پاکستان میں اس وقت عجیب صورتحال ہے‘ سب لوگ ہر روز یہ انتظار کرتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے‘ کیا کل پھر کوئی ایسی خبر آئے گی کہ بطور قوم ہم کسی نئی مشکل میں پڑجائیں گے۔ پے درپے سانحات‘ حادثات اور معاشی بحرانوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہر روز کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے جو عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران نے عوام کی خوشیوں تک کو نگل لیا ہے۔ وہ بہت زیادہ مایوس ہوگئے ہیں‘ اس شدید مہنگائی میں ان سے اپنے گھر کے بجٹ نہیں بن پارہے‘ وہ خرچوں میں اضافے اور محدود ذرائع آمدن کی وجہ سے بہت زیادہ مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔ کسی بھی انسان کو اپنی عزتِ نفس اور خودداری بہت عزیز ہوتی ہے‘ اگر اس پاس ذرائع آمدن محدود ہو جائیں اور ہر چیز مہنگی ہونا شروع ہو جائے تو سب سے پہلے یہ صورتحال اس کی عزتِ نفس پر وار کرتی ہے۔ وہ مجبوری میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے یا پھر موت کو گلے لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگوں کے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں‘ وہ کھانا کھائیں یا بلز دیں؟ یا سواری میں پٹرول پورا کریں؟ بہت سے لوگ تو پیدل آتے جاتے ہیں‘ ان کے پاس اب موٹرسائیکل بھی نہیں رہی کہ وہ بھی بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے لیے بیچ دی ہے۔ کچھ کے پاس اتنا کرایہ بھی نہیں کہ وہ ہر روز بس یا ویگن کا ٹکٹ افورڈ کرسکیں۔ بھوکے پیٹ انسان کتنی دیر چل سکتا ہے‘ بالآخر اس کی ہمت جواب دینے لگتی ہے مگر اقتدار کے ایوانوں‘ صدراتی محل اور وزیراعظم ہائوس تک غریبوں کی آواز نہیں جاتی۔ غریبوں کو تو یہاں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں‘ صدا لگانا تو دور کی بات ہے۔
اس وقت ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ بجلی‘ پٹرول‘ کھانے پینے کی اشیا‘کچھ بھی عوام کی دسترس میں نہیں رہا لیکن عوام کی بھلائی کے حوالے سے کچھ نہیں ہو رہا۔ طبقۂ اشرافیہ کا عملاً رویہ ''روٹی نہیں تو کیک کھالیا جائے‘‘ والا ہے۔ انہیں غریب عوام کی کوئی پروا ہی نہیں۔ سیاستدان اپنی محلاتی سازشوں میں مصروف ہیں اور بے آسرا عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ معاشرے کا وہ طبقہ‘ جو کبھی متوسط طبقہ کہلاتا تھا ‘ اب عملی طور پر ختم ہو چکا اور غربت کی لیکر سے نیچے چلا گیا ہے۔ لوگ ضروریاتِ زندگی کے لیے سسک رہے ہیں۔ کوئی سکول کی فیس نہیں دے سکتا‘ کوئی بچوں کے لیے دودھ اور پھل نہیں لے سکتا ‘ کوئی مکان کا کرایہ دینے سے قاصر ہے تو کوئی بیوی کے زیور بیچ کر یوٹیلیٹی بل ادا کررہا ہے۔ غربت کے سبب لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ بیوی سے اس کا زیور لے کر بیچنا دنیا کا کٹھن ترین کام ہوتا ہے مگر اب حالات ایسے ہیں کہ بلز ادا کرنے کے لیے خواتین مردوں کا ساتھ یوں دے رہی ہیں کہ کوئی ماں کی نشانی ‘اپنی بالیاں بیچ رہی ہے تو کوئی ساس کا تحفہ کردہ لونگ بیچ رہی ہے۔ غریب عوام کے پاس زیادہ اثاثے تو ہوتے نہیں‘ بس کچھ ہی چیزیں ہوتی ہیں جو وہ کسی ناگہانی صورتحال کے لیے سنبھال کر رکھتے ہیں مگر اب ان کے پاس وہ بھی نہیں رہیں۔ اب اگلے مہینے جب بلز آئیں گے تو وہ کیا کریں گے‘ یہ سوچ سوچ کر ہی غریب ہلکان ہو رہے ہیں۔متعدد افراد نے اب ایک پنکھا اور ایک بلب استعمال کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
ادھر ڈالر بدستور اونچی اڑان بھر رہا ہے اور روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ ہر چیز مہنگی ہونے کا الزام ڈالر کی اونچی پرواز کو دے کر جان چھڑالی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاملات خراب کرنے والوں سے اب کچھ نہیں بن پارہا۔ عوام غم و غصے اورشدید مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ معاشی بحران کی اصل وجہ سیاسی عدم استحکام اور سیاسی بحران ہے۔ امرا اور اشرافیہ کی لڑائیوں میں عوام پس کررہ گئے ہیں۔ اب پھر پٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے‘ جس کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی اب احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ملک کیسے چلے گا‘ جو یہاں کے حالات ہیں اور جو چال چلن ہے‘ اس میں نوجوانوں کو اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا اور وہ سوچتے ہیں کہ انہیں اس ملک سے چلے جانا چاہیے‘ اب ان کے لیے یہاں کچھ نہیں رکھا۔ بہت سے افراد ان کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح ان کو ویزا مل جائے اور وہ یورپ یا امریکہ شفٹ ہوجائیں۔پچھلے سات ماہ میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد بیرونِ ملک شفٹ ہوچکے ہیں۔ پروٹوکول دفاتر سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ کبھی ان کے پاس ویزوں سے متعلق سو‘ ڈیڑھ سو درخواستیں روزانہ آیا کرتی تھیں مگر اب یہ ہزار‘ پندرہ سو سے بھی تجاوز کر چکی ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ اب اپنی ساری جائیدادیں بیچ کر مستقل طور پر ملک سے جا رہے ہیں‘ یہ روزگار کمانے کے لیے باہر نہیں جا رہے جو ملک کو ترسیلاتِ زر بھیجیں۔
اس وقت ایسی مایوسی پھیلی ہوئی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی مگر اب یہ ہر سو سرایت کر چکی ہے۔ حالات تلخ سے تلخ ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی کے پاس کھانا نہیں‘ کسی کے پاس انصاف نہیں‘ کسی کے پاس ترقی کے مواقع نہیں۔ یہ مواقع کس نے دینے ہیں؟ ظاہری سی بات ہے کہ عوام کو حکومت نے بنیادی حقوق دینا ہوتے ہیں مگر سیاست دانوں میں آپس میں اتحاد نہیں ہے‘ اتحاد تو دور‘ ان میں برداشت بھی نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کی حکومتیں نہیں چلنے دیتے۔ سازشوں سے منتخب حکومت گراتے ہیں‘ جس کے اثرات معیشت پر بھی پڑ رہے ہیں اور اسی لیے عوام آج روٹی تک کے محتاج ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ لڑتے جھگڑتے ہیں‘ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں‘ چلتی حکومتیں ختم کرتے ہیں اور پھر اپنا مال اسباب سمیٹ کر بیرونِ ملک نکل جاتے ہیں۔ عوام بدحال تھے‘ بدحال ہیں اور لگتا ہے کہ بدحال ہی رہیں گے۔جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا تب تک حالات درست نہیں ہوسکتے۔ اقربا پروری‘ موروثیت‘ سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے خلاف سازشوں نے پاکستان کی معیشت کو سنگین نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا ہے‘ اپنا بحری بیڑہ بنالیا ہے اورہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم آپس کے ان جھگڑوں ہی میں الجھادیے گئے ہیں کہ کس کا لیڈر اچھا ہے‘ کس کا لیڈر برا ہے‘ کس کے مداح زیادہ ہیں‘کون ملک دشمن ہے‘ کون بیرونی آلہ کار ہے۔ اب یہ لڑائی گھر‘ گھر تک پہنچ گئی ہے۔ لوگ گھروں میں بھی ایک دوسرے سے سیاسی بنیادوں پر لڑرہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان معمولی سوجھ بوجھ سے بھی عاری ہیں جو یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے وہ اپنے ہی خلاف گڑھا کھود رہے ہیں۔ اگر آج ایک جماعت نشانے پر ہیں تو کل کو دوسری ہو گی۔ اگر انتقام کا یہ سلسلہ نہ رکا تو جلد یا بدیر‘ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔
اس سے قبل کہ لوگ دو وقت کی روٹی اور یوٹیلیٹی بلز بھرنے کے لیے چوری چکاری پر مجبور ہوجائیں یا موت کو گلے لگا کر دنیا چھوڑ جائیں‘ ایسی صورتحال بننے سے پہلے اس سلسلے کو روکیں۔ انتقام کی اس آگ کو روکیں اور جلتی پر تیل نہیں‘ پانی ڈالیں۔ امن و اتحاد کی بات کریں۔ یہ ہم سب کا ملک ہے‘ ہم سب اس کے وفادار ہیں‘ ہم سب اپنی اپنی استطاعت میں اس کی بہتری کے لیے کام کررہے ہیں۔ کسی کی وفاداری اور کسی کے ایمان کو چیک کرنا بند کریں ورنہ سیالکوٹ اور جڑانوالہ جیسے سانحات ہوتے رہیں گے۔ ایسے واقعات ہمیں عالمی طور پر بھی بدنام کرتے ہیں۔ پاکستان کو اگر ان بحرانوں سے نکلنا ہے تو سب سے پہلے سیاسی استحکام لانا ہوگا‘ پھر کرپشن‘ انتہاپسندی اور باہمی نفرت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ وقت پر انصاف کی فراہمی کو بھی ممکن بنانا ہو گا کیونکہ انصاف میں تاخیر نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ جلد انصاف ہو‘ سب کے لیے ہو‘ تبھی عوام کو ریلیف ملے گا۔ نگران حکومت الیکشن کروانے آئی ہے‘ وہ کیسے بجلی‘ ڈالر اور پٹرول کو قابو میں لا سکتی ہے۔ پی ڈی ایم نے مہنگائی ختم کرنے کے نام پر حکومت لی تھی اور جاتے جاتے ایسی مہنگائی کی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بجلی‘ ڈالر‘ پٹرول اور چینی نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ کہیں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ امید پر دنیا قائم ہے‘ اب تو یہی دل کرتا ہے کہ کیا اچھا ہو آسمان سے ہمارے لیے من و سلویٰ ہی برسنے لگے۔