پنک رِبن اور کینسر آگہی مہم

اکتوبر کے مہینے میں آپ نے اکثر عمارتوں کو پنک (گلابی) روشنیوں میں نہاتے دیکھا ہو گا۔ اہم قومی عمارتوں اور نجی بلڈنگوں کو اس ماہ میں خصوصی طور پر پنک قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ یہ ایک علامتی پیغام ہے جس کا مقصد چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی عام کرنا اور لوگوں بالخصوص خواتین کو اس مرض سے بچانا ہے۔ اسی لیے اہم عمارتوں پر پنک روشنی کی جاتی ہے اور لوگ پنک ربن اپنے لباس پر بھی لگاتے ہیں۔ پنک ربن دراصل بریسٹ کینسر کے خلاف کمپین کی علامت ہے۔ عالمی ادارۂ صحت اور اقوامِ متحدہ اس حوالے سے اکتوبر کا سارا مہینہ آگاہی دیتے ہیں کہ خواتین کس طرح اس موذی مرض سے خود کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ چھاتی کا سرطان ایک تکلیف دہ اور جان لیوا مرض ہے ؛ تاہم صرف پنک روشنی کرکے پیغام دینا کافی نہیں ہے‘ اس بیماری پر بات کرنا بھی ضروری ہے اور اس کا علاج عام آدمی کی دسترس میں لانا از حد ضروری ہے۔ اگر عام خواتین کی اس مرض کے علاج تک ہی رسائی نہیں تو پنک روشنی کر کے آگاہی دینے کا کیا فائدہ؟ اس سے صرف بجلی کا بل زیادہ آئے گا‘باقی کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں اس بیماری کا علاج بہت مہنگا ہے اور عام دستیاب بھی نہیں۔ اس مرض میں مبتلا مریض بہت تکلیف کا سامنا کرتے ہیں اور اکثر اُس سٹیج پر ہسپتال پہنچتے ہیں جب یہ مرض پورے جسم میں پھیل چکا ہوتا ہے۔
عوام کو اس بیماری کے بارے میں ضرور بتائیں مگر ساتھ ہی اس سے بچنے کا طریقہ کار اور اس کا علاج عام کریں تاکہ ہر مرد و عورت کو یہ دستیاب ہو سکے۔ اس کی ادویات اور علاج سستا ہوگا تو ہی مریضوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی تولیدی صحت اور نسوانی اعضا کی بیماریوں پر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ان اعضا اور بیماریوں کو شرم کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بات کرنے کی ضرورت ہے کہ جیسے جسم کے دوسرے اعضا بیمار ہوسکتے ہیں‘ اسی طرح ان اعضا میں بھی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔ خواتین کو خود بھی کسی قسم کی توہمات کو نہیں پالنا چاہیے۔ ان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہسپتالوں میں ان کے لیے خواتین ڈاکٹرز اور نرسز موجود ہوتی ہیں۔اسی طرح میمو گرافی اور الٹراسائونڈ کے لیے بھی خواتین سٹاف موجود ہوتا ہے، اس لیے اپنے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور کسی بھی عضو میں درد کو نظر انداز نہ کریں۔ کوئی بھی نیا درد‘ نیا ابھار‘ نیا زخم یا گلٹی کینسر ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس حوالے سے محتاط رہیں۔ چھاتی کے ساتھ بغل کا بھی باقاعدگی سے معائنہ کریں کیونکہ یہ مرض بغل میں بھی نمودار ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر چالیس سال سے بڑی عمر کی خواتین کی میمو گرافی ہوتی ہے، اس سے کم عمر خواتین کا الٹراسائونڈ کرکے بھی اس مرض کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اگر بات کریں کہ چھاتی کے سرطان کی علامات کیا ہیں تو اگر سینے میں درد محسوس ہو، وہاں گلٹی کا احساس ہو، چھاتی کی ساخت میں کوئی تبدیلی آجائے، کوئی دانہ یا زخم ٹھیک نہ ہورہا ہو،اس سے کسی قسم کے مواد کا اخراج ہو یا یہ علامات بغل میں محسوس ہوں تو فوری طور پر معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے علاج میں تاخیر کینسر کو پورے جسم میں پھیلا دیتی ہے اور پھر علاج نا ممکن ہوجاتا ہے۔ عمومی طور پر بائیوپسی کے ذریعے کینسر کی تشخص کی جاتی ہے۔ اس میں متعلقہ جگہ سے ٹشوز لے کر ان کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ان کی جانچ مکمل ہونے پر کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔ اس بیماری کی چارسٹیجز ہوتی ہیں۔ اگر اس کو پہلی سٹیج پر روک لیا جائے تو انسان صحت یاب ہوجاتا ہے لیکن اگر یہ پہلی سٹیج سے آگے نکل جائے تو علاج پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے اور پھر انسان کی زندگی بھی دائو پر لگ جاتی ہے۔ اس لیے خواتین کو اس حوالے سے آگاہی دینا بہت ضروری ہے۔
جو خواتین ان امور کے بارے میں جانتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دوسری خواتین کو بتائیں۔ جن گھروں کی خواتین زیادہ گھر سے باہر نہیں نکلتیں‘ ان کو ان کے خاوند اس حوالے سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ مڈوائف نرسز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ وہ خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کے ساتھ کینسر سے بچائو کے حوالے بھی آگاہی دے سکتی ہیں۔ بریسٹ کینسر اگرچہ مرد و خواتین دونوں کو ہو سکتا ہے مگر مردوں میں یہ شرح بہت کم ہے، البتہ خواتین میں یہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں نوجوان خواتین میں یہ بہت زیادہ شرح کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں دو خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے جاں بحق ہوگئیں۔ وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور انہیں علاج کی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ دیہی اور مضافاتی علاقوں میں لوگ کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے حکیم یا قریبی کمپاؤڈر کے پاس چلے جاتے ہیں۔ مذکورہ خواتین کو پہلے بیماری کا پتا ہی نہیں چلا اور جب اس کا علم ہوا‘ تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور آخری وقت انہوں نے بہت تکلیف میں اس بیماری سے لڑتے ہوئے گزارا۔ وہ گھروں میں کام کرتی تھیں۔ شاید ان کے علاج کے لیے کوئی فنڈ اکٹھا ہوجاتا مگر دیر سے تشخیص کی وجہ سے کینسر پورے جسم میں سرایت کر چکا تھا جو ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ جس بھی خاندان میں یہ بیماری موجود ہو‘ اس کی خواتین کو یہ بیماری ہونے کا خطرہ دیگر کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ موروثی بیماری بھی ہے، اگر خاندان کی متعدد خواتین کو ہو تو نئی نسل میں بھی اس کے ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری کسی گناہ، جادو، نظر یا حسد کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ یہ باقی بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے اور اس کا علاج ایک سرٹیفائیڈ معالج کے پاس ہے‘ پیروں، فقیروں اور دیسی ٹوٹکوں میں نہیں۔
پاکستانی خواتین میں کینسر تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے‘ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ وقت پر معائنہ نہ کرانا، آلودگی، سہل پسندی، واک نہ کرنا، پروسیسڈ فوڈ کھانا اور تمباکو نوشی والی جگہوں پر رہنا اس بیماری کی بڑی وجوہات ہیں۔ ہمارے ملک میں خواتین کی زیادہ تعداد تمباکو نوشی سے محفوظ ہے لیکن ان کے اردگرد بہت سے مرد تمباکو نوشی کرتے ہیں اس کی وجہ سے خواتین بھی اسی دھویں میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ بچوں کی پیدائش میں تاخیر، ان کو دودھ نہ پلانا یا بریسٹ ٹشوز کی خرابی کی وجہ سے بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ یہ محض ایک بیماری ہے، جو کسی کو بھی ہوسکتی ہے، اس لیے اس کی باقاعدگی سے سکریننگ کرانا بہت ضروری ہے۔
خواتین خود بھی اپنا معائنہ کرسکتی ہیں۔ اس کا طریقہ انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک کتابچہ بھی دستیاب ہے جس کے ذریعے وہ اپنا معائنہ خود کرسکتی ہیں۔ صرف اس بات کا دھیان رہے کہ کسی بھی گلٹی یا دانے کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اگر وزن زیادہ ہے تو اس کو کم کریں اور اگر سخت ورزش نہیں کی جا سکتی تو ہر روز چہل قدمی ضرور کریں۔ کینسر کا علاج سرجری اور کیمو تھراپی کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ طریقۂ علاج ہے جس میں سر سمیت مریض کے بال مکمل طور پر جھڑجاتے ہیں۔ اس موقع پر گھر والوں کی شفقت اور ہمدردی بہت ضروری ہوتی ہے۔ مریض کو کبھی طعنے نہیں دینے چاہئیں۔ بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے‘ یہ کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔ کبھی مریض کو یہ نہ کہیں کہ اپنا زخم دکھائو یا یہ کہ تمہارا سر تو گنجا ہو گیا ہے، اس طرح کی باتیں کر کے مریض کو یا اس کے اہلِ خانہ کو تکلیف مت دیں۔
بہت سی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو خواتین اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں‘ وہ اس مرض کا کم شکار ہوتی ہیں۔ اس لیے نئی نسل کی مائوں میں یہ شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو خود دودھ پلائیں اور فارمولا مِلک سے ہر ممکن حد تک پرہیزکریں۔ اس کے ساتھ متوازن غذا لیں، الکوحل اور سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔کسی قسم کے اضافی ہارمونز کا استعمال نہ کریں، خود کو تابکاری سے بچائیں، اپنے جسم میں سلیکون امپلانٹس سے گریز کریں اور سب سے اہم‘ اگر کسی عضو میں درد یا ساخت میں کوئی تبدیلی محسوس کریں تو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
کینسر سمیت کسی بھی بیماری کی بروقت تشخیص انسانی جان کو بچا سکتی ہے۔ ایک عورت ایک خاندان کی پرورش کرتی ہے اور ایک صحت مند عورت ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں