دہشت گردی کی نئی لہر

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت طویل جنگ لڑی ہے۔ اس میں ہمارے 80ہزار سے زائد سویلینز اور فوجیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کتنے ہی بچے اس جنگ میں یتیم ہوگئے اور کتنی ہی بیٹیوں کے سہاگ اجڑ گئے۔ دہشت گردوں نے ہر طبقۂ فکر کو نشانہ بنایا جس میں مسلم‘ عیسائی‘ ہندو‘ سکھ‘ سمیت سبھی افراد کو جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔ گرجے‘ منادر‘ مساجد سب پر حملے ہوئے۔ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ ہمارے 144 معصوم پھول اے پی ایس سانحے میں مرجھا گئے۔ یہ ایک ایسی قیامت تھی کہ شاید ہی کسی نے دیکھی ہو۔ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں‘ ان میں بچوں‘ خواتین‘ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ فصلوں اور درختوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن ہمیں ایسے دشمنوں کا سامنا تھا جنہوں نے ہر حد پار کردی تھی۔ خودکش حملے‘ بم دھماکے‘ ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ‘ کیا کچھ ہے جو عوام نے برداشت کیا ہے۔
آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد دہشت گردی کی لہر میں کمی آنا شروع ہوئی۔ ورنہ اس سے پہلے ہر روز دھماکے ہو رہے تھے اور دہشت گردی نے شہریوں کا جینا اجیرن کیا ہوا تھا۔ امن کے حصول کے لیے ایک طویل جنگ لڑی گئی اور ہم سب نے اس جنگ کو دیکھا بھی‘ سہا بھی اور لڑا بھی۔ ہر شخص نے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالا کیونکہ جنگ کے بعد ہی امن ہمارا مقدر بنا تھا۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر ہمارے فیصلہ ساز افغان جنگ سے دور رہتے اور امریکہ کے اتحادی نہ بنتے تو شاید حالات یکسر مختلف ہوتے۔ ہماری نسل کا سارا بچپن دہشت گردی نگل گئی۔ جو لوگ افغانستان سے پاکستان ہجرت کر کے آئے‘ دہشت کی داستانیں ان کے چہروں پر لکھی ہوئی تھیں۔ جنگ اور دہشت گردی کسی بھی انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ افغان جنگ کے بعد ہم نے بھی بہت دہشت گردی دیکھی اور وہ سب کچھ دیکھا جو ایک جنگ میں ہوتا ہے۔ گولیوں اور دھماکے کی آواز ہی انسان کو خوف میں مبتلا کردیتی ہے۔ تشدد اور ظلم انسانی نفسیات پر دوررس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انسان مستقل ایک انجانے ڈر اور خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جو لوگ 1990ء اور 2000ء کی دہائی میں دہشت گردی کا شکار ہوئے یا اپنے پیاروں کو کھو دیا‘ وہ اب بھی دکھ اور درد محسوس کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ صبر آجاتا ہے‘دکھ کم ہوجاتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا! انسان یہ تکلیف ساری زندگی محسوس کرتا رہتا ہے۔ اپنے پیاروں کو دہشت گردی اور جنگوں میں کھو دینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
اے پی ایس میں ایک پیارا سا بچہ رفیق بنگش شہید ہوا تھا۔ اس کے والد عابد بنگش بھی اس صدمے سے چل بسے تھے۔ اسی طرح حسن زیب کے والد اورنگزیب اپنی اولاد کے غم میں گھلتے رہے اور جلد ہی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول ایک ایسا سانحہ تھا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد ہماری مسلح افواج نے وہ کردکھایا‘ جو شاید ناممکن تھا۔ دہشت گردی کا خاتمہ کردیا گیا اور عوام پھر سے اپنی زندگیوں کے طرف لوٹنے لگے۔مجھے خوب یاد ہے کہ جب ضربِ عضب شروع ہوا تو ایک پیارا‘ سجیلا جوان کیپٹن آکاش ربانی اپنی جان اس وطن پر وار گیا۔ جب بھی اس نوجوان کی تصاویر اس کے والدین فیس بک پر لگاتے کہ تو یہ دیکھ کر دل پھٹ جاتا کہ والدین نے کیسے اپنے پیارے بیٹے کی جدائی برداشت کی ہوگی۔ وہ روز اس کی یادیں شیئر کرتے۔ ایسے بہت سے جوانوں کی قربانیوں پر اس امن کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے والدین کا صبر دیدنی ہے۔ ان کے اپنے گھروں کے چراغ بجھ گئے لیکن وطن میں روشنی کرگئے۔
ضربِ عضب سے ملک میں سیاحت اور رونقیں بحال ہوگئیں۔ اس کے بعد آپریشن ردالفساد بھی ہوا اور دہشت گردوں کے آلہ کاروں اور معاونت کرنے والوں کو ختم کیا گیا؛ تاہم امن کو قائم رکھنا ایک جہدِ مسلسل ہے اور یہ کام ہم سب کو کرنا ہوگا۔ اب پھر بہت سال بعد دہشت گردی کی نئی لہر سامنے آئی تو مجھے وہ تمام دکھ‘ درد اور کرب یاد آگئے جو ہم سب نے مشترکہ طور پر سہے تھے۔ ارشد شریف تمام آپریشنز کو خود کور کرتے تھے۔ وہ جنگ کے میدانوں میں جاتے، غازیوں سے ہسپتالوں میں ملتے، شہدا کے خاندانوں سے بات کرتے۔یہی وجہ یہ کہ جرأت کی یہ داستانیں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ان کے حوصلے بلند تھے اور ان کا عزم تھا کہ دہشت گردی کو ختم کرکے رہیں گے۔ اب جب ایک نئی لہر سراٹھا رہی ہے تو مجھے خوف بھی محسوس ہوا اور بے چینی بھی ہوئی۔ جنگ کسی بڑے چھوٹے کو نہیں دیکھتی‘ سب کو نگل لیتی ہے‘ لوگوں کی خوشیوں کو کھاجاتی ہے اور ہر جگہ دکھ ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔
3 اور 4 نومبر کو ملک میں دہشت گردی کے بڑے حملے ہوئے۔ ہماری افواج نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پسنی‘ گوادر اور میانوالی میں ہوئے یہ حملے سب کو بہت پریشان کررہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ دشمن کا نشانہ عوام‘ ہماری افواج اور ہماری قومی تنصیبات ہیں۔ میانوالی میں ایئر بیس سے پہلے‘ اکتوبر میں ایک پولیس چوکی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب ایئربیس پر حملہ ہوا جس کے اطراف میں بہت زیادہ آبادی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری ایک نئی تنظیم نے قبول کی ہے؛ تاہم مجھے ایسا لگتا ہے کہ آگے چل کر اس کا کالعدم ٹی ٹی پی اور را کے ساتھ گٹھ جوڑ نکلے گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ان کا سہولت کار کون ہے؟ یہاں سے جو لوگ ان کی مدد کررہے ہیں وہ پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ میانوالی کی ایئربیس میں کسی فنکشنل طیارے یا اثاثے کو نقصان نہیں پہنچا۔ یہ ایک تربیتی ایئر بیس ہیں اور یہاں جنگی طیارے موجود نہیں ہوتے۔ فوج کے ترجمان کے مطابق اس حملے میں تین غیر آپریشنل طیاروں اور ایک فیول بائوزر کو جزوی نقصان ہوا ہے۔ اس حملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دشمن ہمارے طیاروں اور اثاثوں کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا کیونکہ فروری 2019ء میں انہی طیاروں کی بدولت ہم نے بھارت کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ جے ایف تھنڈر ہو یا جے ٹین سی‘ بھارت پاکستان ایئر فورس کی برتری سے خائف ہے۔ میانوالی میں حملہ کرنے والے تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا اور ان سے ملنے والا اسلحہ‘ اطلاعات کے مطابق‘ غیرملکی ساختہ ہے۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گرد غیر ملکی ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کے لوکل ہینڈلرز کو لگام ڈالنا ازحد ضروری ہے جن کی مدد کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں۔
اسی طرح گوادر بھی ملک دشمنوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ اس خطے کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے کبھی سرمایہ کاروں تو کبھی سکیورٹی فورسز کو یہاں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جمعہ کو دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ کیا جس میں 14 اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جمعہ ہی کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس پر حملہ کیا گیا اور پانچ افراد جان کی بازی ہارگئے۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر کو کچلنا ہوگا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کسی معاشرے میں سیاسی افراتفری عروج پر ہو تو دہشت گردوں کو سر اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ جب تک ملک میں حقیقی جمہوریت اور سیاسی استحکام نہیں ہوگا‘ ملک کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فوری طور پر سیاسی درجہ حرارت کو نارمل کیا جائے۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے کیونکہ اصل دہشت گرد وہ ہیں جو اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں یا دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ ان تمام حملوں کا ایک ہی مقصد ہے: ریاست کو نقصان پہنچانا۔ ہم سب کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ بحیثیت شہری میرا بھی دل کرتا ہے کہ گوادر دبئی جیسا ہو، ہم بھی کرکٹ اور فٹ بال کے ورلڈ کپ کی میزبانی کریں، یہاں بھی کانز فلم فیسٹول جیسے میلوں کا انعقاد ہو۔ اس ملک میں محنت کرنے والوں یا قربانیاں دینے والوں کی کمی نہیں۔ بس ہمارے پاس قیادت کی کمی ہے۔ جس دن ہمیں اچھی، قابل، مخلص اور دیانتدار قیادت میسر آجائے گی‘یہاں بھی سب کچھ تبدیل ہوجائے گا۔ دہشت گردی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے اس کو پنپنے سے پہلے ختم کریں اور ان حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بنادیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں