8 اکتوبر کو کون بھول سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں! 2005ء میں اس دن ایک ایسا زلزلہ آیا تھا کہ بے شمار لوگوں کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی تھی۔ یہ اتنا شدید زلزلہ تھا کہ شاید ہی کسی نے اس سے پہلے ایسی ہولناکی محسوس کی ہو۔ دینی کتب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پرانی قوموں پر پانی‘ آندھی اور زلزلوں کے ذریعے عذاب نازل کیا گیا۔ اس لیے بھی مجھے یہ یاد رہ گیا اور زیادہ خوف محسوس ہوا اور میں یہ سوچنے لگی کہ کیا ہمیں بھی عذاب میں مبتلا کیا گیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی جو ہم سب نے دیکھی۔ اس دن ہر کوئی خوف محسوس کررہا تھا۔ لوگوں کے گھر گر رہے تھے‘ وہ چیخ و پکار کر رہے تھے۔ اس سانحے میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے‘ بہت سے لوگ عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ بہت سے لوگ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئے۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ملکی تاریخ کے اس بڑے سانحے سے بھی کچھ سبق نہیں سیکھا۔ اگر سیکھتے تو جو علاقے زلزلے سے مکمل تباہ ہو گئے‘ وہاں ایسی تعمیرات ہوتیں جو زلزلے کی صورت میں زیادہ نقصان کا باعث نہ بنتیں۔ شاید ہی ملک کا کوئی شہر یا علاقہ ایسا ہو جہاں ایسے گھر‘ سکول یا عمارات تعمیر کی گئی ہوں جیسی اُن علاقوں میں تعمیر کی جاتی ہیں جہاں بہت زیادہ زلزلے یا سونامی آتے ہیں۔
ہم پے درپے سانحات کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ کیا زلزلے سے ہم نے کچھ سیکھا؟کچھ بھی نہیں! قدرتی آفات کسی بھی وقت آ سکتی ہیں اور انسان ان کے سامنے بے بس ہوتا ہے لیکن اگر ہم بہتر حکمت عملی سے چلیں تو نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ صرف بیانات دیے جاتے ہیں‘ اعلیٰ حکام اور ذمہ داران کی جانب سے فوٹوشوٹ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر ملبہ گرا دیا جاتا ہے۔ اس سیاسی ہماہمی میں بھولے بھالے عوام سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ زلزلے کے سبب جو علاقے تباہ ہوئے‘ وہاں دوبارہ ایسی تعمیرات ہو چکی ہیں کہ اگرخدانخواستہ وہاں پھر زلزلہ آیا تو ایسی تباہی ہوگی کہ جس کی مثال نہیں ملتی ہوگی۔ ان علاقوں میں کئی منزلہ پلازے بن گئے ہیں‘ دریا کے کنارے ہوٹل بن گئے ہیں۔ تعمیرات ناقص ہیں‘ عمارات میں ایمرجنسی ایگزٹ نہیں ہیں۔ بجلی کے تار ہر جگہ لٹک رہے ہیں۔ زلزلے والی جگہوں پر لوہے اور لکڑی کی تعمیرات زیادہ ہوتی ہیں؛ تاہم پاکستان کے وہ زونز‘ جہاں زیادہ زلزلے آتے ہیں‘ وہاں اب بھی تعمیرات سیمنٹ اور اینٹوں سے ہوتی ہیں۔ آفات کے دوران یہ سیمنٹ کے بلاکس ہی انسانوں اور گاڑیوں پر گرتے ہیں اور ایسی تباہی لاتے ہیں کہ شہروں کے شہر ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔
اگر ہم نے 2005ء کے زلزلے سے کچھ سیکھا ہوتا تو 2010ء اور 2022ء میں سیلابوں سے اتنی تباہی نہ ہوتی۔ قدرتی آفات کے بعد ہی ریلیف یا ریسکیو نہیں کرنا ہوتا بلکہ ان کے آنے سے پہلے ان سے متعلق آگاہی دینا اور ان کے خطرات کو کم کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل ہے مگر کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتے۔ کبھی ہمیں اندھی‘ طوفان تو کبھی خشک سالی ہلاک کردیتی ہے۔ کبھی ٹڈی دَل تو کبھی پانی کی کمی کی وجہ سے ہم قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رہی سہی کسر سیلاب پوری کر دیتے ہیں۔ ہر سال ملک مختلف قدرتی آفات کا شکار ہوتا ہے مگر ڈسٹرکٹ سطح پر ریسکیو وغیرہ کا کوئی مؤثر نظام آج تک نہیں بن پایا۔ اس کے لیے تمام اداروں کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت، محکمہ موسمیات، جیولوجیکل ڈیپارٹمنٹ، شہری دفاع، مسلح افواج اور ریسکیو کے اداروں کو سارا سال ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی مشترکہ حکمت عملی ہی سے ہم آفات کی شدت کو کم کرسکتے ہیں۔ 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کو یاد کرتے ہوئے سب 8 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر اپنی اپنی یادداشتیں شیئر کر رہے تھے کہ کون اس وقت کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا۔سب یہی بتا رہے تھے کہ کس طرح ان پر ان کے گھر‘ سکول‘ کالج وغیرہ گر گئے اور کس طرح مقامی افراد نے انہیں ریسکیو کیا؛ کیا اس کے لیے کوئی ادارے کام کر رہے ہیں جو تعمیرات کا معائنہ کریں کہ کیا وہ زلزے کو سہنے کی سکت رکھتی ہیں یا نہیں؟ کئی ایسے ادارے موجود ہیں جو زیرِزمین ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کون سے زون متحرک ہیں‘ کون سا خطہ زلزلوں کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اگرچہ زلزلے کی پیش گوئی نہیں ہوسکتی لیکن جن زونز میں زمین کی پرتیں زیادہ متحرک ہوتی ہیں‘ وہاں یہ خدشہ بہرحال ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ زلزلہ آئے گا۔ اسی طرح ماہرینِ ارضیات ان زونز سے بھی واقف ہوتے ہیں جہاں آتش فشاں یا زیرِ زمین لاوا ہو یا زمین کی نچلی سطح پر حرکت زیادہ ہو۔ کیا پاکستان میں بھی ان سب پر کام ہورہا ہے؟ اس وقت بیشتر نوجوان سوشل میڈیا ایکٹوسٹ یا ٹرینڈ ٹیموں کا حصہ بننے میں مصروف ہیں‘ سو موسمیاتی اور ارضیاتی تبدیلیوں کی طرف کون دیکھے گا؟ اس کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ہماری نئی نسل ان چیزوں سے واقف ہو سکے۔ ہم آفات سے ہونے والے نقصان کو کم کر سکیں۔ جب آگاہی نہیں ہوگی تو خطرات کو لے کر شعور بھی نہیں اجاگر ہو گا۔ یہی ہمارے ساتھ حالیہ سیلاب میں ہوا ہے۔ جولائی ہی سے بارشوں کا سلسلہ رک نہیں رہا تھا‘ بلوچستان پانی میں ڈوب گیا تھا مگر کسی کی اس طرف کوئی توجہ نہیں تھی۔ سب پنجاب میں حکومت کی مسند کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عوام مرتے رہے اور حکمران اتحاد کی یہ کوشش تھی نواز لیگ کو مزید نواز دیا جائے۔ عوام کی مرضی اگرچہ کچھ اور تھی اور 17جولائی کے ضمنی انتخابات میں انہوں نے اس کا کھل کر اظہار بھی کر دیا مگر محلاتی سازشیں جاری رہیں۔ البتہ اس سب کے باوجود اقتدار پی ٹی آئی اور پرویز الٰہی کو مل گیا۔ سیلاب سے پہلے محدود پیمانے پر کے پی اور بلوچستان کو نقصان پہنچا لیکن پھر اگست میں بارشوں سے وہ تباہی ہوئی کہ نظیر ملنا مشکل ہے۔ تین چوتھائی ملک پانی میں ڈوب گیا۔ لوگ اب بھی پانی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کا سامان‘ مال‘ اسباب‘ مویشی سب کچھ بہہ گیا ہے اور وہ مدد اور بحالی کے منتظر ہیں۔
اگر ہم نے 2005ء کے زلزلے اور2010ء کے سیلاب سے کچھ سیکھا ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا۔ محکمۂ موسمیات پیش گوئیاں کرتا رہا لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومتوں اور اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب حکومتوں کو چلنے نہ دیا جائے‘ وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکیں اور اقتدار کی ٹرین کو بار بار ڈی ریل کیا جائے۔ ایسے میں بابو کریسی بھی اپنا کام دھیان سے نہیں کرتی۔ پھر حادثات اور سانحات قوم کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قدرتی آفات کو ہم روک نہیں سکتے لیکن ایک بہترین حکمت عملی کو اپناتے ہوئے نقصان کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ سمندر اور دریائوں کے کنارے زیادہ تعمیرات نہیں ہونی چاہئیں۔ جو نئی تعمیرات ہوں وہ زلزلے اور سیلاب کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہوں۔ آبادیوں کو ایسی جگہوں سے دور بسایا جائے جہاں کثرت سے زلزلوں کا خدشہ رہتا ہے۔ اگر ایسی جگہوں پر آبادیاں پہلے سے موجود ہوں تو بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہر بڑی عمارت میں ایمرجنسی ایگزٹ کا راستہ ہونا چاہیے۔ ہسپتالوں اور ریسکیو اداروں کے پاس ایسے آلات‘ ادویات اور ضروری اشیا ہر وقت موجود ہونی چاہئیں جو ایسے حالات میں درکار ہوتی ہیں۔ فالٹ لائن اور دریائوں‘ سمندروں کے کنارے پر رہنے والوں کو ابتدائی طبی امداد اور تیراکی کی تربیت ضرور ملنی چاہیے تاکہ ان خطوں کے عوام کسی ناگہانی آفت کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ باتیں نصاب کا بھی حصہ ہونی چاہئیں کہ وہ کون سی علامات ہیں جن کو دیکھ کر‘ محسوس کرکے ہم آفات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک غیر ملکی بچی نے مشرقِ بعید کے ایک سیاحتی مقام پر ہزاروں لوگوں کی جان کچھ اس طرح بچائی کہ اس نے اپنی کتاب میں سونامی کے بارے میں پڑھ رکھا تھا اور اس نے جب ہوٹل کی چھت سے یہ منظر دیکھا تو اس نے شور مچا دیا کہ اس وقت سمندر کا پانی‘ جو ساحل سے کافی پیچھے چلا گیا ہے‘ جلد پوری قوت سے واپس آئے گا اور سونامی آئے گا۔ اس کی حاضر دماغی کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جان بچ گئی۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنی نئی نسل کو موسمیاتی تبدیلوں اور قدرتی آفات کے بارے میں پڑھانا ہوگا اورپوری قوم کو آگاہی دینا ہوگی کہ ہم اس دوران اپنے نقصانات کو کیسے کم کرسکتے ہیں۔نئی نسل ٹک ٹاک اور ٹویٹر ٹرینڈز میں مصروف ہے‘ اس کو ان علوم سے متعارف کرائیں جو دنیا‘ موسم‘ ارضیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے میں مدد دیں۔