ملک جب بند ہو تو کیا ہوتا ہے ؟

جب جس کا دل کرتا ہے‘ ملک کو بند کر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بھی ''برف پانی‘‘ والا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو اُس وقت ایک گیم کھیلا کرتے تھے جسے ''برف‘ پانی‘‘ کہا جاتا تھا۔ جس وقت کوئی بچہ ''برف‘‘ بولتا تو سب بچے اپنی اپنی جگہوں پر منجمد ہو جاتے اور جب ''پانی‘‘ بولا جاتا تو سب جمے ہوئے بچے دوبارہ بھاگ دوڑ شروع کر دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بھی یہی کھیل جاری ہے۔ اس ملک کی ڈوریاں جس کسی کے ہاتھ میں ہیں‘ وہ برف پانی والا کھیل ہی کھیل رہا ہے۔ جب چاہا ملک کا پہیہ جام ہو گیا‘ جب چاہا سب کچھ معمول پر آ گیا۔
جب بھی دھرنے‘ جلسے اور احتجاج وغیرہ ہوتے ہیں تو اس میں سب سے زیادہ آن لائن کام کرنیوالے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو فری لانسر ہیں‘ کچھ میرے جیسے ہیں جو گھر پر رہ کر ہی آفس وغیرہ کا کام کرتے ہیں‘ بے شمار ایسے ہیں جو آن لائن آئی ٹی کا کام کرتے ہیں یا مختلف آن لائن فورمز پر اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں‘ جیسے گرافک ڈیزائننگ‘ ویب ڈیزائننگ وغیرہ۔ کچھ افراد فوڈ ڈلیوری وغیرہ اور کچھ آن لائن ٹیکسی سروس سے وابستہ ہیں۔ یہ سب افراد انٹرنیٹ کی بندش سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ جب سیاسی احتجاجوں‘ لانگ مارچوں یا دھرنوں کی وجہ سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کیا جاتا ہے تو یہ افراد اپنا کام وقت پر پورا نہیں کر پاتے جس سے ان کی نوکری جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انٹرینٹ بند ہونے سے وہ تمام ایپس کام نہیں کر پاتیں جن سے آن لائن شاپنگ ہوتی ہے، جن سے فوڈ ڈلیوری ہوتی ہے یا جدید کیب سسٹم وغیرہ‘ یہ ایپس انٹرنیٹ کی غیرموجودگی میں چل نہیں پاتیں اور سب لوگ اس سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ چار‘ پانچ دنوں میں انٹرنیٹ کی بندش سے ان تمام لوگوں کا کتنا نقصان ہوا ہو گا۔ وہ لوگ جو سخت گرمی ہو یا سردی‘ ہمارا کھانا لے کر آتے ہیں یا ہمارے پارسلز بروقت گھر پہنچاتے ہیں‘ کیا وہ ان چار‘ پانچ دنوں میں اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا سکے ہوں گے؟ کتنے ہی فری لانسرز اور یوٹیوبرز نے بتایا ہے کہ ان کو اب تک لاکھوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کے لیے ایک نیا ذریعۂ آمدنی ہے۔ لوگ اپنی وڈیوز‘ اپنا کونٹینٹ وہاں اَپ لوڈ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومت نے یوٹیوب اور ٹویٹر کو بند کیا ہوا ہے۔ بہت سے حکومتی اراکین اور سرکاری ادارے خود وی پی این کا استعمال کرکے ان ایپس کو استعمال کر رہے ہیں‘ پھرعوام پر بندش کیوں لگائی گئی؟
انٹرنیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی آن لائن کلاسز نہیں لے سکے۔ اب تعلیمی اور دینی بہت سی کلاسز آن لائن ہی ہوتی ہیں۔ زوم، مائیکرو سافٹ ٹیم اور اسٹیم جیسے فورمز آن لائن کلاسز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش سے یہ کلاسز بھی نہیں ہو سکیں کیونکہ نہ وائی فائی چل رہا تھا اور نہ ہی تھری جی اور فور جی چل رہے تھے۔ آج کے دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس بہت ضروری ہیں کیونکہ اب معمولاتِ زندگی انہی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایپس ہماری معمول کی زندگی میں رابطے کا بھی اہم ذریعہ ہیں۔ اگر ہمارا دوسروں سے رابطہ ہی کٹ جائے تو طرح طرح کی افواہیں جنم لیتی ہیں۔ ٹریفک کی صورتحال، موسم کا حال، معلوماتِ عامہ، سرکاری و سیاسی خبروں سے آگاہی سمیت شاپنگ تک اب انٹرنیٹ کی بدولت ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی بندش ہی کا نقصان تھا کہ جب لوگوں کو درست معلومات نہیں مل رہی تھیں تو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی افواہیں اڑا دی گئیں۔ ان کے علاوہ بھی مختلف طرح کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ یہ سب غلط افواہیں تھیں لیکن جب جلائو گھیرائو ہو رہا ہو‘ درست معلومات کے حصول کے ذرائع پر بھی قدغن لگا دی جائے تو پھر افواہوں کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، پھر عوام جو سنتے ہیں‘ اسی کو سچ مان لیتے ہیں۔ ہمیں کبھی بھی بنا تصدیق کسی بھی خبر کو آگے نہیں پھیلانا چاہیے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی عدم دستیابی عوام کو خوف اور بے چینی میں مبتلا کر دیتی ہے کہ پتا نہیں آگے کیا ہونے والا ہے۔ سب سے بڑھ کر آن لائن کام میں رکاوٹ کی وجہ سے ہونے والا مالی نقصان‘ جو عوام کو معاشی طور پر مزید پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
اسی طرح جب ملک بند ہوتا ہے تو دیہاڑی دار، نوکری پیشہ اور کاروباری لوگ‘ سب متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ دیہاڑی پر کماتے ہیں کہ جتنے دن وہ کام کریں گے‘ اتنے دنوں کے ان کو پیسے ملیں گے‘ اگر وہ کام نہیں کریں گے تو پیسے بھی نہیں کما سکیں گے۔ راستوں کی بندش اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سے ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس لیے جلسے‘ دھرنے‘ احتجاج وغیرہ کے دوران کبھی بھی ملک کو بند نہیں کرنا چاہیے نہ ہی کسی بھی املاک کو نقصان پہنچانا چاہیے۔ قومی املاک ہمارے ٹیکسز کے پیسوں سے بنی ہیں‘ ان کا نقصان دراصل شہریوں اور خود عوام کا نقصان ہے۔ بہت سی عمارات قومی وحدت کی عکاس ہیں۔ قومی یادگاریں ہمارا اثاثہ‘ ہمارا فخر ہیں۔ ان کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ پہلے احتجاج وغیرہ میں ٹائر جلتے تھے لیکن اب قومی املاک پر حملہ کیا جا رہا ہے‘ جو بہت خطرناک رجحان ہے۔ اس کے پیچھے کون سے عناصر تھے؟ کس نے مظاہرین کو قومی املاک پر حملہ کرنے پر اُکسایا‘ انتظامیہ اور پولیس نے مظاہرین کو روکا کیوں نہیں؟ ان سب باتوں کی جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تمام فریق مل کر بیٹھیں اور عوامی جذبات کو ٹھنڈا کریں۔ ہم گروہ‘ جتھا یا ہجوم نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔ یہ ملک‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہم سب کا گھر ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر دکھانا ہو گا۔ اپنے نظریاتی یا سیاسی اختلافات کو بھول کر پاکستان کے مفاد کو سب سے پہلے رکھنا ہو گا۔
مجھے یاد ہے جب 1997ء میں مسلم لیگ کے دورِ حکومت میں سیاسی جتھوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ایک کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔ ہم سب بہت حیران ہوئے تھے کہ ایسا کیوں ہوا ہے‘ ایک آئینی عمارت بھی سیاسی کارکنان سے محفوظ نہیں۔ اس کے بعد‘ ماضی قریب میں بھی پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران کارکنان نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر ہلہ بول دیا تھا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے‘ کسی بھی سیاسی صورتحال میں قومی تنصیبات پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے۔ جس طرح عوام سب سے پہلے اور سب سے اہم ہیں‘ اسی طرح قومی تنصیبات بھی اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس وقت ملک کو اس نہج پر لے جایا جا چکا ہے کہ ہر جگہ تقسیم اور نفرت بڑھ گئی ہے۔ آپ اپنا موقف جس بھی حوالے سے دیں‘ مخالفین آپ کے ساتھ ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ ساری دنیا اس وقت یہ تماشا دیکھ رہی کہ کچھ لوگوں کی انائوں‘ غرور اور تکبر کی وجہ سے پاکستانی عوام ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ان میں اتفاق و محبت ختم ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا سکتے ہیں۔ حالات کو اس نہج پر پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ اس ساری صورتحال کے ذمہ داران وہ ہیں جو ڈیلز کرتے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہیں۔ ایک سال سے عوام موجودہ سیاسی سیٹ اَپ سے شدید نالاں ہیں مگر اس کے باوجود الیکشن نہیں کرائے جا رہے اور مختلف حیلے بہانوں سے اپنے اقتدار کو طول دیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ اپنی انا کی تسکین کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اس سب میں یہ کیوں نہیں دیکھا جا رہا کہ ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے‘ ملک میں نااتفاقی بڑھ رہی ہے‘ لوگ ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ قومی مفاد پس پشت چلا گیا ہے مگر کسی کو کوئی پروا ہی نہیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا۔ سب اپنے اپنے ذاتی مفاد کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ کسی کو ان بھیانک اثرات کی پروا ہی نہیں جو ان مسائل کی وجہ سے جنم لیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ آنکھیں کھولیں اور ان مسائل کا حل نکالیں۔ ملک کو بند کرنے سے‘ سڑکوں پر کنٹینرز لگا دینے‘ دھرنے دینے سے‘ انٹرنیٹ بند کرنے سے اور سوشل میڈیا سائٹس کو ڈائون کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سوچنے‘ بولنے اور لکھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ انسان اپنی فطرت میں آزاد ہوتا ہے‘ وہ قید اور پابندیوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے بہترین طریقہ یہی ہے کہ مل کر ان مسائل کا حل نکالیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں