سب ہل کر رہ گئے۔ ملازموں کے ساتھ مل کر طالبہ کو مارا جا رہا تھا۔ اس کے لمبے حسین بال کاٹ دیے گئے، اس کو گالیاں دی گئیں، جوتوں کو چاٹنے پر مجبور کیا گیا اور اس سب کی وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔ اب ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے وڈیو بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر شیئرکرنے کے الزام پر بھی مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزم دانش اور اس کی اہلیہ کو اس میں نامزد کیا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ہے اور یہ اس کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح ایک بااثر خاندان کو سزا دلاتی ہے۔ کہیں پھر سے ایسا تو نہیں ہو گا کہ بااثر خاندان مظلوم طالبہ کو صلح پر مجبور کرے اور ہمیشہ کی طرح معافی تلافی پر یہ معاملہ ختم ہو جائے۔ جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں‘ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو گردش کر رہی ہے کہ تاجر خاندان طالبہ سے معافی مانگ رہا ہے؛ تاہم طالبہ کا نیا پیغام یہ سامنے آیا ہے کہ وہ اس خاندان کے خلاف کارروائی کی خواہاں ہے۔ ہم سب بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ اس کیس میں انصاف ہو۔ ایسے کیسز میں‘ جن میں امیر اور بااثر لوگ غریب متاثرین پر دبائو ڈال کر ان سے راضی نامہ کر لیتے ہیں‘ ریاست کوخود مقدمہ لڑنا چاہیے تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دلائی جا سکے۔
جمعرات کو جس وقت ملزم کو کورٹ میں پیش کیا گیا تو لوگوں نے اس پر تھپڑوں کی بارش کردی کیونکہ سب اس کے ظلم پر نالاں تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ روپیہ پیسہ لوگوں کو سفاک بنا دیتا ہے اور رئیس اپنے سے کم مالیاتی حیثیت کے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ لوگ شاید بھول جاتے ہیں مگر میں یاد دلاتی چلوںکہ نمرود جیسے ظالم بادشاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر کے ذریعے سے رسوا کیا تھا۔ عذاب کے طور مچھر اس کے سر میں گھس گیا تھا اور جب تک نمرود کو سر پر جوتے نہیں مارے جاتے تھے‘ اس کو سکون نہیں ملتا تھا۔ اسی اذیت میں مبتلا رہ کر وہ اپنے انجام سے دوچار ہوا تھا۔ فرعون نے بہت مظالم ڈھائے تھے اور بالآخر سمندر میں غرق ہوکر مرا۔ قارون کو اس کی ساری دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تھا۔ شداد نے زمین پر جنت بنانے کا دعویٰ کیا مگر اسے اپنی خود ساختہ جنت دیکھنے کی مہلت بھی نہ مل سکی اور وہ اس کے دروازے پر ہی مر گیا۔ تاریخ میں ایسی مثالیں جا بجا بکھری پڑی ہیں مگر انسان یہ حقیقت فراموش کر دیتا ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
اس وقت پوری قوم انصاف کی طلبگار ہے اور مظلوم طالبہ کے لیے انصاف چاہتی ہے۔ کسی بھی بیٹی پر ایسا ظلم ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ایک مہذب معاشرہ ہے‘ ہم دورِ جاہلیت میں نہیں رہ رہے کہ کوئی بھی طاقت کے نشے میں کسی کو اپنا غلام بنا لے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی دوسرے انسان پر ظلم ڈھائے۔ جب تک مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں مل جاتی ہم مظلوم طالبہ کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں