سیلاب کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا کہ اب مختلف بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں قدرتی آفت کے بعد متاثرین پر یہ دوسری بڑی مشکل آ پڑی ہے کہ وہ مختلف وبائی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور شدید تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ان بیماریوں میں سر فہرست پیٹ کی بیماریاں اور الرجی ہیں۔اب ان علاقوں میں ملیریا اور ڈینگی بھی وبا کی طرح پھیل رہے ہیں۔ سیلابی پانی پر مچھر افزائش پارہے ہیں اور غول در غول علاقوں میں پھر رہے ہیں۔ سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور خود کو مچھروں سے بچانے سے قاصرہیں۔ ان کے پاس نیٹ یا مچھر مار سپرے موجود نہیں نہ ہی وہ یہ چیزیں خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ آگ لگا کر دھویں سے مچھروں کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاہم ان علاقوں میں مچھروں کی اس قدر بہتات ہو چکی ہے کہ سیلاب متاثرین خود کو بچا نہیں پارہے۔ ڈینگی اس وقت صرف سیلاب زدہ علاقوں میں نہیں پھیل رہا بلکہ یہ پورے ملک میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جن جن علاقوں میں بارشوں اور سیلاب کا ٹھہرا ہوا پانی ہے‘ وہاں مچھروں کے مسکن بن چکے ہیں جو مختلف بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان میں غربت چونکہ بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر لوگ مہنگا مچھر مارسپرے یا لوشن نہیں خرید سکتے‘ اس لیے وہ مچھروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر میں ملیریا اور ڈینگی کے بہت سارے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ مچھروں کے کاٹنے سے جو تین بڑی بیماریاں پھیلتی ہیں ان میں زکا وائرس، ملیریا اور ڈینگی شامل ہیں؛ تاہم اللہ تعالیٰ کے کرم سے زکا وائرس ابھی تک پاکستان میں رپورٹ نہیں ہوا۔
مچھردیکھنے میں جتنے بے ضرر لگتے ہیں‘ حقیقت میں اتنے ہی خطرناک ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ مچھر کو انسان کے لیے سب سے زیادہ جان لیواتصور کیاجاتا ہے کیونکہ ہر سال دنیا بھر میں جتنے لوگ مچھروں کے کاٹنے سے ہلاک ہوتے ہیں‘ اتنے شیر، وہیل مچھلی، اژدھے یا کسی دوسرے جانور کے کاٹنے سے نہیں ہوتے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں سات لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ افراد مچھروں کے کاٹنے سے (ہونے والی بیماریوں کے سبب) ہلاک ہو جاتے ہیں۔زیادہ تر افراد ملیریا کے سبب ہلاک ہوتے ہیں۔ مچھر کے کاٹنے سے خارش ہوتی ہے‘ جلد لال ہوجاتی ہے اور انسان بہت دیر اس جگہ کو سہلاتا رہتا ہے جہاں مچھر نے کاٹا ہوتا ہے۔ کبھی تو وہ حصہ سُوج جاتا ہے۔ مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اکثر یہ پانی پر پروان چڑھتا ہے۔ اس کے ساتھ بند جگہیں جیسے ٹائر‘گملے‘ پودے‘ کچرا اور کھڑا پانی اس کی افزائش کے حوالے سے آئیڈیل جگہیں ہیں۔ ایک مچھر اتنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے کہ انسان کو ہسپتال پہنچا دے اور اس کے علاج پر لاکھوں کا خرچ کرا دے۔
اگر زکا وائرس کی بات کریں تو یہ مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی ایک خطرناک بیماری ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار‘ سر درد‘ جوڑوں میں درد‘ اعصابی دبائواور آشوبِ چشم وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کوئی حاملہ خاتون خدانخواستہ اس مرض میں مبتلا ہوجائے تو اس کے بچوں کے سر پیدائش کے وقت بہت چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ 2015ء میں پہلی بار یہ مرض افریقہ میں دریافت ہوا تھا جس کے بعد وہاں بہت سے ایسے بچوں کی پیدائش ہوئی جن کے سر بہت چھوٹے تھے اور وہ معذوری کا شکار تھے۔ اس کے بعد اس وائرس کے کچھ کیسز لاطینی امریکہ اور بھارت میں بھی سامنے آئے لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم سے یہ وائرس عالمی وبا کی صورت اختیار نہیں کر سکا۔ اس بیماری کا تاحال کوئی علاج نہیں ہے؛ تاہم اس سے بچائو کا حل یہی ہے کہ اپنے آپ کو مچھر کے کاٹنے سے بچایا جائے۔
مچھر کے کاٹنے سے جو بیماری سب سے زیادہ پھیلتی ہے‘ وہ ہے ملیریا۔ یہ اینوفیلیز (Anopheles) نامی مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اس کی علامات میں شدیدبخار‘ جسم میں درد‘ سردی لگنا اور کپکپی شامل ہیں۔ اگر ملیریا بگڑ جائے تو انسان کے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور انسان کا سانس اکھڑنے لگتا ہے۔ ملیریا یا شدید بخار کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹری علاج کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ اس بیماری کی ایک ٹیسٹ سے تشخیص ہوجاتی ہے۔ اس بیماری سے بچنے کا اول طریقہ یہی ہے کہ خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچایا جائے؛ تاہم اس کا علاج موجود ہے مگر ضروری ہے کہ علاج بروقت شروع کیا جائے اور بخار کے حوالے سے کوئی غفلت نہ برتی جائے۔
اب اگر ڈینگی کا جائرہ لیں تو اس کے بہت سے کیسز حالیہ دنوں میں ملک بھر میں سامنے آئے ہیں۔ یہ بیماری ایک مادہ مچھر ادیس ایجپٹی (Aedes aegypti) کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ یہ مچھر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی کے زیادہ تر کیسز ایشیا بالخصوص جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ ڈینگی بخار کی علامات میں تیز بخار‘ جسم میں درد‘ قے‘ سر میں درد‘ جسم پر لال دھبے‘ خارش‘ آنکھوں میں درد وغیرہ شامل ہے۔اگر یہ مرض بگڑ جائے تو جسم سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے۔اس مرض میں جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ دو ٹیسٹوں سے ڈینگی کی تشخیص ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ پلیٹ لیٹس کائونٹ کے ہمراہ دیگر علامات سے بھی اس بیماری کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اس مرض میں مریض کو درد اور بخار کم کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں اور اس کو ڈرپ یا ضرورت پڑنے پر پلیٹ لیٹس لگائے جاتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ بیماری ہے۔ بعض اوقات بخار 103 تک پہنچ جاتا ہے۔ اب اس سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے؟ سب سے پہلے اپنے علاقے میں مچھروں کی افزائش کو ختم کریں۔یہ مچھر پانی پر انڈے دیتے ہیں لہٰذا ان انڈوں اور لاروا کو ختم کیا جائے۔ اس کے ساتھ پانی کو کہیں بھی کھڑا نہ ہونے دیں۔واضح رہے کہ ڈینگی کا مچھر صاف پانی اور ملیریا کا مچھر گندے پانی پر پرورش پاتا ہے۔ لہٰذا صاف پانی کے تمام چھوٹے بڑے ذخیرے جیسے ٹینکی‘ کولر اور مٹکوں وغیرہ کو ڈھانپ کررکھیں۔ اے سی کا پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ کوشش کریں کہ اس کا ڈرین پائپ یا تو سیدھا کسی نالی میں جائے یا اس کو لان وغیرہ میں بھی ڈالا جاسکتا ہے تاکہ پودوں کو پانی مل جائے لیکن لان، کیاری اور گملوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگوائیں۔ گھر اور محلے میں کچرا جمع نہ ہونے دیں۔ گھروں‘ گیراجوں اور سٹور وغیرہ میں موجود پرانے ٹائر ضائع کر دیں۔ مکمل لباس پہنیں۔ مچھرکش سپرے اور لوشن کا استعمال کریں اور نیٹ میں سوئیں۔ یہ مچھر چونکہ غروبِ آفتاب اور طلوعِ آفتاب کے اوقات میں حملہ کرتا ہے‘ اس لیے ان وقتوں میں بالخصوص مچھر کے حملوں سے بچیں۔ اس کے علاوہ حکومت اور لوکل انتظامیہ کو چاہیے کہ سارے علاقوں میں سپرے کرائیں اور مچھروں کے انڈوں کو پانی میں ہی تلف کرکے جوہروں اورتالابوں کو خشک کردیں۔ ڈینگی کے دنوں میں تمام بڑے فوارے بھی بند کردینے چاہئیں تاکہ مچھروں کی افزائش کو روکا جا سکے۔ سوئمنگ پول سے بھی پانی نکال دیا جائے اور نالیوں کی صفائی کرائی جائے۔ مچھروں سے بچائو کے لیے ہر مل کی دھونی کارآمد بتائی جاتی ہے۔
اس وقت سیلاب کے بعد مچھروں کو افزائش کا موقع مل رہا ہے اور وہ سیلابی پانی اور گیلی مٹی میں انڈے دے رہے ہیں، بارش ان کی تعداد کو اور زیادہ کر دے گی۔ ڈینگی اور ملیریا والے مچھر وں کے علاوہ عام مچھر بھی اس وقت سیلاب متاثرین کیلئے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ ان کے کاٹنے سے خارش اور جلد سوجن کا شکار ہورہی ہے۔ سیلاب متاثرین کو نیٹ‘ مچھر کش سپرے اور لوشن بھی دیے جائیں تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اگر یہ بیماریاں پھیل گئیں تو ہمارے ہسپتال اتنے مریضوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکیں گے۔ اگر کوئی شخص ڈینگی اور ملیریا میں مبتلا ہوجائے تو فوری طور پر علاج پر توجہ دء۔ یہ کوئی چھوت کا مرض نہیں ہے‘ اس لیے مریض کی تیمارداری بھی کی جا سکتی ہے؛ تاہم مچھروں سے خود کو بچا کر رکھیں۔ حکومت فوری طور پر اس طرف توجہ دے اور آگاہی مہم چلائے۔