روز افزوں غیر انسانی واقعات

میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مری‘ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں گزارا ہے۔ کراچی کے علاوہ میں نے تمام شہروں کو خواتین کے لیے محفوظ پایا۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ آپ اسلام آباد میں رات اور دن کی تفریق کیے بغیر کسی بھی وقت موبائل‘ جیولری اور کیش کے ساتھ باہر جا سکتے ہیں۔ میرا چونکہ کوئی بھائی نہیں ہے‘ اس لیے اگر بزرگ والدین کو رات گئے بھی کبھی ہسپتال تک لے کر جانا ہو تو مجھے اور بہن کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ صاف الفاظ میں کبھی مردوں کی وجہ سے کوئی مسائل پیش نہیں آئے۔ ہم خواتین آرام سے ڈرائیو کر سکتی ہیں۔ رات کو بھی اے ٹی ایم جا سکتی ہیں اور خریداری کر سکتی ہیں۔ اسلام آباد نسبتاً ایک محفوظ شہر ہے جو خواتین کو ان کی سپیس دیتا ہے۔ یہاں خواتین کے واک کرنے کا بھی کلچر موجود ہے۔ وہ بچوں کے ساتھ یا تو قریبی پارکس میں واک کرتی ہیں یا پھر گلی میں ہی واک کر لیتی ہیں۔ ان کے احترام میں مرد وہاں واک نہیں کرتے اور فضول کھڑے ہوکر ان کو دیکھتے بھی نہیں ہیں۔ میں اپنے بچپن سے یہ دیکھتی آرہی ہوں۔ یہاں مرد خواتین کا احترام کرتے ہیں اور ان کے واک کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ ہمارے ملک میں کچھ علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں خواتین کا گھر سے باہر نکلنا‘ حتیٰ کہ ان کا پڑھنا لکھنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے تو خواتین کا وہاں واک کرنا تو گناہ ہی سمجھا جاتا ہوگا جبکہ واک کرنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے ‘ اس سے بہت سی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد کے نسبتاً محفوظ ہونے کی وجہ سے یہاں خواتین مختلف پارکس میں صبح و شام حتیٰ کہ رات کو بھی بڑی تعداد میں واک کر رہی ہوتی ہیں اور لازمی نہیں ان کے ساتھ ان کے والد‘ شوہر یا بھائی موجود ہوں۔ اکثر لوگ پارک میں جب خواتین کو دیکھتے ہیں تو ٹریک سے ہٹ جاتے ہیں یا ان کے پاس سے گزرتے ہوئے نظریں نیچی کر لیتے ہیں۔ خواتین کو احترام دینا بہت اچھی بات ہے۔ وہ بھی برابر کے حقوق رکھتی ہیں‘ ان کو بھی اسلامی اور معاشرتی حدود میں رہتے ہوئے ہر کام کرنے کا حق حاصل ہے۔ واک کی غرض سے اسلام آباد کے عوام بڑی تعداد میں ایف نائن پارک کا رخ کرتے ہیں اور وہاں واک کیساتھ ساتھ پکنک‘ سائکلنگ یا گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔ اب بہت سے جوڑے وہاں فوٹو شوٹ کے لیے بھی جاتے ہیں۔ کچھ لوگ وہاں پکنک میں مشغول ہوتے ہیں‘ کچھ بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں اور واک کرنے والے اپنی دھن میں واک کرتے رہتے ہیں۔ یہ پارک بہت بڑا ہے‘ یہاں پر درخت بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہاں کچھ جگہوں پر تو لائٹ اور ٹریک ہے لیکن جہاں جنگل ہے وہاں لائٹ اور ٹریک کا انتظام نہیں۔ تاہم لوگ وہاں گم نہیں ہوتے‘ کچھ لوگ تو جنگل میں بھی چلے جاتے ہیں تاکہ قدرت کا حقیقی لطف اُٹھا سکیں۔ اسی طرح لوگ مارگلہ ہلز میں واقع ٹریک پر بھی واک کرنے جاتے ہیں لیکن خواتین کی بڑی تعداد ایف نائین پارک ہی جاتی ہے کیونکہ یہ پارک شہر کے قلب میں ہے‘ اس لیے سب کو قریب پڑتا ہے۔ بہرحال عوام جہاں بھی جائیں ان کا جان و مال محفوظ رہنا چاہیے۔
گزشتہ دنوں مگر ایف نائن پارک میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ سب ہل کر رہ گئے۔ وہاں شام ڈھلے واک کرتی ایک نوجوان لڑکی کو دو اوباش افراد نے گھیر لیا جو پہلے اُسے ڈراتے دھمکاتے رہے‘اُس کے وہاں واک کرنے پر سوال اٹھاتے رہے اور پھر اُسے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہ کیسی ذہنیت اور سفاکی ہے کہ ایک نہتی لڑکی کو پہلے ذہنی اذیت پہنچائی جائے اور پھر درندگی کا نشانہ بنا ڈالا جائے۔ شنید ہے کہ وہ دونوں افراد مسلح تھے۔ اُنہوں نے متاثرہ لڑکی کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ کچھ حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ شام ڈھلے اُس لڑکی کو پارک میں واک کیلئے جانے کی کیا ضرورت تھی‘ میرے نزدیک مگر اس سب میں اگر کوئی مجرم ہے تو صرف وہ دونوں اوباش افراد ہیں جنہوں نے لڑکی کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ یہ بات معاشرے کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس درندگی کا ذمہ دار صرف وہ درندہ صفت انسان ہوتا ہے جو اس کا مرتکب ہوتا ہے۔ لڑکی کا لباس‘ وقت یا مقام اس کے ذمہ دار نہیں۔ ہمیں وِکٹم بلیمنگ کے بجائے ان مردوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں کیونکہ صرف ان کی گندی ذہنیت ہی ان جرائم کی اصل ذمہ دار ہے۔ جس لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اسے خاموش رہنے کی دھمکی بھی دی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ اس وقت پارک میں نہ آئے۔
سوال مگر یہ ہے کہ پارک کس کا ہے؟ کیا ان غنڈے بدمعاشوں کا جو خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے وہاں آزادانہ گھومتے ہیں یا پھر اِسے اسلام آباد کی فیملیز اور بچوں کے لیے بنایا گیا ہے؟ اطلاعات کے مطابق اس واقعہ میں ملوث مجرمان کی گرفتار ابھی تک عمل میں نہیں آ سکی۔ یہ بات ایف نائن پارک میں جانے والی خواتین اور بچوں کیلئے مزید تکلیف کا باعث ہے۔ ان درندہ صفت افراد کے آزاد ہوتے ہوئے خواتین اور بچے بلاخوف پارک میں کیسے جا سکیں گے۔ اسلام آباد ملک کا داراحکومت ہے‘ اگر یہ شہر بھی اب بچوں اور عورتوں کے لیے محفوظ نہیں تو باقی ملک کا کیا حال ہوگا۔ کیا اب خواتین ان درندہ صفت افراد کے خوف سے باہر نکلنا چھوڑ دیں؟ ایسے عناصر خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے پر سوال اٹھانے والے کون ہوتے ہیں؟ ویسے بھی خواتین کا باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہوس زدہ سوچ اور پرتشدد رویے جرائم کی اصل جڑ ہیں۔
ماضی میں پیش آئے ایسے واقعات میں بھی وِکٹم بلیمنگ دیکھنے میں آئی اور متاثرہ خواتین کو ہی سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس سوچ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں عموماً خواتین کو ہی غلطی کا مرتکب قرار دے کر معاملہ ختم کردیا جاتا ہے۔ جب تک معاشرے سے یہ سوچ ختم نہیں ہوگی تب تک یہ مسائل بھی ختم نہیں ہوں گے۔ کسی بھی خاتون کے لباس یا جگہ کو جواز بنا کر کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس ملک پر خواتین کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ہے۔ ہم سب کو اس سنگین جرم کے خلاف آوازاٹھانا ہوگی۔ تاہم متاثرہ لڑکی کی شناخت کسی بھی پلیٹ فارم پر ظاہر نہیں کی جانی چاہیے۔ پولیس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ وِکٹم کی شناخت چھپائے۔ شناخت ظاہر ہونے پر بھی کئی متاثرہ افراد مزید اذیت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کریں لیکن مظلوم کی شناخت بھی چھپائیں۔
بدقسمتی سے یہ اب کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں رہا‘ آئے روز ملک کے کسی نہ کسی شہر یا گائوں میں ایسے واقعات پیش آنے لگے ہیں‘ کچھ رپورٹ ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر تو رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے اس ذہنیت کے حامل افراد حوصلہ افزائی پاتے ہیں۔ ملک سے اس سوچ کو جڑ سے ختم کرنی کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے ساتھ ہونے والی اس درندگی کا خاتمہ ہو سکے اور ان مجرمان کو سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ ایسے ہی گندی ذہنیت کے حامل افراد کی وجہ سے عالمی منظر نامے پر ملکی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ہمارے گلی محلوں میں تو لوگ بچیوں کو دیکھ کر نظریں جھکا لیتے ہیں‘ ان کو واک کرتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں تو یہ کون لوگ ہیں جو پارکوں میں خواتین کو ہراساں کر رہے ہیں؟ یہ لوگ انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ ایسے افراد کو نشانِ عبرت بنایا جانا چاہیے تاکہ اس ملک کی خواتین یہاں خود کو محفوظ محسوس کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں