آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے‘ اس کو ہمارے اسلاف نے‘ ہمارے اجداد نے بہت مشکل سے حاصل کیا۔ غلامی میں زندگی بسر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔پاکستان کا حصول مسلسل جدوجہد ہی سے ممکن ہوا۔ اس آزادی کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ ایک طویل سیاسی جدوجہد کی گئی۔ آزادی کے موقع پر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی جس میں لاکھوں افراد نے اپنی جانیں دے کر اس ملک کی بنیاد رکھی۔ یومِ آزادی پر اپنے شہدا، غازیوں اور اکابرینِ پاکستان کو یاد کرکے ان کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ ان کو یاد کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان کے لیے قرآن خوانی کی جائے اور ان کی بخشش کے لیے دعا کی جائے۔ دعا کسی بھی مسلمان کے لیے سب سے اچھا ہدیہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے جن جن لوگوں کا لہو اس وطن کی مٹی میں شامل ہے‘ ان کے لیے سب سے بہترین ہدیہ ایصالِ ثواب ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد شہدا اور قومی شخصیات کی قبر پر حاضری اور فاتحہ خوانی ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
کچھ شہروں میں ایسی عمارتیں بھی موجود ہیں جن میں اکابرینِ پاکستان کے مجسمے‘ تصاویر اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ شہروں میں تحریک پاکستان کے رہنمائوں کے گھر بطور میوزیم موجود ہیں۔ قومی ایام پر ان جگہوں پر جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اپنے بزرگوں کے کارناموں سے واقف ہو سکے۔ ایسی جگہوں پر حاضری دیتے وقت یہ بھی ضروری ہے کہ ان جگہوں پر خاموشی اختیار کی جائے‘ شور شرابے اور ٹک ٹاک؍ وڈیو بنانے سے پرہیز کیا جائے۔ بچوں اور نئی نسل کو اپنے بزرگوں کے بارے میں بتائیں۔ بہتر یہ ہے کہ تاریخی مقامات پر جانے سے قبل خود بھی اس حوالے سے کچھ پڑھ کر‘ کچھ سرچ کر کے جائیں یا وہاں جا کر گائیڈز کی خدمات حاصل کریں تاکہ وہ آپ کو‘ آپ کے بچوں کو تاریخ سے آگاہ کریں۔ اس کے ساتھ مشاعرے‘ مباحثے اور مذاکرے میں شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ اس دن کو فکر خیزی کے طور پر منانا چاہیے، یہ دن پٹاخے چلانے یا باجا بجانے کے لیے نہیں ہے۔
نئی نسل اپنے حساب سے یہ قومی دن منانا چاہتی ہے جبکہ اس دن کو منانے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ نوجوان سلنسر نکال کر موٹر سائیکل چلاتے ہیں‘ ون ویلنگ کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ ریس لگاتے ہیں۔ یومِ آزادی کے موقع پر صرف پنجاب میں بار سو سے زائد ٹریفک حادثات پیش آئے جن میں ہزاروں افراد زخمی اور درجنوں جاں بحق ہوئے۔ کسی قومی دن یا تہوار کے موقع پر نوجوان ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور اکثر ایسے ہولناک حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اشرافیہ قانون شکنی کر رہی ہے تو وہ بھی قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز نہیں کرتے۔ ویسے بھی ہمارے نوجوانوں کے پاس تفریح کے نہایت محدود ذرائع ہیں۔ وہ ٹک ٹاک پر اداکاری کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ عوام کی تعداد کی نسبت سے تفریحی مقامات نہایت کم ہیں، اسی لیے اکثر نوجوان سڑک پر اوورسپیڈنگ کر کے‘ ون ویلنگ کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جشن آزادی منا لیا ہے۔ بہت سے یہ بھی نہیں کر پاتے کہ اب پٹرول ہی اتنا مہنگا ہو چکا ہے۔
اسی طرح جشن کی تقریبات کا ایک حصہ آتش بازی‘ پٹاخے اور پھلجھڑیاں ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر بھی پٹاخے پھینک دیتے ہیں جس سے آگ لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ دوسرا‘ یہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی باعث بنتے ہیں اس لیے ان کو قومی تہواروں اور جشن کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہوائی فائرنگ‘ پٹاخے‘ آتش بازی کسی بھی وقت سانحے کا باعث بن سکتے ہیں‘ اس لیے ان کی جگہ شجرکاری کو فروغ دینا چاہیے۔ آزادی کا جشن منانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فجر کی نماز سے دن کا آغاز کریں، پھر شکرانے کے نوافل ادا کریں اور شجرکاری کریں۔ ہمیں ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے درختوں کی اشد ضرورت ہے مگر کسی کو اس کا ادراک ہی نہیں۔ نوجوان غیر ملکی‘ خصوصاً بھارتی گانوں اور موسیقی پر جھوم رہے ہوتے ہیں‘ ان کو پاکستانی نغمے اور ترانے سننے چاہئیں۔ کسی بھی قوم میں جذبہ حب الوطنی اجاگر کرنے کے لیے نئے نغمے تخلیق کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں فلمیں اتنی نہیں بنتیں‘ اس لیے زیادہ تر لوگ پڑوسی ملک کی پروڈکشنز دیکھتے ہیں جو اس وقت نیٹ فلیکس اور ایمیزون پر بھی چھائی ہوئی ہیں۔ ہم ثقافتی یلغار کے آگے بند نہیں باندھ سکے اور اس میدان میں ان سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ بھارت دنیا بھر کی شوبز انڈسٹری پہ چھایا ہوا ہے۔ آج کل بھارت میں تاریخ کو مسخ کرکے پاکستانیوں‘ کشمیریوں اور مغل بادشاہوں کے خلاف ڈرامے‘ فلمیں اور سیزن تیار کیے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں شوبز انڈسٹری کی تاریخ پر کوئی توجہ ہی نہیں۔ دنیا اب تاریخ پر فلمیں اور سیزن بنا رہی ہے جبکہ ہمارے ملک میں کشمیر یا تحریکِ پاکستان کے اکابرین پر ڈرامے بھی نہیں بنتے۔
گزشتہ چند سال سے ایک نیا دردِ سر لانچ ہوا ہے۔ یہ ایک باجا ہے‘ جسے لوگ بجا بجا کر دوسروں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اتنا شور کہ کانوں میں تکلیف ہونا شروع ہو جاتی ہے مگر لوگوں کے لیے یہ تفریح کا باعث ہے حالانکہ دوسرے لوگوں کے لیے یہ سراسر اذیت کا باعث ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے اس کی فروخت پر پابندی لگائی تھی مگر وہاں بھی اس پر صحیح طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا، پورے ملک میں اس کی خرید و فروخت پر مکمل بین ہونا چاہیے۔ آزادی کے دن تھوڑے سے شغل کے لیے دوسروں کو اذیت دینا نہایت غیر مناسب بات ہے۔ اس دن تو بس وطن کی بات ہونی چاہیے‘ آباؤ اجداد کی قربانیوں کو یاد کرنا چاہیے جو انہوں نے آزاد وطن کے حصول کے لیے دی تھیں۔ میں اکابرینِ پاکستان پر ایک کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی‘ یہ پڑھ کر بہت اچھا لگا کہ اس تحریک میں مردوں کے ساتھ بچوں اور خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔ خواتین نے انگریز سامراج کے ظلم کا سامنا کیا‘ یہاں تک کہ ایک دھان پان سی لڑکی نے لاہور میں انگریزوں کے سیکرٹریٹ میں پاکستان مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا دیا۔ سب نے متحد ہوکر جدوجہد کی‘ اسی سبب آزاد وطن کا حصول ممکن ہو پایا۔
آج کی نسل سیاسی حالات کی وجہ سے شدید مایوس ہے۔ وہ اپنی مایوسی کا اظہار سوشل میڈیا پر کر رہی ہے۔ نوجوان ٹک ٹاک وڈیوز اور ٹویٹس کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ ان کیلئے روزگار کے مواقع نہیں ہیں‘ اچھی تعلیم اور صحت کی سہولتیں نہیں ہیں۔ وہ سارا وقت سوشل میڈیا پر ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے پاس کھیلوں کی سہولتیں بھی نہیں ہیں‘ اس لیے نوجوان کریں بھی تو کیا؟ ان کو لگتا ہے کہ سڑکیں ہی ان کے لیے تفریح ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہمیں جشن منانے کے آداب کا کچھ نہیں پتا اور اس حوالے سے زیادہ سہولتیں بھی نہیں ہیں۔
چودہ اگست کو کراچی میں ایک چھوٹا سا بچہ گھر سے پرچم والے لباس میں نکلا اور کھلے مین ہول میں گر گیا۔ جب تک اس کو باہر نکالا گیا‘ وہ دم توڑ چکا تھا۔ معصوم بچہ بے جان ہو کر باہر نکلا۔ اس کی وڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے‘ جسے دیکھ کر مجھے شدید دکھ ہوا۔ ایک گول مٹول سا‘ پیارا سا بچہ گھر سے جشن آزادی منانے نکلے لیکن کھلے گٹر کی نذر ہو گیا۔ دنیا چاند کو تسخیر کر رہی ہے‘ ہماری حکومتیں گٹر پر ڈھکن تک نہیں لگا سکتیں۔ یہ بچہ کس کی غفلت کی وجہ سے مارا گیا؟ اس کا بے جان وجود دیکھ کر میں بہت دیر تک روتی رہی۔ نجانے اس کے ماں باپ پر کیا گزری ہو گی۔ ہمارے ملک کی حکمران اشرافیہ کو تو کوئی فکر ہی نہیں‘ ان کے بینک بیلنس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن عوام کے بچے کھلے گٹروں میں گرکر مر رہے ہیں۔ غربت‘ مہنگائی‘ بدامنی‘ سیاسی بے یقینی اور پکڑ دھکڑ نے عوام کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آزادی منانے کا لطف تو تب دوبالا ہو جب ملک میں مہنگائی کم ہو جائے‘ جب سیاسی استحکام آئے‘ جب قانون کی حکمرانی ہو اور جب فوری انصاف ملے۔ بہر کیف‘ اس درمیان جو بھی حالات ہیں‘ ان میں بھی سب اہلِ وطن کو آزادی مبارک!