پاکستان اس وقت بہت سے مسائل کا شکار ہے جن میں معاشی مسائل، انتہا پسندی اور دہشت گردی سرفہرست ہیں۔بڑھتی غربت، کرپشن، اقربا پروری اور دوست ممالک پر معاشی انحصار کی وجہ سے دنیا ہم سے کھنچی رہتی ہے۔ ریاستیں اپنے وسائل سے ترقی کرتی ہیں ان کی ترقی کا انحصار دوست ممالک کے قرضے اور امداد پر نہیں ہوتا۔ سودی قرضے اور ان کی سخت شرائط معیشت کو سہارا نہیں دیتیں بلکہ مزید تباہ کردیتی ہیں مگر ملک کا معاشی نظام چلانے والے شاید اسی پالیسی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے ملک میں امنِ عامہ اور بیرونی تعلقات کا یہ عالم ہے کہ ہم ملک میں کوئی بڑا ایونٹ تک نہیں کرا پاتے۔ نہ یہاں پر عالمی کانفرنسز ہوتی ہیں اور نہ ہی کوئی انٹرنیشنل سپورٹس ایونٹ منعقد ہوپاتا ہے۔اکثر مغربی ملکوں کو ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی شام اور افغانستان جیسے حالات ہیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہماری غیور قوم اور بہادر افواج نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نہایت بہادری سے لڑی ہے اور ہم نے اس جنگ میں فتح حاصل کی ہے مگر ہم عالمی برادری کو ٹھیک طرح سے جتلا نہیں سکے کہ ہمارے بہادر جوانوں نے کس طرح دہشت گردی سے پاکستان کو پاک کیا۔ اگر یہاں انتہاپسندی یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو وہ عالمی خبروں میں نمایاں کوریج پاتا ہے مگر جب ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں یا فوج دہشت گردی کا کوئی نیٹ ورک ختم کرے یا بحالی ٔ امن کے لیے کام کرے تو اس کو عالمی سطح پر اجاگر نہیں کیا جاتا۔ دوسری جانب بھارت ہمیشہ یہ منجن بیچتا رہتا ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے‘ اس پر پابندیاں لگنی چاہئیں۔ بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری یعنی بالی وڈ کے ولن زیادہ تر پاکستانی مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ بالی وُڈ اور ہالی وُڈ میں مسلمانوں اور پاکستان کی جس طرح عکاسی کی جاتی ہے‘ اس کے سبب باقی دنیا کو یہ لگتا ہے کہ یہاں شاید سڑکوں پر ٹینک چل رہے ہوتے ہیں‘ عورتوں کو پڑھنے کا حق حاصل نہیں اور ہر وقت خانہ جنگی کا ماحول رہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہاں‘ کچھ مسائل ضرور درپیش ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے مگر عمومی حالات نارمل ہیں۔ جیسے الیکشن وقت پر ہونا ضروری ہے، نظامِ انصاف کی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے،بڑھتی انتہاپسندی پر قابو پانا چاہئے۔ نااتفاقی اور نفرت کا خاتمہ اور تعلیم‘ روزگار اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے صرف منفی تاثر کو ہوا دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس ملک میں دھماکے ہوں ، اقلیتوں کو نشانہ بنایا جائے، اہم تنصیبات پر حملے ہوں یا رضوانہ اور فاطمہ جیسی بچیوں پر ظلم ہوتا ہو‘ وہاں غیر ملکی کیسے آسکتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی عوام خود بھی اس قسم کے تاثر کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ جب ملک کا یہ تاثر اجاگر کیا جاتا ہے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے سے گھبرانے لگتے ہیں۔ اگر ہم یورپ، امریکہ یا بھارت کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی آئیڈیل حالات نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ اقلیتوں پر ظلم شاید بھارت میں ہوتا ہے۔ وہاں انتہاپسندی عروج پر ہے، خواتین کے ساتھ زیادتی روز کا معمول ہے۔ یہاں تک کہ حال ہی میں منی پور میں خواتین کی برہنہ پریڈ کرائی گئی مگر اس کے باوجود ساری دنیا اس پر مہربان ہے۔ بھارت کے سفارتکار مغل دور کی عمارتوں‘ اپنے ملک کے کھانوں‘ کپڑوں سیاحتی مقامات اور بالی وُڈ کو دنیا بھر میں متعارف کرارہے ہیں۔ وہاں جتنے بھی سانحات ہوجائیں‘ کتنے ہی واقعات پیش آ جائیں لیکن سیاحت کم نہیں ہوتی نہ ہی عالمی شخصیات وہاں کا دورہ کرنے سے کتراتی ہیں۔ اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں۔ ایک تو بھارت نے آئی ٹی کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے اور اس کے بہت سے ممالک سے تجارتی روابط ہیں۔ تمام بڑے عالمی اداروں کے ذیلی دفاتر بھارت میں موجود ہیں۔ ان کو وہاں پڑھی لکھی اور سستی لیبر مل رہی ہے۔ بھارت کے اداکار دیگر ممالک میں بطور سفیر جاتے ہیں‘ ان کو وہاں پر اعزازی شہریت بھی مل جاتی ہے۔ بھارتیوں کو دنیا کے بیشتر ممالک کا ویزا بہت آسانی سے مل جاتا ہے۔ گلف کی طرف دیکھیں تووہاں بھی اب پاکستانی لیبر فورس گھٹتی جا رہی ہے اور ان کی جگہ بھارتیوں نے لے لی ہے۔ اسی طرح بھارتی جہاں جہاں بزنس کررہے ہیں یا اہم عہدوں پر فائز ہیں وہ اپنی ثقافت کو مقدم رکھتے ہیں۔ یوگا، جیولری،مسالا جات وغیرہ وہ پوری دنیا میں متعارف کرا چکے ہیں۔ ''گجرات کا قصائی‘‘ اب خود کو یوگا کا ماہر بناکر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ سفارتکاری اتنی مضبوط ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم ، منی پور میں کوکی خواتین کا ریپ، مائو باغیوں کی بغاوت، پنجاب میں خالصتان کی تحریک‘ سب کچھ اس میں دب کر رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے بزنس مین بھی دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ امبانی خاندان کی شادی میں ہیلری کلنٹن نے بھی شرکت کی تھی۔ حال ہی میں دو مغربی برانڈز نے وہاں فیشن شو کا انعقاد کیا، ان برانڈز کا ایک ایک بیگ پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے کا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت میں آئی ایم ایف کی ٹیم بھی بھارتی لباس میں ملبوس نظر آئی۔ میں چونکہ حالاتِ حاضرہ کے ساتھ لائف سٹائل اور فیشن پر بھی نظر رکھتی ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ شخصیات‘ برانڈز یا سرمایہ کار کیوں نہیں آتے۔ بھارتی اداکار کانز فلم فیسٹیول سے لے کر آسکر ایوارڈ تک کی تقریب میں مدعو ہوتے ہیں۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ شاید سب سے بہت الگ اور دور ہوگئے ہیں۔
آپ دنیا میں رہتے ہوئے تنہا نہیں رہ سکتے۔ آپ کو سب کے ساتھ مل کر رہنا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے شہری ویزے کے حصول کے لیے دھکے کیوں کھاتے ہیں، ہمارے طالب علم بڑی یونیورسٹیوں میں کیوں نہیں پڑھ سکتے۔ ہمارے ملک میں سرمایہ کار آنے سے کیوں اتنا کترا رہے ہیں یا ہم فیٹف کی شرائط پر کیوں نہیں پورا اتر پارہے۔ اس کی وجہ ہے ہمارا بوسیدہ نظام، کرپٹ حکمران طبقہ اور سیاسی عدم استحکام۔ جب تک ملک میں ایک مضبوط مستحکم حکومت نہیں آئے گی‘ تب تک دنیا ہم پر اعتماد نہیں کرے گی۔ جب حکومتی پالیسیوں میں تسلسل ہی نہیں ہوگا تو کون یہاں اپنا سرمایہ لگانا پسند کرے گا؟ اتنی جلدی تو نئی لان کولیکشن مارکیٹ میں نہیں آتی جتنی جلدی یہاں نئی حکومت اور نیا وزیراعظم لانچ ہوجاتا ہے۔ ایک ایٹمی ریاست کو یہ سب کچھ زیب نہیں دیتا۔
بھارت میں چونکہ وزرائے اعظم اور حکومتیں اپنی مدت پوری کرتے ہیں‘ وہاں جمہوریت کا تسلسل ہے لہٰذا وہاں پر اہم عالمی ایونٹ بھی ہورہے ہیں اور دیگر سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ ابھی وہاں جی 20 ممالک کا سربراہی اجلاس ہوا۔ جی 20 میں دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں شامل ہیں۔ اس کا حالیہ اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا اور اس میں بھارتی رقص‘ موسیقی اور کھانوں کو خاص اہمیت دی گئی۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد کی اس اجلاس میں آمد پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ بہت سے پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اس بات پر مایوسی کا اظہار کرتے نظر آئے کہ ہم سفارتی طور پر تنہا رہ گئے ہیں۔ اس اجلاس میں ایک اقتصادی راہداری کا بھی اعلان ہوا جو بھارت سے براستہ مڈل ایسٹ یورپ تک جائے گی۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں موسمیاتی تبدیلیوں، صنفی امتیاز کے خاتمے، اقتصادی راہداری کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے پرضرور دیا گیا۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی شرکت کی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سیاسی عدم استحکام، انتقام اور اَنائوں کی جنگ میں پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم جیسے لوگ افسوس ہی کرسکتے ہیں یا تھوڑی بہت آواز بلند کرسکتے ہیں‘ اس کے علاوہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں۔سیاسی لڑائیاں اور شخصیت پرستی ہمیں اس مقام تک لے آئی ہے کہ اب ہر شخص ملک سے باہر جانا چاہتا ہے۔ لوگ بے مہار مہنگائی اور انجانے خوف سے تنگ آگئے ہیں۔ شاید نئے الیکشن کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں مگر فی الحال امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔