ابتر معاشی صورتحال اور حکومتی ذمہ داری

پاکستان پر جب بھی کوئی کڑا وقت آیا تو عوام نے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس کا مقابلہ کیا۔ 1965ء کی جنگ میں جب افواجِ پاکستان سرحدوں کی حفاظت پر معمور تھیں تو عوام بھی ان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے۔ عوام کی اس حوصلہ افزائی اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری سے افواجِ پاکستان نے دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ جب بھی کوئی کام متحد ہو کر کیا جائے تو اس میں برکت اور جیت ہوتی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی جیت یہ پیغام دیتی ہے کہ جب عوام اور ریاستی ادارے متحد ہوں‘ اپنے دفاع پر توجہ اور دشمن پر نظر رکھیں تو جیت ان کا مقدر ہوتی ہے۔ پھر 1971ء کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی ملک کے باسیوں کے اندر نااتفاقی پیدا ہو جائے‘ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو جائے تو پھر دشمن اس کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ 1971ء تک مواصلات کا نظام اتنا اچھا نہیں تھا‘ سوشل میڈیا بھی نہیں تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ رابطے بڑھا سکتے‘ ایک دوسرے کے نزدیک ہو کر ایک دوسرے کو سمجھ سکتے‘ ان سمیت کئی دیگر عوامل تھے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان‘ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو گیا۔ یہاں یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جہاں ہندوستان کی سازشیں کارفرما تھیں‘ وہیں اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے سیاستدانوں کا ایک دوسرے کا مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا بھی تھی۔ یوں اقتدار کی رسہ کشی میں ملک دولخت ہو گیا۔ اگر تمام سیاسی جماعتوں کو 1970ء کے عام انتخابات میں جیتی گئی نشستوں کے مطابق اقتدار میں حصہ دیا جاتا تو اتنی نفرت پروان نہ چڑھتی۔ اس نااتفاقی‘ اقتدار کی رسہ کشی اور انصاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی مسائل نے جنم لیا اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا لیکن فیصلہ سازوں نے اس تمام تر صورتحال سے پھر بھی کچھ نہیں سیکھا اور اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلتے رہے۔ اس سیاسی و جمہوری عدم استحکام کی عوام کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑی اور اب تک چکا رہے ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہونے کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ وہ اس قدر معاشی تنگ دستی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
میں اگلے روز ایک وڈیو دیکھ رہی تھی جس میں ایلون مسک‘ جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹویٹر ) اور الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی کا مالک ہے‘ نریندر مودی کے ساتھ کھڑا تھا اور وہ بہت جلد بھارت میں اپنی الیکٹرک گاڑیاں لانچ کرنے جا رہا ہے۔ دوسری طرف فیس بک کا موجد مارک زکر برگ ہے‘ اب میٹا اس کا بہت بڑا تعارف بن چکی ہے اور بھارت کے عوام فیس بک سے کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔پاکستان کو اس وقت جتنا غیر ملکی قرض ادا کرنا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ ڈالرز بھارت کی ٹاپ آئی ٹی کمپنیاں ایک سال میں کما لیتی ہیں جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ پاکستان کا پورا آئی ٹی سیکٹر مل کر بھی سالانہ دو‘ ڈھائی ارب سے زیادہ نہیں کما پا رہا ۔گزشتہ مالی سال کے دوران بھی پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.3ارب ڈالر تک محدود رہیں جبکہ اس دوران بھارت کی آئی ٹی برآمدات کا حجم 178ارب ڈالر سے زائد رہا۔آئی ٹی سیکٹر کو تو چھوڑیں‘ پاکستان کے تمام شعبے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی برآمدات کو تیس‘ چالیس ارب ڈالر سے آگے نہیں لے جا سکے ۔ اگر ماضی کی تمام حکومتوں نے آئی ٹی کے حوالے سے یکساں اور مثبت پالیسی اپنائی ہوتی تو آج ہم سیاسی طور پر باہم دست و گریباں ہوتے نہ ہماری ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہوتی۔ اگلے روز نگران وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام شعبے کے جائزہ اجلاس میں ملک کی آئی ٹی برآمدات بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس سے قبل نگران وزیر آئی ٹی و ٹیلی کام بھی آئی ٹی برآمدات کو دس ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ ملکی قیادت آئی ٹی کے شعبے کی اہمیت اوراس کے فروغ کی خواہش مند ہے۔پاکستان فری لانسنگ کے حوالے سے دنیا بھرمیں چوتھے نمبر پر ہے لیکن اس شعبے کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا بھر میں آئی ٹی سے منسلک سروسز اور اشیا کی مانگ بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں عدم توجہی کی وجہ سے اس شعبے سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے۔ آئی ٹی کا شعبہ تنہا ملکی معیشت کو استحکام فراہم کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ حکومت کو آئی ٹی کو ایک بڑی برآمدی صنعت بنانے کیلئے کر کام کرنا چاہیے۔ حکومت اس شعبے اور فری لانسرز کو مراعات اور ٹیکس چھوٹ دے۔ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے برآمدات کو بڑھانا ناگزیر ہے‘ اس ضمن میں آئی ٹی کی صنعت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ شعبہ جات اس جانب توجہ دیں تو آئی ٹی کی ملکی برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام اشرافیہ کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ مختلف حکومتوں کی طرف سے سخت ترین شرائط پر لیے گئے قرضوں کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں۔ کبھی بجلی مہنگی‘ کبھی پٹرول مہنگا‘ کبھی ڈالر مہنگا‘ اشیائے خورونوش تو مہنگی ہیں ہی‘ ان مشکل ترین معاشی حالات اور روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ بجلی اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ کم آمدنی والے افراد کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو چکا ہے کہ وہ بجلی کا بل ادا کریں یا پھر گھر میں راشن ڈالیں۔ مہنگی بجلی کی قصور وار بھی حکومت ہے لیکن ناقص حکومتی منصوبہ بندی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے آئی پی پیز سے ایسے بوگس معاہدے کیے جس کی وجہ سے آج بجلی مہنگی ہو چکی ہے۔ بجلی چوری اور بجلی کی ترسیل کے نظام میں موجود نقائص کی وجہ سے ان مدات میں ہونے والے نقصان کا خسارہ بھی عوام سے پورا کیا جاتا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے بجلی بلوں میں طرح طرح کے ٹیکس شامل کر رکھے ہیں۔ معیشت اس قدر خراب صورتحال سے دوچار ہے کہ عوام اب مایوس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کے نزدیک ایک مخلص اور ایماندار قیادت ہی ان کے مسائل کا حل ہے جو ملک کو کرپشن فری بنانے کے ساتھ ساتھ نظام میں موجود نقائص کو بھی دور کرے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ اگر ہر بار وہی لوگ حکومت میں آئیں گے جو پہلے کئی بار آزمائے جا چکے ہیں اور ہر بار اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے وہی پالیسیاں بنانی ہیں جو ان کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہوں اور عوام کی فلاح و بہبود ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی تو اس ملک کے عوام کا خدا حافظ ہے۔ اگر آئندہ الیکشن میں بھی یہی چلے ہوئے کارتوس دوبارہ منتخب ہو کر ایوان میں آ جاتے ہیں تو ان کا مطمح نظر پھر سے صرف ذاتی مفادات کا تحفظ ہی ہوگا‘ انہیں ملکی معیشت اور عوام کی ابتر صورتحال سے کوئی سرکار نہیں۔ ہم سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کی وجہ سے ویسے ہی دنیا سے بہت پیچھے ہیں کہ رہی سہی کسر دہشت گردی پوری کر رہی ہے۔ اس کے پیچھے بہت سی محرکات کارفرما ہیں‘ جن میں بھارت کی چال بازیاں سب سے نمایاں ہیں۔ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی خاص طبقے تک محدود رہنے کے بجائے ملک بھر سے معاشی ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے اور ان سے معیشت کی بہتری کی لیے تجاویز طلب کی جائیں۔ حکومت سب سے پہلے تو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو نیچے لائے۔بجلی چوروں کی طرح منافع خوروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے۔ نوجوان بددل ہوکر ملک چھوڑ رہے ہیں۔قرضے لے کر ریاستیں عیاشی کی متحمل نہیں سکتیں‘ ضروری ہے کہ حکمران اپنے خرچے کم کریں اور یہی پیشہ عوام کی فلاح پر خرچ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں