''ووٹ کو عزت دو‘‘ یہ نعرہ ہم کب سے سن رہے ہیں اور لگتا بھی یہی تھا کہ نعرہ لگانے والے واقعی ووٹ کو عزت دینا چاہتے ہیں۔ میں چونکہ اسلام آباد اور مری میں پلی بڑھی ہوں تو میں نے یہاں زیادہ تر ووٹنگ کو بہت پُرامن دیکھا ہے۔ میں نے اپنا پہلا ووٹ اٹھارہ سال کی عمر میں کاسٹ کیا تھا لیکن اس سے پہلے بھی انتخابی عمل اپنے بچپن سے دیکھ رہی ہوں‘ یہاں ہمیشہ ووٹنگ پُرامن ہوتی تھی اور کوئی دھاندلی کا شور نہیں مچتا تھا۔ مگر جب میں نے پہلی بار کراچی اور لاہور میں الیکشنز کا جائزہ لیا تو خاصا فرق نظر آیا۔ لاہور میں بہت گہماگہمی تھی۔ کھابے‘ ڈھول‘ شور شرابا تھا۔ ایک دوسرے سے لڑائیاں بھی ہوئیں‘ کارکنان نے خوب نعرے بازی بھی کی۔ کراچی میں الیکشنز کا بہت عجیب تجربہ تھا۔ میں اگرچہ کراچی میں ہی پیدا ہوئی تھی لیکن اس شہر کے ماحول سے واقف نہیں ہوں کیونکہ میرے والدین میری پیدائش سے پہلے ہی اسلام آباد شفٹ ہوچکے تھے۔ ہم صرف عید‘ تہوار پر ہی کراچی جاتے تھے، لہٰذا وہاں پر الیکشن کور کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ گرمی‘ طویل قطاریں‘ پھر اکثر لوگ یہ شکایت کررہے تھے کہ ان کے ووٹ کوئی پہلے ہی کاسٹ کرگیا ہے۔ وہاں کافی تلخی دیکھنے میں آئی‘ یہاں تک کہ فائرنگ شروع ہوگئی اور بہت سے ووٹر ووٹ کاسٹ کیے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ واضح رہے کہ یہ کراچی کے پوش علاقوں کے مناظر تھے، اندرونِ شہر اور اندرونِ سندھ اس سے بھی زیادہ برا حال تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہاں الیکشن نہیں بلکہ کوئی گینگ وار چل رہی ہے۔ ہر جنرل الیکشن میں یہی ہوتا ہے کہ جو جماعت جیت جاتی ہے‘ وہ خوشیوں کے شادیانے بجاتی ہے لیکن جو جماعت ہار جاتی ہے وہ دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیتی ہے۔ اس حوالے سے جامع تحقیقات نہیں ہوتیں‘ لیکن شور مچتا رہتا ہے اور ایک دوسرے سے نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ لیڈران جلسوں میں لڑتے ہیں اور کارکنان سڑکوں پر لڑتے ہیں‘ یوں پورا سیاسی ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ یہ لڑائیاں سوشل میڈیا تک بھی چلی جاتی ہیں اور وہاں بھی گالی گلوچ سے ماحول خراب ہوجاتا ہے۔ سیاستدان اگر دھاندلی سے اتنے نالاں ہیں تو پارلیمان میں ان عناصر کی سرکوبی اور ایسی قانون سازی کیوں نہیں کرتے جس کی وجہ سے دھاندلی کا خاتمہ ہو؟ مگر یہاں ایسا ہوتا نہیں‘ صرف باتیں ہوتی ہیں‘ عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ گزشتہ چار ادوار ہمارے سامنے گزر گئے لیکن آصف علی زرداری، نوازشریف، عمران خان اور شہباز شریف اس حوالے سے کوئی حتمی حل نہیں دے سکے۔ جس طرح بینک اکائونٹس کی ویری فکیشن کے لیے مشین پر انگوٹھا لگایاجاتا ہے‘ باقی ضروری معاملات کیلئے بھی بائیومیٹرک تصدیق ہوتی ہے‘ اسی طرح ووٹنگ بھی بائیو میٹرک ہوسکتی ہے۔ انگوٹھا لگا کر ووٹر اپنے ووٹ کی تصدیق کرے اور ووٹ کاسٹ کر دے۔ اس طرح دھاندلی بھی نہیں ہوسکے گی کیونکہ ہر فرد کے انگوٹھے کا نشان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ دھاندلی ہونا اس وقت ناممکن ہوجاتا ہے جب ہرچیز کمپوٹرائزڈ ہو۔ ہمارے ہاں ابھی تک ٹھپہ سسٹم چل رہا ہے۔ بہت بار یہ شور مچ جاتا ہے کہ بیلٹ باکس غائب ہوگئے‘ چوری ہو گئے‘ ووٹ ضائع ہوگئے‘ کبھی کبھی تو پورے کا پورا عملہ غائب ہوجاتا ہے اور کبھی ووٹوں سے بھری گاڑیاں لاپتا ہوجاتی ہیں؛ تاہم نظام میں پھر بھی تبدیلی نہیں آتی۔ دنیا بھر میں اب کمپیوٹرائزڈ نظام اپنایا جا رہا ہے، ہر چیز کیلئے بائیو میٹرک نظام کو سب سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں وہی ٹھپہ سسٹم چل رہا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کا ووٹ اس طرح ضائع ہوجاتا ہے کہ وہ جب ووٹ کو تہہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف بھی اِنک کا نشان لگ جاتا ہے۔ مگر کسی کی اس جانب توجہ ہی نہیں کہ الیکشن ریفارمز کتنے ضروری ہیں۔
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ محض ایک سیاسی نعرہ ہے جو کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا کیونکہ عوام کے ووٹ کی قدر کسی کو معلوم ہی نہیں۔ عوام ایک شخص کو ووٹ دے کر منتخب کرتے اور اسمبلی بھیجتے ہیں لیکن محلاتی سازشیں عوام کا مینڈیٹ چھین لیتی ہیں اورحقدار کی جگہ کوئی اور آ جاتا ہے۔ اسی طرح کئی بار فلور کراسنگ کر کے منتخب نمائندہ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر کسی مخالف جماعت کے ساتھ مل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں موروثی سیاستدان بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کو پارلیمان کی فتح کہتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا مارا گیا ہے‘ یوں نہاں خانوں میں ووٹروں کی قسمت کو تبدیل کرنا مناسب نہیں تو اس کو حکومت کے خلاف بولنے کے جرم میں حوالات تک کی سیر کرادی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہاں بولنا منع ہے کیونکہ بولنے والے کا وہ حال کیا جاتا ہے کہ وہ نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ اس وقت پنجاب اور کے پی کے پندرہ کروڑ سے زائد عوام اپنے ووٹ کے حق کا دفاع کررہے ہیں اور بار بار یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری الیکشن کرائے جائیں۔ جب کوئی اسمبلی تحلیل ہوتو آئین یہ کہتا ہے کہ وہاں نوے دن کے اندر اندر الیکشن کرائے جائیں؛ تاہم پی ڈی ایم حکومت فی الحال الیکشن کی طرف نہیں جانا چاہتی اور اس حوالے سے مختلف حیلے بہانے کررہی ہے۔ اقتدار کی کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے کہ اس سے الگ ہونا مشکل ہوتا ہے۔ عدالت نے یہ واضح حکم دیا کہ پنجاب اور کے پی میں نوے دن میں انتخابات کرائے جائیں مگر نگران حکومتیں تو ایسے آ کر بیٹھ گئیں جیسے دو‘ تین سال کا پڑائو ہو۔ ان کا بنیادی کام یہ ہے کہ الیکشن کرائیں اور گھر کو جائیں۔ جب ملک میں مختلف میلوں کے انعقاد‘ میچز کرانے کے پیسے ہیں‘ پُرتعیش افطاریاں ہورہی ہیں تو پھر الیکشن کرانے کے پیسے بھی نکل سکتے ہیں۔ صرف الیکشن کے لیے خزانہ خالی ہے‘ باقی سب کاموں کیلئے خزانہ بھرا ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ محض ٹال مٹول کے بہانے ہیں۔
اس وقت عوام کی یہی خواہش ہے کہ الیکشن ہوں اور وہ اپنے حاکموں کا خود تعین کریں‘ اقتدار ان لوگوں کے حوالے کیا جائے جو اس کے اصل حقدار ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے کہ محلاتی سازشیں کرکے ایک دوسرے سے چلتی ہوئی حکومتیں چھین لی جائیں اور جمہوریت اور پارلیمان کو کمزور کیا جائے۔ اس سیاسی بدحالی کے ذمہ دار خود سیاست دان ہیں جو اپنے فیصلے خود نہیں کرپاتے اور دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو لے کر قومی اسمبلی کو بحال کرنے کے فیصلے پر پی ڈی ایم بہت شاداں تھی، اگر اس وقت عدالتوں کے فیصلے درست تھے تو اب انہیں تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ پی ڈی ایم حکومت اب کیوں الیکشن سے بھاگ رہی ہے؟ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کہاں گیا؟ ووٹ کو عزت تبھی مل سکتی ہے جب الیکشن ہوں اور اقتدار عوام کے اصل نمائندوں تک منتقل ہو۔
اب الیکشن کرانے کا حکم تو آگیا ہے اور عوام نے اس فیصلے کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ وہ خوش ہیں کہ نئی حکومت آئے گی تو معیشت چل پڑے گی اور مہنگائی کا بوجھ کچھ کم ہوگا کیونکہ وہ اس حکومت سے مکمل مایوس ہوگئے ہیں جس کی توجہ صرف اپنے اقتدار اور چند سیاسی خاندانوں پر مرکوز ہے۔ عوام کی اس حکومت کو کوئی پروا نہیں۔لوگ مہنگائی سے مریں یا آٹے کی لائنوں میں لگ کر‘ اونچے محلات میں رہنے والے حکمرانوں کو کچھ پتا نہیں چلتا۔ عوام اور اشرافیہ ایک دوسرے سے بہت دورہیں۔ اشرافیہ‘ جو ڈیڑھ لاکھ کا مفلر پہن کر پرچی پر لکھی ہوئی تقریر سے غریبوں کی بات کرتی ہے‘ اس کو غریبوں کے مسائل کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ مسائل کا حل صرف الیکشنز ہیں۔ اقتدار جب عوام کے اصل نمائندوں کے پاس جائے گا تو سسٹم پر اعتماد بڑھے گا۔ نہ صرف پنجاب اور کے پی بلکہ قومی اسمبلی توڑ کر وفاق میں بھی الیکشن کرائے جائیں اور ووٹ کو عزت دی جائے۔