شہید بابری مسجد اور رام مندر

آپ میں سے کس کس نے وہ فوٹیج دیکھ رکھی ہے جس میں بابری مسجد کو شہید کیے جانے کے مناظر ہیں؟ یہ سب کچھ دیکھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بابری مسجد مسلمانوں کی عبادتگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی حیثیت بھی رکھتی تھی۔ کس طرح ہندو انتہا پسند بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھے ہوئے تھے اور اس کو مہندم کر رہے تھے‘ یہ مناظر دیکھ کر آج بھی دکھ ہوتا ہے۔ 1992ء میں بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں واقع اس پانچ سو سال قدیمی مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی ورثہ تھی؛ تاہم اس کو بھارت کے انتہا پسند طبقے نے اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انتہا پسندوں کے حملے نہ صرف مسجد ایک تاریخی مسجد مہندم ہوئی بلکہ سیکولر انڈیا کا دعویٰ بھی خاک میں مل گیا۔ بابری مسجد کو ایودھیا میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا‘ اسی لیے اس کو بابری مسجد کہا جاتا تھا۔ اس کی تعمیر میر باقی سالار نے 1527ء میں کرائی تھی۔ یہ مسجد مغل اور اسلامی فنِ تعمیر کا ایک شاہکار تھی۔ مسجد میں نمازیوں کے وضو کے لیے ایک کنواں بھی کھودا گیا تھا۔ اس کی چھتیں اونچی‘ کھڑکیاں جالی دار اور نقش و نگار سے مزین تھیں۔ مسجد دور ہی سے اپنے تین گنبدوں کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی۔ ایک گنبد بڑا اور دو چھوٹے گنبد تھے۔ یہ پندرہویں صدی عیسوی سے مسلمانوں کی عبادتگاہ چلی آ رہی تھی مگر تقسیمِ ہندوستان سے قبل ہی ہندوئوں کے ایک فرقے نے شوشہ چھوڑا کہ یہاں پہلے ایک مندر ہوا کرتا تھا اور بھگوان رام اس جگہ پر پیدا ہوئے تھے جس کے بعد ایک تنائو شروع ہو گیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے دو سال بعد 1949ء میں کچھ لوگوں نے چپکے سے مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دیں اور شور مچا دیا کہ بھگوان رام نے اپنی جنم بھومی ظاہر کر دی ہے‘ اس پر فساد کھڑا ہو گیا اور عدالت نے مسجد کو بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے جبکہ ہندوئوں کو ایک مخصوص حصے میں پوجا کرنے کی اجازت مل گئی۔ 1980ء کی دہائی میں بی جے پی نے دوبارہ اس مدعے میں جان ڈالی اور اس کو مسلم دشمنی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نریندر مودی کی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ دراصل انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی ذیلی تنظیم ہے۔ آر ایس ایس نے دیگر انتہا پسند تنظیموں بجرنگ دَل، وشوا ہندو پریشد، شیو سینا وغیرہ کے ساتھ مل کر یہ مہم تیز کر دی کہ ایودھیا بھگوان رام کی جنم بھومی ہے اورجس جگہ یہ مسجد تعمیر کی گئی‘ وہاں پہلے رام مندر تھا‘ لہٰذا یہاں دوبارہ مندر بنایا جائے گا۔ یہ سراسر ایک پروپیگنڈا تھا جس کو منظم طور پر پھیلایا گیا جس کی وجہ سے پورے بھارت میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ پھر حکومتی اشیرباد کے ساتھ 6 دسمبر 1992ء کو اس مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ انتہا پسند جانوروں کی طرح مسجد پر چڑھ دوڑے اور ہتھوڑے اور اینٹیں وغیرہ مار کر اس مسجد کو مسمار کر ڈالا۔ اس فساد میں انتہا پسند جماعتوں کے کارکنان، سینئر لیڈران اور مسلح جتھوں نے حصہ لیا۔ اس سانحے سے پہلے بعد وہ خون ریزی دیکھی گئی جس کی مثال نہیں ملتی اور 2 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔
مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا مطالبہ شروع ہوا تو معاملہ عدالتوں میں چلا گیا۔ اپریل 2002ء میں اس مقام کی ملکیت کے مقدمے کا آغاز ہوا۔ آثارِ قدیمہ کا محکمہ چونکہ حکومتِ ہند کے زیرِ اثر ہے لہٰذا اس نے بھی اکثریتی طبقے یعنی ہندوئوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ ایل کے ایڈوانی، واجپائی اور بال ٹھاکرے جیسے انتہا پسند رہنما وفات پا گئے تو نریندر مودی‘ جوگجرات کے مسلم کش فسادات سے مشہور ہوئے‘ نے اس کا ذمہ اٹھا لیا اور 2019ء میں بھارت کی سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے اور مسجد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ عین کورونا لاک ڈائون کے دوران‘ 5 اگست 2020ء کو اس مندر کی تعمیر کی بنیاد رکھی گئی اور ابھی اس کا تعمیراتی کام جاری ہے؛ تاہم چونکہ بھارت میں انتخابات سر پر کھڑے ہیں لہٰذا مودی سرکار نے نامکمل مندر کے افتتاح کا ہی اعلان کر دیا۔ اس افتتاح سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کو مسمار کرکے ہندوئوں نے اپنا مندر تعمیر کر لیا ہے۔
رام مندر کی تعمیر کووِڈ کے دوران کافی سست رہی اور اس کے بعد ہی اس کی تعمیر کا کام شروع ہوا مگر موددی جی کو الیکشن جیتنے کی اتنی جلدی تھی کہ نامکمل مندر کے افتتاح کے لیے پہنچ گئے۔ افتتاحی تقریب میں نہ صرف بھارتی سیاست دانوں نے حصہ لیا بلکہ شوبز‘ سپورٹس اور بالی وُڈ سے وابستہ شخصیات نے بھی بڑی تعداد بھی اس تقریب میں شرکت کی۔ بالی وُڈ مجھے بی جے پی ہی کا ایک وِنگ لگتا ہے۔ اس وقت بالی وُڈ بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے اور پاکستان خاص طور پر اس کے نشانے پر ہے۔ ہر سال متعدد فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گردوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بھارتی اداکار اسلام‘ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ رام مندر کے افتتاح کے بعد بھارت کے سیکولر چہرے کا نقاب بالکل اتر گیا ہے۔ وہاں مسلمان اس وقت خوف محسوس کر رہے ہیں اور ہندو انتہا پسند ہر طرف جشن منا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ خطرہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ کیا ان کی دیگر عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی؟ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار کی یہ مہم صرف الیکشن میں کامیابی کیلئے ہے‘ اس افتتاح سے ہندو انتہا پسندوں کا ووٹ اب بی جے پی کو ملے گا۔ بہت سے تجزیہ کار اس کو مذہبی سے زیادہ سیاسی شو قرار دے رہے ہیں۔ یہ نریندر مودی کی تیسری بار وزیراعظم بننے کی کوشش ہے جس میں وہ بظاہر کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری جانب وارنسی شہر میں اورنگزیب دور (1669ء) میں تعمیر کردہ گیان واپی کی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ سے متعلق بھی تنازع کھڑا ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ مودی سرکار مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر اہم عمارات میں سے بھی الیکشن جیتنے کے لیے کچھ نکال نہ لے۔ بھارت اپنی سیاحت میں بڑا منافع مغلیہ فنِ تعمیر سے کماتا ہے جس میں تاج محل سرفہرست ہے۔ کیا یہ تاریخی عمارتیں محفوظ ہیں؟ کل کو اگر تاج محل کے نیچے بھی مودی سرکار کو کوئی مذہبی آثار مل گئے تو کیا ہو گا؟ رام مندر کے افتتاح کے بعد مسلم ہندو فسادات پھوٹ پڑے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ پہلے ہی نریندر مودی کے ہاتھ ہزاروں مسمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ریاستِ گجرات کے مسلمان تو آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ سیاست میں مذہبی انتہا پسندی کو لانا بہت خطرناک ہے‘ اس کے دوررس منفی نتائج ہوں گے۔ بھارتی میڈیا اس افتتاح کو دیوالی کی طرف سیلیبریٹ کر رہا ہے۔ یقینا ہر شخص کو مذہبی آزادی ملنی چاہیے لیکن اس آزادی سے کسی اور کی دلآزاری نہیں ہونی چاہیے۔ یہ مندر ایودھیا میں کہیں اور بھی بن سکتا تھا لیکن ایک مسجد کو گرا کر یہ سب کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ کیا نریندر مودی صرف ہندوئوں کے وزیراعظم ہیں؟ کیا وہ بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں کے وزیراعظم نہیں ہیں؟ ہندو مذہب اور ہندوتوا میں بہت فرق ہے۔ نریندر مودی ہندوتوا اور آر ایس ایس کے پیروکار ہیں‘ اس لیے وہ اسی ایجنڈے کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس تقریب میں نریندر مودی نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو خاص طور پر مدعو کیا۔ وہ خود کو سیاست دان نہیں بلکہ ایک مہاتما کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہندو مذہب دوبارہ جنم لے رہا ہے۔ وہ خود کو دیوتا بھی قرار دے دیں تو ان کو کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ سیکولر انڈیا تو دور کہیں کونے میں دبک کر کھڑا جنونیت کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ یہ کیسا دیوتا ہے جو گجرات کا قصائی کہلاتا ہے اور جس کے ہاتھوں سے خون ٹپک رہا ہے۔
نریندر مودی اپنے ملک میں جو بھی کریں‘ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ایک مسجد کو گرا کر ایک مندر تعمیر کرنے سے بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی دلآزاری کی گئی ہے۔ مندر ضرور بنائیں‘ اپنے مذہب کے مطابق جیئں مگر دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح نہ کریں۔ ایک شہید مسجد کی باقیات پر مندر کی تعمیر افسوسناک ہے اور آگے چل کر یہ انتہاپسندی اور دَنگوں کو مزید ہوا دے گی۔ سیکولر انڈیا کا لبادہ اب اتر چکا ہے۔ مودی بھگتوں کو چاہیے کہ اب بھارتی آئین سے بھی سیکولرازم کی شق ختم کر دیں اور ایک مورتی مودی جی کی بھی مندر میں رکھ لیں شاید ان کی جنونیت کو کچھ سکون مل جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں