ہم میں صبر کیوں نہیں ہے‘ ہم چپ کیوں نہیں رہ سکتے‘ ہم گھر کوجہنم کیوں بنا دیتے ہیں؟ ساری دنیا کے سامنے ہم مہذب ہونے کی اداکاری کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں۔ گھر تو جائے پناہ ہوتا ہے‘ اگر انسان وہاں بھی محفوظ نہیں ہے تو پھر کہاں جائے؟ اگر انسان اپنے گھر ہی میں دکھ درد نہیں بانٹ سکتا‘ خوش نہیں ہو سکتا تو دنیا کے کس حصے میں اس کو سکون ملے گا؟ وہ پیار کے لیے ترس جائے گا اور شاید غلط راستوں پر چل نکلے گا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب لوگوں کو گھر میں پیار‘ محبت نہیں ملتی تو وہ بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں۔ کوئی نشہ کرنے لگ جاتا ہے تو کوئی بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی جرائم کی راہ پر نکل پڑتا ہے۔ تشدد کا عنصر دونوں اصناف میں پایا جاتا ہے۔ اکثر کیسز میں مرد گھریلو تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ کچھ کیسز میں عورتیں یہ کام کرتی ہیں۔ تشدد کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے‘ اس کو فوری طور پر رپورٹ کرنا چاہیے تاکہ معاملات مزید بگاڑ کا شکار نہ ہو جائیں۔ ایک تھپڑ بھی آپ کو کچھ عرصے بعد قبر میں اتار سکتا ہے۔ ظلم کرنے والا مظلوم کی خاموشی پر شیر ہو جاتا ہے کہ میں مارتا رہوں گا اور دوسرا شخص ہمیشہ چپ رہے گا۔ اس طرح معاملہ کبھی نہیں سدھرتا اور مزید بگڑتا چلا جاتا ہے۔
سب مرد نہیں لیکن کچھ اپنے گھروں میں ایسے ضرور رہتے ہیں جیسے وہ گھر میں وائسرائے ہوں اور سارے گھر والے ان کی غریب رعایا۔ ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی سب ہنسنا‘ مسکرانا حتیٰ کہ بات کرنا بھی بھول جاتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر سب حکم کے غلام بن جاتے ہیں۔ سب کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کسی بات پر ان کی شامت نہ آ جائے۔ انہیں مار نہ پڑ جائے۔ ذرا سی کسی بات پر انہیں گالیاں بھی کھانا پڑ سکتی ہیں۔ اولاد اپنے دل کی بات ڈر کے مارے اپنے ہی والد سے نہیں کہہ پاتی۔ وہ پیار اور توجہ کے لیے ترس جاتی ہے۔ کچھ بچے والدین بالخصوص والد سے اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کے سامنے کچھ کہہ ہی نہیں پاتے۔ بعض والد بھی قصداً خود کو اولاد سے ذرا فاصلے پر رکھتے ہیں۔ اکثر ایسے مرد شوہر کی صورت میں بھی ایک جلاد ثابت ہوتے ہیں۔ جب دل کیا بیوی کو پیٹ ڈالا‘ اس کو گالیاں دیں۔ جب دل کیا سارے خاندان کے سامنے اسے بے عزت کر دیا۔ جب دل کیا سڑک پر مارنے لگے۔ جب دل کیا بازار میں پٹائی کر دی۔ ایسے افراد عورت کو انسان نہیں‘ اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اگرچہ سب مرد ایسے نہیں ہوتے لیکن بہت سے ایسے ہیں جو بیوی بچوں کو مارتے ہیں‘ کھانا کا ٹرے الٹا دیتے ہیں اور چائے کا کپ بیوی کے اوپر پھینک دیتے ہیں۔
اکثر عورتیں چپ رہ کر اس ظلم و ستم کو شہ دیتی ہیں۔ وہ زخمی حالت میں جب گھر سے نکلتی ہیں تو کہہ دیتی ہیں کہ میں سیڑھیوں سے گر گئی تھی، میز کا کونا لگ گیا تھا وغیرہ وغیرہ ، حالانکہ ڈاکٹر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ چپ کرکے ظلم و ستم سہہ سہہ کر یہ اچانک مر جاتی ہیں۔ جب ایک شخص اپنی بیوی کو تھپڑ مار سکتا ہے تو وہی شخص اس کا قتل بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے پہلے تھپڑ کو ہی روک دیں کیونکہ یہ ایک تھپڑ آپ کو جسمانی‘ جذباتی اور نفسیاتی طور پر توڑ دے گا۔ پھر ایک دن یہ شوہر آپ کے سر پر توا‘ ڈنڈا یا ورزش والا ڈمبل مار دے گا یا گولی مار دے گا‘ تیزاب پھینک دے گا یا گلا دبا دے گا یا پھر آپ کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملے گی۔ جس مرد کو گالی گلوچ اور مار پیٹ کی عادت پڑ جائے تو جب تک اس کا نفسیاتی علاج نہ کیا جائے‘ وہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ کسی کی بیٹی کوئی ری ہیب سنٹر نہیں ہے جہاں لوگوں کے بیمار بیٹے ٹھیک ہو جائیں۔ ایک بیس‘ بائیس سالہ لڑکی کسی نشہ باز‘ گالی گلوچ کرنے والے لڑکے کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ اس کا علاج ہسپتال سے کرائیں۔ کسی کی معصوم بیٹی کی زندگی کو جہنم مت بنائیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مارپیٹ کرنے والے لوگ دین سے دور اور نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ اب تک گھریلو تشدد کے جتنے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں کسی کو قتل تک کر دیا گیا‘ ان سبھی واقعات کے مجرمان نشے کے عادی تھے۔ جیسے حیدر آباد کی قرۃ العین کو اس کے شوہر نے جب قتل کیا تو وہ نشے میں تھا۔ اس کے مرنے کا منظر اس چار چھوٹے بچوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اب ان کا باپ جیل چلا گیا ہے اور ماں قبر میں اتر گئی ہے۔ معصوم بچوں کی پوری دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نشے کوحرام قرار دیا ہے کیونکہ اس کے سبب انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ گھریلو تشدد کرنے والے مرد کسی نہ کسی نشے یا بری عادت کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی کی بیٹی یا بہن ان کو ٹھیک نہیں کر سکتی۔ جب بھی کس عورت پر تشدد ہوتا ہے تو ہمارے معاشرے میں اس کو چپ رہنے کی تلقین کی جاتی ہے، گھر کو جوڑے رکھنے کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ چپ رہو‘ مرد کا ہاتھ تو اٹھ ہی جاتا ہے! دیکھو وہ تمہیں کتنی آسائشیں دے رہا ہے۔ اگر تم نے علیحدگی اختیار کر لی تو بچوں کا کیا ہوگا؟ تم گھر کیسے چلائو گی؟ معاشرے میں ہماری عزت خاک میں مل جائے گی۔ جس گھر میں تمہاری ڈولی گئی تھی‘ اب اس گھر سے تمہاری لاش ہی آنی چاہیے۔ اور اکثر کیسز میں پھر ایسا ہی ہوتا ہے‘ کچھ عرصے بعد سسرال سے لڑکی کی لاش ہی واپس آتی ہے۔
نور مقدم کیس ہو یا اب سارہ کا قتل‘ اس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ شاید گھریلو تشدد غریب طبقے کا معاملہ ہے اور امیر چونکہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں تو یہ شاید ان کا مسئلہ نہیں۔ وہ اپنی بہن‘ بیٹیوں کو بہت آزادی دیتے ہیں۔ یہ بالکل غلط مفروضہ ہے۔ اکثر امیر عورتیں بھی استحصال کا شکار ہیں۔ جیسے غریب عورت مار کھاتی ہے‘ ویسے ہی کچھ امیر عورتیں بھی مار کھاتی ہیں۔ غریب عورت اپنوں جوڑوں کو سینک کر‘ رو دھو کر چپ ہوجاتی ہے وہ کسی ڈاکٹر‘ نرس وغیرہ سے کوئی دوائی لے لیتی ہے تاکہ اگلی مار کے لیے خود کو تیار کرسکے۔ امیر عورت میک اپ کی تہہ میں اپنے زخم چھپاتی ہے، کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جاکر روتی ہے، تھراپی کراتی ہے، کبھی کبھی پُرسکون رکھنے والی دوائیاں استعمال کرتی ہے یا پھر بہت شاپنگ کرکے خود کو تسکین دیتی ہے کہ اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ مگر دوبارہ پڑنے والی مار اس کو وہیں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ پہلے ہوتی ہے۔ اس کا مسلسل جسمانی اور نفسیاتی استحصال اس کو دائمی مریض بنا دیتا ہے۔ مار پیٹ کے سبب عورتوں کے چہروں اور جسم پرمستقل نشان پڑجاتے ہیں، خوف اور پریشانی کے سبب ان کے بال گرنے لگتے ہیں، جسمانی امراض کے ساتھ ساتھ ان کو بے شمار نفسیاتی امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ایک صحت مند عورت بیمار ہوجاتی ہے اور پھر اس کو بیماری اور بدصورتی کے طعنے دے کر مزید شرمندہ کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد امرا کا شہر کہلاتا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے ہیں لیکن یہاں نور مقدم کے بہیمانہ قتل جیسے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اسی طرح سارہ کو بھی ہولناک طریقے سے قتل کیا گیا۔ پڑھے لکھے لوگ بھی جہالت اور سفاکیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پولیس کے مطابق‘ دونوں کیسز میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزم نشے میں تھے۔ کیا ایک نارمل انسان یہ سب کر سکتا ہے؟ ایسے افراد کو نفسیاتی مریض ہونے کا مارجن مت دیں۔ ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کیا تو سب ہل کر رہ گئے اور پھر سب نے آواز اٹھائی کہ نور کو انصاف دیا جائے۔ اب اسی نوعیت کے حالیہ واقعے پر بھی سب ششدر رہ گئے۔ملزم کی چند ماہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور بیوی ایک روز قبل ہی پاکستان آئی تھی۔ چند ماہ قبل سپین پلٹ دو بہنوں کو گجرات میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ سب کیا ہے؟ جہاں اس جرم کے ارتکاب پر ملزمان کو کڑی سزا دینا بہت ضروری ہے وہیں ایسی قانون سازی بھی کی جائے کہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو فوری انصاف ملے اور پہلا تھپڑ ہی آخری بنا کر مجرم کو سخت سزا دی جائے۔