جس وقت میں لاہور میں رہتی تھی‘ اس وقت میٹرو بس کا ٹریک بن رہا تھا۔ دھول‘ مٹی اور حادثات روز کا معمول تھے۔ موٹر سائیکل سوار سڑکوں پر کھڈوں اور تعمیراتی سامان کی وجہ سے حادثات کا زیادہ شکار ہوتے تھے۔ پل پر پل دیکھ کر میں اکثر یہ سوچتی کہ یہ بسیں سڑک پر بھی تو چل سکتی ہیں‘ پھر اتنا کنکریٹ‘ لوہا‘ سریا اور سرمایہ کیوں لگایا جارہا ہے۔ لاہور کبھی باغوں کا شہر ہوتا تھا‘یہاں پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوتی تھی‘ نہر کا صاف ستھرا پانی اور شہر کے اردگرد دریا اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتے تھے۔ مگر پھر لاہور بدل گیا۔ اب وہاں آلودگی کا راج ہے۔ اب اس کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹریفک کا نظام بھی بدترین ہوگیا۔ لاہور میں اپنے قیام کے دوران میں نے متعدد حادثات کا مشاہدہ کیا۔ میرے سامنے لوگ سڑکوں پر گرتے اور خون میں لت پت ہوجاتے تھے۔رش اور تعمیرات کے سبب ایسا لگتا تھا کہ یہ شہر‘ یہ صوبہ بنا کسی حکومت کے چل رہا ہے۔ پھر جب میں اسلام آباد واپس آئی تو یہاں بھی عجیب صورتحال دیکھی۔یہاں بھی ٹریفک کا بہائو زیادہ ہوگیا‘ مزید سڑکیں اور ایونیو بن رہے تھے اور تاحال بن رہے ہیں۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے حالانکہ شاہراہوں کے اردگرد لگے ہوئے یہ پیڑ اسلام آباد کے موسم کو ٹھنڈا اور شہر کی فضا کو دلفریب رکھتے تھے۔ اب تو دھویں اور ٹریفک سے شہر کی وہ حالت ہوئی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ درجہ حرارت بہت بڑھ گیا ہے‘ گرمی اب بہت شدید ہوتی ہے، حالانکہ چند سال پہلے تک ایسا نہیں تھا۔ پھر اگر سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجائے تو آپ سیدھا دھوپ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اوپر سے تیزرفتاری اتنا بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اب شہرِ اقتدار میں بھی حادثات کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بڑی سواریاں چھوٹی سواریوں کی کم ہی پروا کرتی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ٹرک‘ ٹرالے اور بس والے قصداً چھوٹی گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
ایک بار میں اور میری بہن راولپنڈی جارہے تھے کہ دو بس والوں نے سڑک پر ریس لگانا شروع کردی۔ ان کی بسیں سواریوں سے بھری ہوئی تھیں مگر انہیں کسی کی پروا ہی کب تھی۔ انہوں نے اپنی بسیں لگ بھگ ہماری گاڑی پر چڑھا دی تھیں۔ ہم ہارن پہ ہارن بجارہے تھے لیکن ان کی ساری توجہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے پر تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہماری گاڑی ان دونوں بسوں کے درمیان پھنس گئی اور ہمیں کہیں سے بھی نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ ان کی یہ بدتمیزی نہ صرف ہمارے لیے شدید کوفت کا باعث تھی بلکہ مسافروں کے لیے بھی جان کا رسک تھی۔ یہاں تو جس کا جو دل کرتا ہے‘ گاڑی‘ ٹرالی‘ ٹرک میں بھر کر سڑک پر اتر آتا ہے، سریے، ڈنڈے، فصلیں، جانور وغیرہ گاڑیوں میں لاد کر سڑکوں پر آجاتے ہیں، باقی سب ان کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں ایسی سواریوں کی بریک ہی کام نہیں کرتی۔ کبھی کبھی ان کی یکدم بریک یا تیزرفتاری دوسرے افراد کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔
اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھانا تو معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کرائے بھی اپنی پسند کے وصول کیے جاتے ہیں۔ دھواں چھوڑتی یہ گاڑیاں ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ اس پر مستزاد ان کے غیر محتاط رویے اور اوور سپیڈنگ‘ جو قیمتی زندگیوں کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ ان تمام ڈرائیورز کا ڈیٹا اکٹھا کیا جانا چاہیے جو پبلک ٹرانسپورٹ چلارہے ہیں۔ ان کے باقاعدہ ٹیسٹ ہونے چاہئیں کہ وہ کسی نشے کی عادت کا شکار تو نہیں، ان کا رویہ کیسا ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ عمومی طور پر ڈرائیورز کا رویہ غیر محتاط ہوتا ہے۔ وہ بات بات پر غصہ کرتے ہیں، روڈ ریج کا شکار ہوتے ہیں اور چھوٹی گاڑیوں اور موٹرسائیکل والوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں اور اکثر جان بوجھ کر ان کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح جب بڑی بس‘ ٹرالے اور ٹرک وغیرہ حادثات کا شکار ہوتے ہیں تووہ لوگ بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں جو دوسری لین حتیٰ کہ دوسری سڑک پر موجود ہوتے ہیں۔
ابھی موٹر وے پر ہوئے ایک خوفناک بس حادثے کی وڈیو سامنے آئی ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بس تیز رفتاری سے موڑ کاٹتے ہوئے الٹ گئی اور دوسری سڑک پر جا گری۔ یہ حادثہ اتنا خوفناک تھا کہ اس کی زد میں دیگر گاڑیاں بھی آ گئیں۔ بس جس طرح سے موڑ کاٹتے ہوئے گری‘ مجھے تو وڈیو دیکھ کر ہی خوف آیا کہ کس طرح لوگوں کے سر لوہے کی چھت سے ٹکرائے ہوں گے۔ وڈیو میں ایک شخص کو بس سے باہر گرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ایسے دلخراش مناظر‘ اللہ کسی کو بھی یہ سب نہ دکھائے۔ انسانی اعضا‘ سامان اور لوگوں کے خواب اور امیدیں موٹروے پر بکھرے پڑے تھے۔ ایسے حادثے ہر روز ہوتے ہیں لیکن کوئی کچھ کرتا ہی نہیں، کسی کو احساس ہی نہیں کہ ان حادثات میں کتنی قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ کتنے ہی لوگ ایسے حادثات میں زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ ان حادثات کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے گاڑیوں کی سیفٹی چیک کی جائے۔ ہمارے ملک میں پیسنجر سیٹ پر نہ تو بیلٹ ہوتی ہے‘ نہ ہی سیفٹی بیگز۔ اتنی اتنی مہنگی گاڑیاں بک رہی ہیں لیکن جب حادثہ ہوتا ہے تو لگتا ہے کہ جیسے گاڑی نہ ہو‘ کوئی ٹین کا ڈبہ ہو۔آج کل مارکیٹ میں موجود گاڑیاں حادثے کی شدت کو بالکل بھی برداشت نہیں کرپاتیں۔
اسلام آباد میں سرینگر ہائی وے اور بلیو ایریا پہ لگ بھگ ہر روز کئی حادثات ہوتے ہیں۔ وجہ تیز رفتاری ہے‘ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی ہے یا کچھ اور‘ اس کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے ہوسکتا ہے۔ لوگ کو پابند کیا جائے وہ کسی بھی صورت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کریں۔ دن کے وقت ہیوی ٹریفک کا داخلہ سڑکوں پر قطعی بند ہوناچاہیے۔ رات کے وقت بھی ان پر کڑی نظر رکھنی چاہیے کہ ڈرائیور ریس تو نہیں لگارہے‘ تیزرفتاری تو نہیں کر رہے، چھوٹی گاڑی والوں کو ہراساں اور خوفزدہ تو نہیں کر رہے۔ تمام ڈرائیوز کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ صرف گاڑی چلانا آنا ضروری نہیں‘ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ کسی طور ٹریفک اشارے کو نہیں توڑنا چاہیے‘ نہ ہی حد رفتار سے زیادہ پر گاڑی چلانی چاہیے۔ ایک شخص کی غلطی کتنی ہی دیگر زندگیاں تباہ کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں سواری کا معائنہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کا انجن‘ ٹائر اور بریک وغیرہ کو چیک کرنا بہت ضروری ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔ ڈرائیورز کو چاہیے کہ سفر پر نکلنے سے پہلے اپنے طور پر بھی یہ چیزیں چیک کریں کہ گاڑی میں ایندھن کتنا ہے‘ ٹائر اور بریکیں کیسی ہیں۔ اب جو حادثہ موٹروے پر ہوا ہے‘ اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ حادثہ بریک فیل ہونے سے ہوا‘ حالانکہ وڈیو دیکھ کر صاف لگ رہا ہے کہ یہ تیزرفتاری کی وجہ سے ہوا اور خطرناک موڑ پر بس اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی۔اس سانحے میں مسافروں کے ساتھ وہ لوگ بھی زد میں آئے جو سڑک پر اپنی ذاتی گاڑیوں میں محوِ سفر تھے۔
ہر حادثے کے بعد ہم ایک‘ دو دن افسوس کرتے ہیں پھر اپنی زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں جبکہ یہ ڈمپر‘ ٹرک‘ بس اور ٹرالے لوگوں کو کچلتے ہوئے گزرتے رہتے ہیں یا کبھی خود حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حادثات کے پیچھے سب سے بڑی وجہ تیزرفتاری اور ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنا ہے۔ لوگ بنا لائسنس کے گاڑی چلا رہے ہیں‘ اپنے کم عمر بچوں کو گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں دے دیتے ہیں‘ اکثر بچے ون ویلنگ کرتے ہوئے سڑکوں پر گرتے ہیں اور عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک سارجنٹ لوگوں کو منع بھی کرتے ہیں لیکن لوگ سنی اَن سنی کردیتے ہیں۔ اتنی سخت گرمی میں سارجنٹ اور وارڈن کی ہمت ہے کہ وہ ٹریفک کے بہائو کو بنا تعطل چلاتے ہیں اور گرمی‘ دھوپ اور حبس میں اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے رولزکی خلاف ورزی کرنے والوں کا چالان کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی عوام غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور حادثات کو سانحات میں بدل دیتے ہیں۔